مبارک حیدر صاحب نے چند برس پہلے ایک کتاب لکھی تھی: ''تہذیبی نرگسیت‘‘۔ یہ ہمارے سماج کا ایک عمدہ عمرانی مطالعہ ہے۔ ''نرگسیت‘‘ آپ جانتے ہیں ایک نفسیاتی مرض ہے۔ یہ فرد کو لاحق ہو یا اجتماع کو‘ پورا امکان ہوتا ہے کہ اسے خود کشی تک لے جائے۔ ہم نے بھی اپنے لیے ایک راستہ اختیارکیا جس کی منزل صاف دکھائی دے رہی تھی کہ موت ہے۔ مبارک حیدر صاحب نے اپنی کتاب میں اس کی نشاندہی کی۔ تہذیبی نرگسیت کا شکار ہم ہی نہیں ہوتے‘ بہ اندازِ دگر‘ مغرب کے بعض اہلِ علم بھی ہوئے ہیں۔ فوکو یاما نے جب تاریخ کے اختتام کا اعلان کیا تو یہ بھی تہذیبی نرگسیت تھی۔ انہیں لیکن بہت جلد اس کا اندازہ ہوا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یہ تاریخ کی ایک کروٹ تھی جسے وہ اختتام سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ ہم میں اور ان میں یہی بڑا فرق ہے۔ وہ غلطی سی رجوع کر لیتے ہیں‘ ہم غلطی پہ اصرار کرتے ہیں۔
اس سے قریب تر ایک دوسرا مرض بھی ہے جو اتنا ہی تباہ کن ہے۔ یہ لاحق ہو جائے تو بھی فرد ہو یا اجتماع‘ اپنا تہذیبی تشخص کھو دیتا ہے جو موت ہی کی ایک صورت ہے۔ جو یہ راستہ اپناتا ہے وہ گویا خود کشی ہی کے راستے کا مسافر ہے۔ جس طرح تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کسی شخص کو اپنی بیماری کے بارے میں علم نہیں ہوتا‘ اسی طرح اس مرض کا مریض بھی اپنی بیماری سے بے خبر ہوتا ہے۔
یہ بیماری ہے تہذیبی حساسیت سے محرومی۔ انسان مادی وجود کے سوا بھی کچھ ہے جو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کے وجود میں جمالیات کا ایک احساس ہے۔ خیر و شر میں امتیاز کرنے کی صلاحیت ہے۔ کسی شے کے رد و قبولیت کے لیے اس کے اندر ایک میزان نصب ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ میزان داخل میں نہیں بلکہ اس کے تجربے کا حاصل ہے تو بھی یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ایک میزان بہرحال اس کے پاس ہے جس کی موجودگی اس کے 'انسان‘ ہونے کا ثبوت ہے۔
جمالیات اورخیر و شر کے بارے میں انسان کے داخل میں موجود احساس اس خاص سماجی ماحول میں اظہار کے اسالیب تلاش کرتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ایک تہذیب وجود میں آتی ہے۔ یہ تہذیب صدیوں کے تعامل سے ایک منضبط صورت اختیار کر لیتی اور ایک نظامِ اقدار کو جنم دیتی ہے۔ اس نظام کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جو عالمگیر ہے اور انسان کے وجود میں جنم لینے والے ان سوالات کا جواب ہے جو اپنی نوع میں عالم گیر ہیں۔ جیسے اس کا خالق کون ہے اور اس کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ سوال زمان و مکان سے ماورا ہے‘ اس لیے اس کا جواب بھی ان حدود میں قید نہیں ہے۔ اسی سے تہذیبی سطح پر مناسکِ عبادت جنم لیتے ہیں جو عالمگیر ہیں۔
اس تہذیب کا دوسرا حصہ وہ ہے جو مقامی ہے۔ انسان جہاں جنم لیتا ہے وہاں پہلے سے موجود روایات پچپن ہی سے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں اور وہ ان کے ساتھ ایک فطری مناسبت محسوس کرتا ہے۔ جیسے جمالیات۔ یہ حس انسان کے داخل میں ہے۔ تہذیبی سطح پر یہ فنونِ لطیفہ کی صورت میں ظہور کرتی ہے۔ ہر متوازن آدمی میں اچھی آواز کے لیے پسندیدگی ہو گی۔ اسی پسندیدگی نے اس میں موسیقی کو سمجھنے کی استطاعت پیدا کی۔ اپنی استعداد سے پھر اس نے اس میں رنگ بھرا۔ اس سے مقامی سطح پر موسیقی کی ایک روایت وجود میں آئی۔ اسی پر ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ کو قیاس کیجیے۔
