سیاستدان اور ٹیکنوکریٹ کا فرق‘ امید ہے اب قوم کی سمجھ میں آ گیا ہوگا۔
انگلیاں گھس گئیں لکھتے لکھتے۔ جو بات مجھ جیسے برسوں میں نہیں سمجھا سکے‘ وقت نے دو ہفتوں میں سمجھا دی۔ یہ سچ ہے کہ زمانے سے بڑا استاد کوئی نہیں۔ ہم زندگی میں بہت سے مفروضے قائم کرتے ہیں۔ جیسے تیسری قوت۔ جیسے روایتی سیاست کا خاتمہ۔ جیسے کرپشن سے پاک ملک۔ جیسے نوجوان قیادت۔ ایسا ہی ایک مفروضہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت بھی ہے۔ خواب فروش ایسی خواہشوں کو پَر لگا دیتے ہیں اور لوگ اس طرح پیچھے بھاگتے ہیں جیسے کٹی پتنگ کے پیچھے بچے۔
اقتدار طاقت سے قائم رہتا ہے یا عوامی اعتماد سے۔ طاقت کا استعمال اسی وقت کیا جاتا ہے جب عوام کی تائید میسر نہ ہو۔ اسی سے ظلم جنم لیتا ہے اور ظلم سے اضطراب۔ یہ اضطراب حکومت اور ریاست‘ دونوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ اس کے برخلاف جس حکومت کو عوامی اعتماد مل جاتا ہے‘ وہ مستحکم ہو جاتی ہے۔ عوام برضا اطاعت پر آمادہ رہتے ہیں اور سماج میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہ اعتماد ہے جسے 'عصبیت‘ کہتے ہیں۔ ان معنوں میں عصبیت اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ یہ اقتدار کے استحکام کی لازمی شرط ہے۔
الیکشن کیا ہے؟ یہ جاننے کا طریقہ کہ کسے عصبیت حاصل ہے۔ عصبیت ہمیشہ اہلِ سیاست کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ مختلف عوامی گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ عصبیت کبھی ٹیکنوکریٹس کو میسر نہیں ہو سکتی۔ ان ماہرین کا تعلق عوام سے نہیں‘ فنون اور علم سے ہوتا ہے۔ یہ بتا سکتے ہیں کہ سستی بجلی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ ہائیڈل پاور کے لیے ڈیم کی تعمیرکا ایک پراجیکٹ بنا سکتے ہیں۔ سماجی حالات اس کی تعمیر کے لیے سازگار ہیں یا نہیں‘ ان میں یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ فیصلہ وہی کر سکتا ہے جس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو۔ اہلِ سیاست کو ان کی فنی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے پارلیمنٹ میں ان کے لیے نشستیں مخصوص ہوتی ہیں کہ وہ عوامی تائید سے ان ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
یہ بہت طفلانہ مقدمہ ہے کہ یہ سیاستدان کیسے حکومت چلائیں گے جو اَن پڑھ ہیں؟ انہیں کیا معلوم ہے کہ توانائی کا بحران کیا ہے؟ سستی بجلی کیسے پیدا ہوتی ہے؟ متبادل توانائی کیا ہے؟ یہ کوئی ٹیکنو کریٹ ہی بتا سکتا ہے۔ اس لیے اقتدار ان کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔ اہلِ سیاست کے لیے یہ فنی باتیں جاننا ضروری نہیں۔ سادہ معلومات کافی ہیں۔ ان کو یہ دیکھنا ہے کہ سماجی حرکیات کی روشنی میں کون سا منصوبہ قابلِ عمل ہو گا اور اس کے سیاسی و سماجی مضمرات کیا ہوں گے۔
ریاست کا موجودہ نظام اپنی بُنت میں حکیمانہ ہے۔ بیوروکریسی معاملات کو فنی سطح پر دیکھتی ہے۔ بیوروکریسی ماہرین کے تعاون سے منصوبہ بنا دیتی ہے۔ فیصلہ کابینہ میں ہوتا ہے جہاں وہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو براہِ راست عوام سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک فیصلے کے سماجی اثرات کیا ہوں گے۔ کالا باغ ڈیم اس کی ایک مثال ہے۔ نواز شریف صاحب اور عمران خان صاحب دونوں اس کے حق میں تھے۔ دونوں بطور وزیراعظم یہ ڈیم نہیں بنا سکے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ مرکزی حکومت کے سربراہ کی حیثیت میں وزیراعظم کو سب اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ وہ محض ایک ٹیکنوکریٹ کی بنائی ہوئی فزیبلٹی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جس منصوبے کے خلاف دو صوبائی اسمبلیاں قرارداد منظور کر چکی ہوں‘ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو‘ سیاسی استحکام کو داؤ پر لگا کر اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ایک آمر یہ فیصلہ کر سکتا ہے مگر سیاسی حکمران نہیں۔ اسی لیے مارشل لا ء کو وفاق کے لیے ہمیشہ خطرہ سمجھا گیا ہے۔
