آڈیو لیکس کا معاملہ ان دنوں تھم گیا ہے۔ گاہے گاہے مگر اب بھی یہ ایک ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اخلاقی طور پر بکھرتے اس سماج کا ایک ورق ہے جو فضا میں مسلسل محوِ پرواز ہے۔ جب تک یہ ہوا کے دوش پر سوار رہے گا‘ ہماری داستانِ زوال سناتا رہے گا۔
ان لیکس کو جس زاویے سے سنیے‘ یہ ہمارے اخلاقی زوال کا افسانہ کہہ رہے ہیں۔ ریکارڈ کس نے کیا‘ گفتگو کرنے والے کون ہیں‘ نفسِ مضمون کیاہے‘ ہر سوال کا ایک ہی جواب ہے: ریاستی ادارے ہوں یا سماجی و سیاسی‘ پستی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ ریاست کا وقار باقی ہے نہ سماج کی بُنت۔ اعلیٰ ترین مناصب پر اخلاقی اعتبار سے پست ترین لوگ بٹھا دیے گئے۔ آج بٹھانے والے بھگت رہے ہیں اور بیٹھنے والے بھی۔
مکرر عرض ہے کہ زوال ہمہ گیر ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ سماج مجموعی طور پر زوال پذیر ہو اور کوئی ایک شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ اخلاقی گراوٹ جب بستیوں کا رخ کرتی ہے تو ہر گھر پر دستک دیتی ہے۔ کوئی جلدی دروازہ کھول دیتا ہے اور کوئی قدرے تاخیر کے ساتھ۔ لوگ تادیر جزیرہ نہیں بنا سکتے۔ کانِ نمک میں نمک ہو جاتے یا پھر ہجرت کر جاتے ہیں۔ شہر اسی طرح صاحبانِ خیر سے خالی ہو جاتے ہیں۔
معزز جج صاحبان کے دل کا حال ان کے اہلِ خانہ پرکھل چکا۔ اہلِ خانہ کیا‘ پچیس کروڑ عوام جانتے ہیں کہ کون سا جج کیا فیصلہ دے گا۔ کبھی اس کا تصور بھی محال تھا کہ کوئی منصف کے نہاں خانۂ دل تک رسائی پا سکتا ہے۔ آج عدالت کے معاملات گھروں میں زیرِ بحث آتے اور اہلِ بیت شریکِ مشاورت ہوتے ہیں۔ جن مناصب کے لیے دل میں طلب پیدا ہو جائے اور لوگ اس کے لیے مسلسل تگ و دو کریں تو اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے۔ اس نظام سے کسی خیر کی توقع عبث ہے۔
آ پ نے کبھی سوچا کہ غیبت‘ بہتان تراشی اور افواہ سازی سے کیوں منع کیا گیا ہے؟ جس سماج میں ان اخلاقی رزائل کا چلن ہو جائے‘ وہاں حسنِ ظن باقی نہیں رہتا۔ جہاں اچھا گمان نہ ہو‘ وہاں انسانی تعلقات خیر سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لوگ مجلسی تبسم سجائے ایک دوسرے سے ملتے ہیں مگر جدا ہوتے ہی ان کا پہلا تبصرہ منفی ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں تعلقات مفاداتی ہوتے ہیں۔
یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ریاست ایک عارضی بندوبست ہے۔ سماج مستقل ہے۔ ریاست کا بناؤ اور بگاڑ یقینا سماج پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی جوہری تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔ انگریزوں کی آمد سے برصغیر کا ریاستی ڈھانچہ یکسر بدل گیا۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ سماج بھی بدل جائے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ تعلیم ہے جو ذہن سازی کرتی ہے۔ اگر ذہن بدل دیے جائیں تو آدمی بدل جاتا ہے۔ پھر یہ اہم نہیں رہتا کہ اس کا نام جوزف ہے یا یوسف۔ دونوں صورتوں میں وہ ایک ہی طرح کا سماجی کردار ہوگا۔ اتنی اہم تبدیلی کے باوصف‘ وہ ایک حد تک ہی 'جوزف‘ پیدا کر سکے۔ اکثریت کے ذہن نہیں بدلے۔
کمال ازم نے بھی یہی کوشش کی۔ ترکیہ مگر تبدیل نہ ہو سکا۔ کمال ازم ریاستی وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود صرف شہری آبادی ہی میں اپنی جگہ بنا سکا۔ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی ہوئی تو کمال ازم تارِ عنکبوت ثابت ہوا۔ وہ مذہب اور کلچر جو دیہی علاقوں میں محفوظ تھا‘ اس نے شہروں کے کلچرکو بھی بدل ڈالا۔ ریاست کا جبر بھی ایک وقت آیا کہ بے بس ہو گیا۔
