آج کی امتِ مسلمہ میں جس فکرکا غلبہ ہے‘اس کا انتساب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب کے نام ہے۔اس فکر کے تحت دین ِ اسلام کو سیاسی و تہذیبی حوالے سے دیگر ادیان پر غالب کرنا مسلمانوں کا مقصدِ حیات ہے ۔لہٰذا ایک ایسے خطۂ زمین کے حصول کی جدوجہد‘اہلِ اسلام کادینی فریضہ ہے جہاں اسلام غالب ہو ۔اس کو فریضہ اقامتِ دین کہا جاتا ہے۔پاکستان اور مصر اس فکرکے دو بڑے مراکز رہے ہیں۔
اس فکر نے علمی اعتبار سے جورجال پیدا کیے‘ان میں ایک علامہ یوسف القرضاوی بھی ہیں۔سید مودودی اور سید قطب سے اُن کا زمانی بعُد کم ہے‘تاہم انہیں اگلی نسل کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔وہ بنیادی سطح پر اسی تعبیرِ دین کے قائل ہیں جسے'سیاسی اسلام‘ کا نام دیا گیا ہے مگر اپنی علمی وجاہت کے باعث‘وہ مقلدِ محض نہیں تھے۔اس دائرے میں انہوں نے نئی راہیں دریافت کیں اور ان بزرگوں سے اختلاف بھی کیا۔ان کی حیثیت مجتہد فی المذہب کی ہے۔مصر اُن کا وطن تھا مگر عمر کے آخری حصے میں ان کے لیے وہاں قیام ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے اپنے ملک سے ہجرت کی اور قطر کو اپنا مستقر بنایا۔24 ستمبر2022ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
تادمِ مرگ انہوں نے امتِ مسلمہ کی فکری راہنمائی کی اوراپنی تحقیقات سے مسلمانوں کی علمی میراث کوثروت مند بنایا۔فقہ ان کا اصل میدان تھا۔اس باب میں ان کی علمی خدمات گراں قدر ہیں۔وہ مختلف فقہی فورمز کے رکن رہے۔سوشل میڈیا کو بھی انہوں نے اپنی تحقیقات کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا۔ 'الجزیرہ‘ٹی چینل سے بھی ان کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ان کی ویب سائٹ پر یہ علمی ذخیرہ موجود ہے۔علامہ صاحب کے ابلاغ کی زبان عربی تھی۔اس لیے مسلم دنیا کا وہ حصہ اس سے استفاہ نہیں کر سکا جو غیر عربی ہے۔برادرم ارشاد الرحمن صاحب نے ان کے لیے یہ خدمت انجام دی کہ پندرہ منتخب مضامین کو اُردو میں منتقل کر دیا۔یہ ترجمہ''امتِ مسلمہ:منصب‘تقاضے اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے ‘اس وقت میرے سامنے ہے۔
یہ مضامین ایسے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جن کے بارے میں مسلم معاشروں میں ابہام ہے اور انتشارِ فکر بھی۔ یہ علم سے متعلق ہیں اورعمل سے بھی۔ میں ایک مضمون کا یہاں بطورِ خاص حوالہ دوں گا۔یہ برائی( منکر) کو طاقت سے مٹانے کا تصور ہے۔علامہ یوسف القرضادی اس کی چار شرائط بیان کرتے ہیں۔پہلی شرط یہ ہے کہ 'منکر‘ کا تعین کوئی اجتہادی اَمر نہیں ہے۔وہ منکر جس کو طاقت سے روکنے کی بات ہو رہی ہے''وہ حرام کے درجے میں آتا ہو اور شریعت کی رو سے حقیقتاً 'منکر‘ ہو۔یعنی شریعت کے ٹھوس اور واضح الفاظ یا قطعی قواعدو ضوابط سے ان کا منکر ہونا ثابت ہو...‘‘
مزید لکھتے ہیں: ''یہ بھی ضروری ہے کہ اس برائی کے 'منکر‘ ہونے پر سب کا اتفاق ہو۔ایسے امور جن کے بارے میں قدیم یا جدید علمائے اجتہاد کا اختلاف ہو‘یعنی اس امر کے جائز اور ممنوع ہو نے کے بارے میں علما متفق نہ ہوں تو یہ اس منکر کے دائرے میں داخل نہیں جس کو ہاتھ کی قوت سے روکنا‘خصوصاً انفرادی سطح پر روکنا واجب ہے۔ تصویر‘ آلات یا غیر آلات کی موسیقی‘عورت کا چہرے اور ہتھیلیوں کو نہ چھپانا‘عورت کا عدالتی امور کے مناصب پر تقرر‘...وغیرہ ایسے امور اور مسائل ہیں جن کے بارے میں قدیم اور جدید فقہا ‘میں طول طویل اختلاف موجود ہے۔ان امور میں کسی مسلمان فردیا مسلمان جماعت کے لیے یہ روانہیں کہ وہ کسی رائے کو اختیار کرکے‘دوسروں کو سختی کے ساتھ اس پر مجبور کرے۔ یہاں تک کہ جمہور اکثریت کی رائے اقلیت کی رائے کو ساقط اور بے اعتبار نہیں کر تی‘خواہ مخالفت میں صرف ایک فرد ہی کیوں نہ ہو۔البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرد اہلِ اجتہاد میں سے ہو۔‘‘
