مسلکی خطبا کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
خطابت سیاست میں بھی ہوتی ہے لیکن اس کا اصل میدان مذہب ہے۔ میری شعوری زندگی میں سیاست اعلیٰ درجے کے خطیبوں سے خالی ہو چکی تھی۔ لے دے کر نواب زادہ نصر اللہ خان باقی تھے۔ ان کی خطابت میں رنگ ایک مذہبی جماعت‘ جماعت الاحرار ہی نے بھرا۔ مذہبی خطابت میری دلچسپی کا محور رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ مذہبی گھرانوں کے نوجوانوں کے لیے تفریح کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہوتا۔ موسیقی اور فنونِ لطیفہ کے دروازے ان پر بند ہوتے ہیں‘ یہ الگ بات کہ فطرت سے انسان کی لڑائی میں اسے ہمیشہ شکست ہوئی ہے۔ لوگ چوری چھپے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اعلانیہ طور پر خطابت کی طرف رجحان کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اس کا شمار فنونِ لطیفہ میں کیا جاتا ہے جس سے انسان حظ اٹھاتا ہے۔
خطابت کا تعلق پرفارمنگ آرٹ سے ہے۔ خطیب مخصوص انداز کے حامل ہوتے ہیں۔ لباس سے لے کر آہنگ تک اور بیٹھنے سے لے کر اٹھنے تک‘ عوام کو متوجہ کرنے کے لیے خاص انداز اپنائے جاتے ہیں۔ مجھے بچپن میں ایک خطیب بہت پسند تھے‘ ان کا نام تھا مولانا محمد حسین چنیوٹی۔ وہ مناظرانہ تقریریں کرتے تھے۔ وہ سٹیج پر آتے تو ان کے سامنے میز پر کتابوں کا ڈھیر لگ جاتا۔ پہلے بیٹھ کر خطبہ پڑھتے۔ پھر تمہید باندھتے۔ موضوع کا تعارف کراتے اور پھر کھڑے ہو جاتے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کلہاڑی ہوتی تھی۔ وہ اسے مائیک کے سٹینڈ کے ساتھ لٹکا دیتے۔ خوش الحان تھے۔ خطبے اور اس تیاری سے ایک سماں باندھتے اور سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتے۔
یہ محض ایک مثال ہے‘ ورنہ ہر مقبول خطیب اپنا ایک انداز رکھتا ہے جو اس کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس فن کے ساتھ اپنی دلچسپی کے باعث میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا تھا کہ ان خطیبوں کی مقبولیت کا اصل سبب کیا ہے؟ کیا سب لوگ صرف حظ اٹھانے کے لیے ان کو سنتے ہیں؟ یقینا یہ بھی ایک وجہ ہے لیکن جب میں دیکھتا کہ لوگ ان پر لاکھوں روپے بھی نچھاور کرتے ہیں تو پھر یہ خیال ہوتا کہ اس کی وجہ اس کے علاوہ بھی ہے۔ ہر مسلک تو نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ بعض مسالک کے واعظ ایک مہینے میں اتنا کما لیتے ہیں کہ پورا سال باآسانی گزار سکتے ہیں بلکہ بہت کچھ پس انداز بھی کر لیتے ہیں۔ اس لیے یہ سوال میرے لیے جواب طلب رہتا کہ لوگ آخر ان پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کرتے ہیں؟
میرا خیال ہے میں نے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے۔ ہر مسلک کی ایک عصبیت ہوتی ہے۔ اس عصبیت کے ساتھ وابستگان کا دلی تعلق ہوتا ہے۔ یہ ان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی فکری برتری قائم رہے اور اسے دلیل کے محاذ پر شکست نہ ہو۔ دوسری طرف دیگر مسالک کی طرف سے ان کے مسلک پر فکری تیر اندازی جاری رہتی ہے۔ پرانے اعتراضات دہرائے جاتے ہیں اور مشاق ناقدین نئے نئے اعتراضات بھی تراشتے رہتے ہیں۔ یہ مسلک کے وابستگان کے لیے جوابی ہتھیار فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے مسلک پر اس یقین کے ساتھ کار بند رہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں۔ ان واعظین کو اسی کام کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
دورِ جدید کی سیاست میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ مذہبی عصبیت کی طرح سیاسی عصبیت کو بھی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی اپنی جماعت کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔ یہ دلائل اس وقت سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے کام آتے ہیں جب ان کا پالا سیاسی مخالفین سے پڑتا ہے۔ مجالس جب گرم ہوتی ہیں تو دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ ان وی لاگرز کے تراشے ہوئے دلائل استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام کئی طرح سے کیا جاتا ہے۔ کبھی مخالفین پر جوابی اعتراض اٹھا کر اور کبھی اعتراض کے جواب میں واقعات کی نئی تاویل سے۔