جو آدمی برصغیر میں پیدا ہوا اس کے کانوں میں جو پہلی بامعنی آواز پڑی‘ وہ اس کی مادری زبان میں تھی۔ یوں اس زبان کے ساتھ اس کی ایک فطری مناسبت پیدا ہوئی۔ یہی معاملہ موسیقی‘ گیت اور دوسرے تہذیبی مظاہر کا ہے۔ اس طرح اس کا تہذیبی وجود متشکل ہوا۔ میں اگر یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ اس کا تہذیبی وجود جن عناصر کا مرکب ہے‘ ان میں میرؔ اور غالبؔ‘ اقبالؔ اور فیضؔ‘ قاری شاکر قاسمی اور عطا اللہ شاہ بخاری‘ مہدی حسن اور نور جہاں‘ سب شامل ہیں۔ بانسری اور ڈھول بھی اس کا حصہ ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی عالمی ادب کی تحسین کرتا ہوکیونکہ اچھے ادب کی بعض خصوصیات عالمگیر ہیں۔ یہ جہاں پائی جائیں گی‘ خود کو منوائیں گی۔ علامہ اقبال بھی شیکسپیئر اور ٹالسٹائی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں‘ تاہم انسان کی مادری یا مقامی زبان میں تخلیق ہونے والااعلیٰ ادب جس طرح اس پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے‘ دوسری زبان کا ادب یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔
مقامی تہذیب کا ایک پہلو اخلاقی ہے۔ ہر معاشرے کی کچھ اخلاقی روایات ہوتی ہیں۔ یہ اس اخلاقی حس کے مطالبے پر پیدا ہوتی ہیں جو انسان کے داخل میں موجود ہے۔ ان کے بارے میں حساس ہونا فطری ہے۔ ایک فرد یا ایک سماج جب اپنی تہذیبی اقدار یا روایات کے بارے میں تادیر حساس نہ رہے تو اس کی تہذیبی موت واقع ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر حفظِ مراتب ایک تہذیبی قدر ہے۔ یہ مسلم روایت میں ہے اور برصغیر کی روایت کا بھی حصہ ہے۔ حفظِ مراتب کی یہ قدر انسانوں کے مابین رشتوں کا ایک نظم پیدا کرتی ہے۔ اسی نظم سے سماج کی بنت ہوتی ہے۔ ایک خاندان کے افراد سے لے کر محلے اور سماجی رشتوں تک باہمی تعلقات کی صورت گری جس قدر کے تابع ہے‘ وہ حفظِ مراتب ہے۔ بیٹے کو باپ سے کیسے بات کرنی ہے‘ اس کا تعین یہی روایت کرتی ہے۔ باپ کا تصور ایک تہذیبی قدر کے تحت وجود میں آیا ہے۔ اگر باپ بیٹے کا رشتہ تہذیبی اقدار کے تابع نہیں تو پھر یہ محض ایک حیاتیاتی تعلق ہے۔ بیٹے کیلئے باپ کی بس اتنی حیثیت ہے کہ اس کا حیاتیاتی وجود جن اجزا کا مرکب ہے‘ ان میں ایک جزو کا ڈونر وہ شخص ہے جسے معاشرتی اقدار کے تحت وہ باپ کہتا ہے۔
یہ تہذیب ہے جس نے بتایا ہے کہ جسے وہ باپ کہہ رہے‘ اس کا کردار محض اتنا نہیں ہے کہ اس کے جسم سے لیے گئے کرومو سومز سے اس کے مادی وجودکی بنیاد پڑی ہے۔ تہذیب باپ بیٹے کے تعلق کو سنوارتی‘ اس کی پرورش کرتی اور اسے محبت‘ احترام اور ایثار جیسی اقدار سے جوڑ دیتی ہے۔ اسی سے وہ معاشرت پیدا ہوتی ہے جو انسان کو دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی معاملہ دیگر رشتوں کا ہے۔ انسان جب اس تہذیبی حساسیت سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو یہ خیال کرتا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ باپ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرے۔ باپ اگر غلط ہے تو چار افراد کے سامنے اسے غلط کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ بیٹا باپ کے سامنے سگریٹ یا شراب کیوں نہیں پی سکتا؟ بیٹی بوائے فرینڈ کے ساتھ گھر آتی ہے تو ماں کون ہوتی ہے اعتراض کرنے والی؟
اس رویے کو ان معاشروں میں روا سمجھا جاتا ہے جہاں انسان کو ان معنوں میں آزاد مانا گیا ہے کہ کوئی مذہب‘ کوئی تہذیب یہ حق نہیں رکھتے کہ اس پر پابندی عائد کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معاشروں میں حفظِ مراتب کی کوئی قدر موجود نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وقت نے رشتوں کی نئی صورت گری کر دی ہے جس میں بے تکلفی ہے۔ ہمیں اس کو اپنا لینا چاہیے۔
اگر ہمارا سماج اجتماعی طور پہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ درست طرزِ عمل ہے توکوئی اس کا راستہ روک نہیں سکتا۔ اگر اس کے نزدیک حفظِ مراتب ایک دقیا نوسی تصور ہے تو وہ اس سے نجات پا سکتا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ تہذیبی موت ہے۔ اس کے بعد جو معاشرہ وجود میں آئے گا‘ وہ ایک دوسری تہذیب کا نمائندہ ہو گا۔ تہذیبی موت صرف نرگسیت سے نہیں آتی۔ تہذیبی حساسیت سے محرومی بھی سماج کو مار دیتی ہے۔