یہ معاشرتی ادارے تھے جنہوں نے سماجی بنت کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔ ریاست کی کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقے تقسیم کے بعد بھی وہی رہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں اس سے زیادہ فرق نہیں پڑا کہ پہلے انگریز حکمران تھے اور اب مسلمان اس کے حاکم بن گئے ہیں۔ وہ نسل تو اب ختم ہو گئی لیکن جو دو چار رہ گئے ہیں‘ وہ اس کی شہادت دیں گے کہ مقامی ماحول میں اس کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ یہاں جو ہندو یا سکھ رہتے تھے‘ وہ اپنی جائیداد اونے پونے داموں بیچ کر رخصت ہو گئے۔
زرعی معاشرے‘ سیاسی تبدیلیوں سے سب سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معیشت بڑی حد تک مقامی ہوتی ہے۔ یہ معیشت ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کفایت کرتی ہے۔ بہت آسودگی نہ سہی لیکن ایک عام آدمی زندہ رہنے کے اسباب تلاش کر سکتا ہے۔ سماجی ادارے اس کے کلچر کی حفاظت کرتے ہیں۔ مسلم سماج کے پس منظر میں دیکھیے تو مسجد‘ مکتب‘ خانقاہ‘ سب مل کر اسے اپنے معاشرے میں اجنبی نہیں بننے دیتے۔ سیاسی تبدیلیوں کے باوجود اس کے روز و شب ایک سے رہتے ہیں۔
مجھے اتفاق ہے کہ سماج کی ہیئت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی مگر اتنی سست رفتار اور تدریجی ہے کہ اس کو ایک فیصلہ کن موڑ تک پہنچنے کے لیے عشروں پر محیط وقت کی ضرورت ہوگی۔ مجھے چند روز پہلے تلہ گنگ کے مضافات کے لیے ایک سفر درپیش ہوا۔ میں نے دیکھا کہ 'نئی تبدیلیوں‘ نے مدرسے اور خانقاہ پر فنِ تعمیر کے اعتبار سے تو اثر ڈالا ہے لیکن مدرسے یا خانقاہ کا مزاج وہی ہے اور تعداد بھی روز افزوں۔ میں ایک جنازے میں شرکت کے لیے گیا تھا۔ سب کچھ اسی طرح تھا جس طرح سے میرے بچپن میں تھا۔
مصلحین نے جتنی توانائیاں ریاست کو بدلنے پر صرف کر ڈالیں‘ اگر سماج کو خرابیوں سے دور رکھنے کے لیے صرف کرتے تو ہم آج زیادہ مستحکم ہوتے۔ ہمارا سماجی سٹرکچر وہی ہے مگر قانونِ فطرت کے عین مطابق اس میں خرابیاں در آئی ہیں۔ مسجد ہو یا خانقاہ‘ ان کا وجود خیر کا باعث ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امام اور مجاور میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ اس بگاڑ کو روکنے کے لیے معاشروں کو سماجی مصلحین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تصورات کی اصلاح کرتے ہیں اور سماجی رویوں کی بھی۔ ہم نے وہ مصلحین نہیں پیدا کیے۔ ہم یہ خیال کرتے رہے کہ ریاست سب کچھ ہے‘ اس لیے ہم نے سیاسی مصلحین پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ ریاست کی اصلاح کیا ہوتی‘ سماج ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
آڈیو لیکس نے‘ میرا اندازہ ہے کہ سیاست کو تبدیل نہیں کیا‘ صرف اس کی اخلاقی گراوٹ کو نمایاں کیا ہے جس کے بارے میں لوگ اب زیادہ حساس نہیں رہے۔ سیاست کسی اخلاقی برتری کے تصور پر نہیں‘ عصبیت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان آڈیو لیکس کے اصل کردار اپنی مقولیت کھو چکے ہوتے۔ ایک سیاسی لیڈر کے خلاف آپ جتنی وڈیوز لے آئیں‘ وہ سب بے اثر ہیں۔
اس حرکت سے ہم صرف سماجی بگاڑ ہی کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس کا حاصل اس کے سوال کچھ نہیں۔ تبدیلی اسی وقت آئے گی جب عوام اخلاقی اقدار کے بارے میں حساس ہوں گے۔ یہ حساسیت سماجی مصلحین پیدا کرتے ہیں نہ کہ سیاسی مصلحین۔ سیاسی مصلحین کا انجام یہی ہے کہ وہ کانِ نمک میں نمک ہو جائیں۔ چند مخلصین کو اللہ بچا لیتا ہے مگر انہیں اقتدار سے دور رکھ کر۔ ان کی ساکھ بچ جاتی ہے مگر اقتدار نہیں ملتا۔ اقتدار کے ساتھ‘ ساکھ اسی وقت بچ سکتی ہے جب معاشرہ اخلاقی قدروں کو ترجیح دیتا ہے۔
اگر ہم پاکستانی ریاست کو بچانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں پاکستانی سماج کو اخلاقی طور پر مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ ہیجان‘ دشنام‘ الزام تراشی‘ جھوٹ اور تقسیم کے سیاسی کلچرکو اپنا کر نہیں ہو گا۔ اس کے لیے سماج کو اخلاقی طور پر زندہ کرنا ہوگا۔ یہ کام سماجی مصلحین کریں گے۔