یہی معاملہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کا ہے۔ عمران خان صاحب کے دور میں ابتدا ہی میں تین وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے۔ کیوں؟ اسد عمر چاہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے بغیر معیشت کو چلایا جائے۔ وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ان کے پاس کوئی قابلِ عمل متبادل بھی نہیں تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں حکومت کو جو فیصلے کر نے ہیں‘ وہ عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ اب ریاست ایک ایسی جگہ کھڑی تھی کہ آئی ایم ایف سے رجوع مجبوری تھی۔ حکومت حفیظ شیخ صاحب کو لے آئی اور وہ آئی ایم ایف کے پاس لے گئے۔
معاہدہ ہو گیا۔ ہم جو کچھ آج دیکھ رہے ہیں‘ یہ اسی کے نتائج ہیں۔ اس وقت مگر وہ اضطراب پیدا نہیں ہوا جو آج ہے۔ وجہ وہی کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی حکومت تھی۔ کم یا زیادہ‘ لوگ عمران خان صاحب پر اعتماد کرتے تھے۔ اس لیے اسے گوارا کر لیا گیا‘ تاہم بڑے تناظر میں دیکھیے تو عوام کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول سستا کر دیا۔ ان کے بعد جو حکومت آئی اس میں بھی دو نقطہ ہائے نظر تھے۔ ایک مفتاح اسماعیل صاحب کا تھا۔ وہ ٹیکنوکریٹ ہیں۔ ان کا زاویۂ نظر یہ تھا کہ آئی ایم ایف جو کہتا ہے اسے مان لیا جائے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ حقیقت پسندانہ بات تھی لیکن عوامی سیاست کرنے والوں کیلئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی تھی۔ اسحاق ڈار صاحب سیاستدان ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو ماضی کی طرح نرمی پر آمادہ کر لیں گے۔ وہ اس میں ناکام رہے۔
آج جو حکومت ہے اس کی اپروچ صرف اور صرف حقیت پسندانہ ہے۔ اسے عوام کے جذبات سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے نہ تو ووٹ لینا ہے اور نہ عوام کا سامنا کرنا ہے۔ عوام پر اس کی اپیلیں اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ آج الیکشن کو اگر مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے تو کیوں؟ الیکشن میں جو بھی کامیاب ہو‘ وہ مہنگائی کو ختم نہیں کر سکتا۔ الیکشن کے بعد بھی معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ‘لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ استحکام آ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس استحکام کی بنیاد کیا ہو گی؟ اس کا جواب ہے: عوامی اعتماد۔ اسی کو سیاسی عصبیت کہتے ہیں۔ سیاسی استحکام‘ معاشی خوش حالی یا بد حالی سے بالواسطہ متعلق ہوتا ہے۔ یہ سیاسی عصبیت یا عوامی تائید ہے جو ایک حکومت کو سیاسی استحکام دیتی ہے۔ ٹیکنو کریٹس اس عصبیت کے حامل نہیں ہوتے۔ ان کی قابلیت یہاں زیرِ بحث نہیں۔ میں اس سیاسی اصول کا ذکر کر رہا ہوں کہ حکومت اہلِ سیاست ہی کا کام ہے اور انہی کو کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ جب سیاستدان ناکام ہو جائیں تو پھر کیا کِیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعت کو موقع دیا جائے۔ اہلِ سیاست کا متبادل بھی اہلِ سیاست ہوتے ہیں‘ بیوروکریٹس یا ٹیکنوکریٹس نہیں۔ عمران خان صاحب اگر اس بات کو سمجھ لیتے اور اپنے دورِ اقتدار میں سیاسی حریف کے انتخاب میں غلطی نہ کرتے تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہوتے اور وہ بھی اس مشکل میں نہ ہوتے۔ اگر وہ بطور وزیراعظم اپوزیشن سے براہِ راست معاملہ کرتے‘ ان سے اعتماد کا رشتہ قائم کرتے اور اس کام کے لیے ریاستی قوتوں کی معاونت طلب نہ کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ جس طرح دو ہفتوں میں لوگوں کو سیاستدان اور ٹیکنو کریٹ کا فرق سمجھ آنے لگا ہے‘ امید ہے خان صاحب اور تحریکِ انصاف کو یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی۔
ہمیں ٹیکنوکریٹس کی پیشہ ورانہ صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سیاست اور حکومت بہر حال اہلِ سیاست ہی کو زیبا ہے کہ ان کی فطری ساخت اس کے لیے سازگار ہے۔ برے سیاستدان کا بدل اچھا سیاستدان ہے‘ کوئی بیوروکریٹ یا عالمِ دین نہیں۔ جس دن ہم نے اس فرق کو جان لیا‘ سیاست اپنے فطری ڈگر پر آ جائے گی۔