دوسری شرط یہ ہے کہ منکر کا ارتکاب اعلانیہ ہو‘خفیہ نہ ہو۔تیسری شرط ہے کہ برائی کو ہاتھ سے وہی روکے جو بالفعل اس پر قادر ہو۔جیسے حکمران‘ریاست کی سطح پر۔ایک ادارے کا سربراہ ‘ادارے کی حدود میں۔چوتھی اور بہت اہم شرط یہ ہے کہ ''منکر کو طاقت سے روکنے یا اسے ختم کرنے کے نتیجے میں کوئی بڑی برائی پیدا ہونے کا ڈر نہ ہو‘ کہ یہ فعل ایسے فساد کا باعث بن جا ئے جس سے بے گناہوں کا خون بہہ جائے‘حرمتیں پامال کی جائیں۔علما نے اس بنا پر اُس منکر پر خاموشی کو جائز ٹھیرایا ہے جس کو روکنے کے نتیجے میں اس سے بڑی برائی پیدا ہو نے کا ڈر ہو۔‘‘
اگر حکومت برائی کی مرتکب ہو یا اس کی پشت پناہی کر رہی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ یوسف القرضاوی اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ افراد یا جماعتوں کو پہلے وہ قوت حاصل کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو روک سکیں۔دورِجدید میں اس کی تین صورتیں ہیں۔ایک مسلح فوج۔دوسری پارلیمنٹ۔تیسری عوام کی فیصلہ کن قوت۔ چونکہ آج کل کے سیاسی نظم میں یہی قوتیں طاقت کے مراکز ہیں‘اس لیے وہ برائی کو طاقت سے روک سکتی ہیں۔
اس مضمون میں اس کی زیادہ شرح نہیں ہے مگریہ سوال تفصیلی جواب کا متقاضی ہے۔مثال کے طور پر مسلح افواج ‘حکومت کوکیسے روک سکتی ہیں؟جدید دور میں ریاستیں آئین کے تحت چلتی ہیں اور اس میں افواج کا ایک متعین کردار ہے۔افراد فوج کا حصہ بننے کے بعد‘اس آئین کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ان کے اس کردار میں برائی کو روکنا شامل نہیں ہے۔پھر علامہ صاحب خود یہ لازم قرار دے چکے کہ منکر کا تعین کوئی اجتہادی امر نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک عسکری ادارہ کیسے طے کرے گا کہ فلاں منکر کا ارتکاب طاقت کے استعمال کو جائز بنا دیتا ہے؟پاکستان جیسے ملکوں میں عسکری ادارے اپنے اجتہاد سے بارہا منکر کا فیصلہ کرتے اور حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں۔اس لیے اس کو کیسے جائز کہا جا سکتا ہے؟یہی معاملہ عوام کا بھی ہے؟کیامحض عوامی جتھہ بندی سے انہیں یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ حکومت کا ہاتھ طاقت سے روک لیں یا اس کا کوئی قانونی یا آئینی راستہ ہونا چاہیے؟
سوالات تو کچھ اور بھی ہے۔یہ عالمی خلافت کے باب میں علامہ یوسف القرضاوی کے خیالات سے متعلق ہیں۔وہ وحدتِ دار(دارالاسلام) اور وحدتِ قیادت (خلافت) کو امت کی وحدت کے اساسی احکام قرار دیتے ہیں۔ان پر بھی مزید تفصیل کی ضرورت ہے۔علامہ صاحب نے ان مضامین کے علاوہ بھی ان موضوعات پر لکھا ہے۔فقہ الجہاد پر ان کی ضخیم کتاب شائع ہو چکی۔یہاں ان کی تصانیف کا مجموعی جائزہ پیشِ نظر نہیں‘صرف ایک کتاب کا تعارف مقصود ہے۔ ایک ایسی کتاب جس کے مصنف کی علمی وجاہت‘امت ِ مسلمہ کے لیے درد مندی اور جس کے صاحبِ عزیمت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔رواداری کے باب میں ان کا مضمون مجھے بطورِ خاص اہم معلوم ہوا‘جس کا مطالعہ ہر اس شخص کو کرنا چاہیے جسے غیر مسلم افراد اور اقوام کے ساتھ اختلاط کے مواقع‘کثرت سے میسر رہتے ہیں۔
میں ترجمے کی صحت کے بارے میں کچھ کہنے کا اہل نہیں ہوں لیکن مترجم کی علمی استعداد پر بھروسا رکھتا ہوں۔ارشادالرحمن صاحب نے جس مہارت کے ساتھ اسے اُردو کا لبادہ پہنایا ہے‘وہ دونوں زبانوں اور نفسِ مضمون پر ان کی قدرت کا واضح اظہار ہے۔عبارت اتنی رواں اور سہل ہے کہ اس پر بہت کم ترجمے کا گمان ہو تا ہے۔معلوم ہوتا ہے ایک طبع زاد تصنیف ہے جس میں خیالات بلاواسطہ اردوزبان میں ادا کیے گئے ہیں۔