اس سارے عمل میں کہیں یہ مقصود نہیں ہوتا کہ دلائل کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے اور ان کے وزن یا حقانیت کو جانچا جائے۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ خون سچائی کا ہوتا ہے۔ مذہب ہو یا سیاست‘ لوگ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں اور یوں سماجی ارتقا کا عمل رُک جاتا ہے۔ عصبیتیں گہری ہوتی جاتی ہیں اور فاصلے بڑھتے جاتے ہیں۔ لوگ تقلید میں پختہ ہو جاتے ہیں اور یوں مذہب جو اخلاقی شعور کی بنیاد ہے‘ اپنااصل کردار ادا نہیں کر سکتا۔ سیاست جسے بہتر ہونا چاہیے‘ ایک متعفن جوہڑ میں بدل جاتی ہے۔
مسلکی خطیبوںاور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے دلائل کا اگر کوئی دقتِ نظر سے جائزہ لے تو ان میں سے اکثر بہت کمزور ہونے کے ساتھ سطحی بھی ہوتے ہیں۔ یہی نہیں‘ معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر حق کو چھپایا جاتا ہے۔ میں مشہور مذہبی مقررین کی تقاریر کو سنتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی تاویل کی جا رہی ہے۔ وہ بات کہی جا رہی ہوتی ہے جسے کلام کا نظم قبول کرتا ہے نہ استعمال۔ حق پرست کی ترتیب یہ نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مؤقف کو قرآن کے پیمانے پر پرکھتا ہے۔ جو کچھ یہ واعظین کرتے ہیں‘ اسے تحریف کہا جاتا ہے اور یہ ایک بڑا گناہ ہے۔
سیاست میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ بڑی سے بڑی بات سامنے آجائے‘ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ دور ازکار تاویلات کے سہارے اپنے مؤقف کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ میڈیا پر چلنے والے انٹرویوز لوگوں کی سیاسی وابستگیوں پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ لوگوں کی توجہ ہٹانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انٹرویو یا خبر ہی کو متنازع بنا دیا جائے۔ اس کے بعد اس پر ایک ایسی بحث شروع ہو جائے گی جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔
دین کے باب میں اس صورتحال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سکالرز اور علما کی بات پر کان دھرا جائے جو قرآن و سنت کے علاوہ کسی کھونٹے سے نہ بندھے ہوں۔ ہر بات کو اس میزان پر تولتے اور پھر کسی رائے کی تائید کرتے ہوں یا کوئی نئی رائے قائم کرتے ہوں۔ سیاست میں بھی صحیح بات تک پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان اہلِ صحافت کی بات کو سنا جائے جنہیں اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کا خیال ہوتا ہے اور وہ کسی پر جھوٹ نہیں باندھتے۔ ایسے لوگ موجود ہیں اور اگر کوئی آدمی کچھ وقت مسلسل اخبار پڑھتا رہے یا ٹی وی دیکھتا رہے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس کی بات قابلِ بھروسا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ میرے مشورے پر لوگ کم ہی کان دھریں گے۔ ہم دراصل جو سننا چاہتے ہیں وہی سنتے ہیں۔ انسان کے لیے سب سے مشکل کام مذہب اور سیاسی تعصبات سے نکلنا ہے۔ ہمیں اپنے خیالات سے بچوں کی طرح محبت ہو جاتی ہے۔ ان کے چھن جانے کا خوف آدمی کو مضطرب کر دیتا ہے۔ اس کا پہلا ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کا دفاع کرتا ہے۔ وہ دلائل تلاش کرتا ہے جو اس کے خیالات کو سچا ثابت کر دیں۔ اگر پھر بھی اس کا دل مطمئن نہ ہو تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس پل صراط سے گزرنا آسان نہیں۔ اس لیے کم لوگ ہی پار اترتے ہیں۔ لیکن جو ایک بار پار اتر جاتا ہے‘ پھر اس کے لیے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ پھر ہر منزل اسے پڑاؤ محسوس ہوتی ہے اور اس کا فکری ارتقا جاری رہتا ہے۔