اس کالم کا عنوان مولانا مسعود عالم ندوی کے ایک رسالے سے مستعار ہے جو انہوں نے امام محمد بن عبدالوہاب کے دفاع میں لکھا تھا۔یہ کالم ایک اور مظلوم اور بدنام مصلح‘ سر سید احمد خان کے دفاع میں ہے۔
سر سید کے بارے میں تاریخ اپنا فیصلہ سنا چکی۔ میراگمان تھا کہ یہ فیصلہ سب نے سن لیا اور اس پر مزیدکچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ یہ گمان درست نہیں تھا۔گزشتہ کالم میں‘سرسید کے بارے میں ایک کلمہ خیرلکھنے پر‘کچھ پڑھنے والوں کا جو ردِ عمل سامنے آیا‘اس سے اندازہ ہوا کہ سر سید آج بھی کٹہرے میں کھڑے ہیں اوروہ فردِ قراردادِ جرم داخل دفتر نہیں ہوئی‘ جن کا انہیں عمر بھر سامنا رہا۔یہ مظلوم مصلح پسِ مرگ بھی کسی وکیل کی تلاش میں ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ چند دن پہلے‘مجھے ایک کتاب ''سرسید کا آئینہ خانۂ افکار‘‘ مو صول ہوئی۔اسے زبان و ادب اور مذہب کے ایک بڑے عالم ڈاکٹر سید محمدابو الخیر کشفی نے مرتب کیا ہے۔یہ کتاب سر سید کی وفات کو ایک صدی گزرنے کے بعد‘پہلی مر تبہ 1998 ء میں بھارت اور پھر پاکستان سے شائع ہوئی۔اب یہ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے دوبارہ طبع ہوئی ہے۔جو لوگ سر سید کی تمام علمی و اصلاحی تحریروں تک رسائی نہیں رکھتے اور ان کے افکارو خیالات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں‘ یہ کتاب ان کے لیے کفایت کرتی ہے۔ یہ ان کے مقالات‘ خطبات‘ مکتوبات اور منظومات کاایک اچھا انتخاب ہے۔
سرسید پرسب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور انگریزی زبان کی راہ پر ڈال کر‘انہیں مسلم تہذیب اور روایت سے دور کیا۔یوں انگریزوں ہی کی ایک خدمت سرانجام دی ہے جو بر صغیر کے مسلمانوں کا تعلق‘ اُن کی روایت سے کاٹ دینا چاہتے تھے۔یہ الزام نہیں‘اتہام ہے۔بلا شبہ سر سیدیہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزی زبان سیکھیں۔انگریزی جدید علوم کی زبان تھی اور اس سے تعلق توڑ کر مادی ترقی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔اگر وہ یہ مشورہ نہ دیتے تو مسلمانوں کے ساتھ ان کا اخلاص مشتبہ ہوتا۔سوال یہ ہے کہ کیاسر سید مسلمانوں کی مذہبی اور علمی روایت کی قیمت پر انگریزی اور جدید تعلیم چاہتے تھے؟اس کا جواب نفی میں ہے۔
سر سیدکیا چاہتے تھے‘انہوں نے خود واضح کررکھا ہے: ''میں بے شک اس بات کا موید ہوں کہ اس زمانے میں مسلمانوں کو بڑے زور وشدت اوربڑے ذوق اور انہماک کے ساتھ انگریزی کی تحصیل میں کوشش اور سعی کرنی چاہیے۔مگر میں ساتھ ہی بڑے زور سے یہ بات بھی کہوں گا کہ میرے مسلمان بھائی ہر گز عربی کا دامن نہ چھوڑیں۔ انگریزی کی تعلیم ہمیں حاکموں اور افسروں سے ملاتی ہے اور عربی کا حصول ہمیں خدا اوراس کے رسولﷺ سے ملاتا ہے۔اس بات سے دونوں زبانوں کا فرق معلوم کر لو اوردونوں کی تحصیل میں پوری کوشش کے ساتھ مشغول ہو جاؤ تاکہ تمہاری دنیا بھی ٹھیک ہوجائے اور اور تمہارا دین بھی درست ہو جائے۔انگریزی کی طرف متوجہ نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تمدنی لحاظ سے نہایت پس ماندہ ہوجا ئیں گے اور عربی کی تحصیل سے غفلت کے باعث ہم اپنے مذہب‘اپنی ثقافت‘اپنی سابقہ تعلیم‘اپنے گزشتہ تمدن اوراپنی پچھلی شائستگی سے قطعاً ناواقف رہیں گے۔پس دونوں کھونٹے مضبوط پکڑو۔‘‘
یہ سرسید کی ایک تقریر کا اقتباس ہے جو انہوں نے16اکتوبر1883ء کو کلکتہ میں کی۔انہوں نے اسی تقریر میں کہا: ''اگر مسلمان نوجوانوں کو جدید علوم و فنون اور انگریزی زبان کی تعلیم‘ عربی زبان اور اسلامیات کی تدریس کے ساتھ دی جائے تو بہت حد تک امید کی جا سکتی ہے کہ طلبہ میں بے دینی اور لا مذہبیت کا مادہ پیدا نہیں ہو گا اور وہ اپنے مذہب اور عقیدے پر پختہ اور مضبوط رہیں گے۔‘‘وہ ایک اوربات بھی کہتے ہیں: ''ہمارے علما پر بھی یہ فرض عائد ہو تا ہے کہ وہ بھی فلسفۂ جدید کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں نکلیں۔یاتو جدید فلسفے کو باطل ثابت کریں یا اسلامی مسائل کو جدید فلسفے سے مطابق کر کے دکھائیں۔‘‘کیا تعلیم اورعلم کے باب میں اس سے زیادہ معقول بات کہی جا سکتی ہے؟
