ہیجان ‘سگریٹ نوشی کی طرح ہے۔آپ اس عادت میں مبتلا نہ ہوں تو بھی فضا میں پھیلا دھواں آپ کومتاثر کرتا ہے۔اسی لیے مہذب معاشروں میں عوامی مقامات پر سگرٹ پینا ممنوع ہے۔کاش ہیجان پر بھی ایسی پابندی لگ سکتی۔
ہیجان کی فضا میں مکالمہ نہیں ہو سکتا۔صرف مناظرہ ہو سکتا ہے۔ مناظرہ تحریری بھی ہوتاہے لیکن اس کااصل میدان تقریر ہے۔ہیجان پرور میڈیا نے مناظرے کے اس کلچر کو فروغ دیا ہے۔اس کے اثرات انسانی رویوں پر پڑے ہیں۔میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اب تادیر تنقیدی گفتگو کر سکتا ہوں نہ سن سکتاہوں۔طبیعت میں شدید تکدر پیدا ہوتا ہے اور معقول بات بھی کانوں کو بھلی نہیں لگتی۔
تحریر کا معاملہ یہ نہیں ہے۔بُری سے بُری تنقید پڑھ لیتا ہوں۔یہاں تک کہ گالیاں بھی۔اس کے لیے میں عمران خان صاحب اور تحریکِ انصاف کا بطورِ خاص ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کی مشق کر وا دی ہے۔ گزشتہ چارپانچ سال میں جتنی گالیاں برداشت کی ہیں‘ان کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ تنقید پڑھ لیتا ہوں اور اس میں کام کی بات بھی کسی حد تک تلاش کر لیتاہوں‘اگر موجود ہو۔یہ معاملہ سیاست ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔اہلِ مذہب میں بھی یہ تنقیدی مکتبِ فکر موجودہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی ایک دشنام کا جواب نہیں دیا۔ میں اس پر غور کرتا رہا کہ تحریراور تقریر پرمیرے ردِ عمل میں یہ فرق کیوں ہے؟تقریر یا گفتگو کیوں نہیں سنی جا تی اور سخت سے سخت بات‘تحریر کی صورت میں ہو تو کیوں گوارا ہوجاتی ہے؟
گفتگو میں شتابی سے جواب دینا ہوتا ہے۔اس میں سوچنے کا موقع کم ملتا ہے۔مخاطب کی اشتعال انگیزبات آپ کو غصہ دلاتی ہے اور غصے کا فوری ردِ عمل‘کسی سوچ بچار کا نتیجہ نہیں ہوتا۔یوں جذبات کی رو میں منہ سے کچھ بھی نکل سکتا ہے۔منہ سے نکلی بات واپس نہیں آتی۔ یوں اصل بات پس منظر میں چلی جاتی ہے اور ماحول ایک دوسرا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔تلاشِ حق کا مقصد باقی نہیں رہتا اور انسان اپنی باگ جذبات کو تھما دیتا ہے۔تنقیدی گفتگو اگر مہذب لوگوں کے ساتھ ہو تو اس صورتِ حال کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم میں نے محسوس کیا ہے کہ مجموعی فضا پر ہیجان کا غلبہ ہو تو بظاہرمہذب دکھائی دیتے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔
دورِ جدید میں انسانی شخصیت کو پرکھنے کا معیار 'جذباتی ذہانت‘ (Emotional Intelligence) کو مانا جا تا ہے۔ اس کی تعلیم و تربیت کے لیے ‘امریکہ میں ایک ادارہ قائم ہے 'چھ سیکنڈ‘۔اس کے مطابق اگر کسی اشتعال انگیز بات پر ردِ عمل دینے سے پہلے چھ سیکنڈ کا وقفہ کر لیا جائے تو آدمی کاطرزِ عمل معقول ہوجاتا ہے۔وہ شدتِ جذبات سے نکل آتا ہے اور اس غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے جوغصے کے نتیجے میں ہو سکتی ہے۔یہ غصے پر قابو پانے کی ایک ترکیب ہے۔مذہب نے بھی اس کی صورتیں بتائی ہیں لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔
دشنام آمیزتحریر پڑھتے وقت بھی غصہ آتا ہے لیکن لکھنے والا چونکہ سامنے نہیں ہو تا‘اس لیے فوری ردِ عمل دینا ضروری نہیں ہوتا۔اس سے ہمیں وہ وقفہ میسر آجاتا ہے جب عقل و خرد کو بروئے کار لا کر جواب دیاجا سکتا ہے۔اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ اصل موضوع پر بات ہو اور ممکن ہے کہ اس سے کوئی خیر برا ٓمد ہو جائے۔میں جب اس پہلو پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ سنجیدہ اور جید عالم اور سیاستدان مناظرے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟وہ کیوں یکطرفہ شکست تسلیم کر لیتے ہیں مگر مناظرہ نہیں کرتے۔