یہ واحد موقع نہیں جن انہوں نے اپنے تعلیمی فکر کو واضح کیا ہو۔اس موضوع پر انہوں نے سب سے زیادہ لکھا اور بولا۔دسمبر1893ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں بھی انہوں نے انگریزی کے ساتھ عربی ہی نہیں‘فارسی کی تعلیم کو بھی ضروری قرار دیا۔انہوں نے کہا: ''مسلمانوں کو مذہبی تعلیم دینا بھی‘ادنیٰ درجے کی یا اوسط درجے کی یا اعلیٰ درجے کی‘ہم پر فرض ہے کیونکہ مختلف اقوام کو جس چیز نے ایک قوم بنایا وہ صرف اسلام ہے۔اگر ہم اسی کی فکر نہ رکھیں تو قومیت قائم نہیں رکھ سکتے۔کم سے کم یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو صرف ضروری عقائد مذہبی اور احکامِ مذہبی کی تعلیم دیں جس کو ہم نے ادنیٰ درجے کی تعلیم سے تعبیر کیا ہے‘‘۔
سرسید انگریزوں کے قائم کردہ سکولوں کو مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں سمجھتے تھے۔ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ ادارے دیگر ہندوستانیوں کے لیے تو مناسب ہیں جو مذہب کو عام تعلیم سے الگ رکھتے ہیں مگر مسلمانوں کے لیے نہیں کیونکہ ''ان کی مذہبی تعلیم‘عام تعلیم میں ایسے ملی ہوئی ہے جیسے جسم و جاں‘‘۔ اس لیے ان کا اصرار تھا کہ مسلمانوں کے اپنے تعلیمی ادارے ہوں۔کیا کوئی منصف مزاج ایسے آدمی کو انگریزوں کا ایجنٹ کہہ سکتا ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انگریزوں نے یہ تعلیمی نظام سر سید کے مشورے سے بنایا تھا؟اس تعلیمی نظام کا خالق لارڈ میکالے تھا جس کا بنایا خاکہ شائع ہو چکا۔
سر سید نے علی گڑھ کے طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے مولانا قاسم نانوتوی کے داماد کا انتخاب کیا۔یہ انتخاب کیوں کیا‘اس کی وجہ انہوں نے منشی سعید احمد کے ایک خط میں بیان کی: ''مولوی عبداللہ صاحب فرزند ہیں مولو ی انصار علی صاحب کے۔نواسے ہیں مولوی مملوک علی صاحب کے۔داماد ہیں مولوی محمد قاسم صاحب (نانوتوی)کے اور ان سب بزرگوں سے مجھے ذاتی واقفیت ہیں۔ اور امید ہے کہ ان بزرگوں کی صحبت کے فیض سے مولوی عبداللہ صاحب کی بھی ایسی ہی طبیعت ہے کہ دینی کاموں کو بہ لحاظ دین اور بہ لحاظِ محبت اسلام انجام دیں۔اور اسی وجہ سے میں ان کا مدرسے میں تشریف لانا اور یہاں رہنا باعثِ خیر وبرکت سمجھتا ہوں‘‘۔
سر سید ان سے اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ نمازِ پنجگانہ کی خود امامت کرائیں۔اس سے طلبہ کو باجماعت کی ترغیب ملے گی۔ اس کے ساتھ وہ کسی نماز کے بعد طلبہ کو وعظ و نصیحت بھی کریں۔سرسید نے علی گڑھ کے طلبہ کے لیے ترکش لباس بطور یونیفارم مقرر کیا تھا۔انگریز پرنسپل اوراساتذہ کو یہ بات ناپسند تھی۔انہوں نے ایک مضحکہ خیز سا لباس تجویز کیا‘ طلبا جس پر خوش نہیں تھے۔ سر سید کو اس پر بہت غصہ آیا۔انہوں نے پرنسپل مسٹر بک کی موجودگی میں جو تقریر کی وہ پڑھنے کے لائق ہے۔
کالم کے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ میں مزید دلائل جمع کروں اور قسط وار کالم لکھنے سے میں گریز کرتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ تعلیم کے باب میں سر سید کا موقف سمجھنے کے لیے یہ شواہد کفایت کرتے ہیں۔ رہے دوسرے پہلو تو انہیں کسی دوسرے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مظلوم اوربدنام مصلحین کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔یہ کالم سے زیادہ اب کتاب کا موضوع ہے۔