1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں‘ہمارے ہاں مناظرے کا ایک بازار گرم رہا جس کا بڑا ہدف مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی تھے۔یہ غالباً 1970ء کے اوائل یا1969 ء کی بات ہے‘ راولپنڈی کے معروف عالم اور خطیب مولانا غلام اللہ خان نے مولانا مودودی کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ ان دنوں شورش کاشمیری مرحوم کا ہفت روزہ ''چٹان‘‘ پاکستان کے مقبول ترین رسائل میں سے تھا۔شورش کے مولانا غلام اللہ خان اور مولانا مودودی‘دونوں سے اچھے تعلقات تھے۔انہوں نے مولانا غلام اللہ خان کا چیلنج مولانا مودودی تک پہنچایا۔اس کے جواب میں مولانا نے ان کے نام ایک خط لکھا جو ''چٹان‘‘ کے سر ورق پر شائع ہوا۔
میرے والد ''چٹان‘‘ کے مستقل خریدار تھے۔میں نے بچپن میں 'چٹان ‘ کا وہ شمارہ دیکھا تھا۔وہ شاید اب بھی کہیں محفوظ ہو۔ مولانا مودودی نے اپنے خط میں بتایا کہ وہ کس وجہ سے مناظرے سے گریز کرتے ہیں۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ پیشکش کی کہ مولانا غلام اللہ خان کو ‘ان کے افکار اور تحریروں پر جو اعتراضات ہیں‘وہ انہیں لکھ کر ''چٹان‘‘ میں شائع کرادیں۔میں 'چٹان ‘ ہی میں ان کاجواب دے دوں گا۔مولانا مودودی کی اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا۔
مناظرے سے گریز کی یہ حکمت اب مجھ پر پوری طرح واضح ہے۔تحریر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہوتی ہے۔ لکھنے والے کے پاس یہ فرصت ہوتی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ اپنی بات کہے۔اسے فوری ردِ عمل نہیں دینا ہوتا۔ جو بات ایک سوچی سمجھی مہم کے تحت تحریری صورت میں کہی جاتی ہے اور جس کی ایک شکل کالموں پر تبصرے ہیں‘ میں ان کا ذکر نہیں کر رہا۔وہ تو سیاسی و مذہبی پروپیگنڈا کا ایک حصہ ہوتی ہے۔اس کا مقصد کسی بات کی تفہیم یا اس کی تہہ تک پہنچنا نہیں ہوتا۔تاہم جب وہ کثرت سے ہونے لگے اور اس ہیجان کا حصہ ہو جسے برپا رکھنا‘سیاسی حکمتِ عملی کاتقاضا ہو‘تواس کے مضر اثرات سے پورا معاشرہ آلودہ ہو جاتاہے۔
سوشل میڈیا پر جاری سیاسی کے ساتھ مذہبی مناظروں نے بھی میرے اس مقدمے کو مضبوط کیا ہے۔ناموں کے ساتھ مفتی کا سابقہ ہوتا ہے مگر زبان مغلظات سے اس طرح آلودہ ہوتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔مجھے یقین ہے کہ یہی مفتی صاحبان اگر اپنی بات تحریری صورت میں بیان کریں تووہ اس سے کہیں شائستہ ہو جو بصورت تقریر صادر ہورہی ہے۔ یہ اشتعال اکثر ردِ عمل میں ہو تا ہے۔ 'عمل‘ اشتعال دلاتا ہے اور یوں فضا کو مکدر کرنے میں برابر کا شریک بن جا تا ہے۔
ہماری تاریخ میں مذہب اور ادب کے میدانوں میں جو معرکے ہوئے‘وہ ہمارے لٹریچر کا مستقل حصہ ہیں اور ہم عشروں بعد بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔بعض ادبی جرائد نے 'ادبی معرکے نمبر‘ شائع کر رکھے ہیں۔بعض اختلافات خطوط کی صورت میں بھی محفوظ ہیں۔ ان کو تو ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ لوگ یہ جانیں کہ مہذب لوگ اختلاف کیسے کرتے ہیں۔اس میں طنزو مزاح کے ایسے نمونے بھی ہیں کہ پڑھنے والا حَظ اٹھاتاہے‘بدمزہ نہیں ہو تا۔
اس روایت سے متعلق لوگ گفتگو اور تقریر کی دنیا میں آئے تو انہوں نے یہاں بھی اس روایت کو زندہ رکھا ۔اکثر نے مگر اس کو تہذیب سے عاری عمل بنا دیا۔یہ سب کچھ چونکہ ایک ہیجان آمیز مذہبی و سیاسی فضا کا ناگزیر نتیجہ ہے‘اس لیے میں ان لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتا ہوں جنہوں نے سیاست ومذہب میں یہ ماحول پیدا کیا۔اب ہم ان مباحث کو تحریر کی دنیا میں لوٹانے سے تو رہے‘اس لیے یہ توجہ دلا سکتے ہیں کہ گفتگو کو اگر مہذب بنا لیا جائے تو اس ہیجان میں کمی آ سکتی ہے جس نے پورے سماج کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