کیابھارت ہمارے لیے مثال بن سکتا ہے؟
اس میں شبہ نہیں کہ بھارت ایک کامیاب ریاست ہے۔یہ بھی مگر سچ ہے کہ وہ ایک ناکام معاشرہ ہے۔معاشرہ کامیاب ہو تو ناکام ریاست بھی چلتی رہتی ہے۔معاشرہ اگر بکھرنے لگے تو ریاست کا بچنا محال ہو تا ہے۔بطور معاشرہ ‘بھارت کی ناکامی‘کیا ریاست کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے؟
ریاست کی کامیابی کے اپنے معیارات ہیں۔زرِ مبادلہ کے ذخائر‘جی ڈی پی‘معاشی حجم‘برآمدات‘شرح خواندگی‘صنعتی ترقی۔اس طرح کے بہت سے پیمانے ہیں جن کی بنیاد پر یہ حکم لگایا جاتا ہے کہ فلاں ریاست کامیاب ہے۔ یہ سب پیمانے بھارت کی کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔کرکٹ کے ورلڈ کپ کا انعقاد بھی ایسا ہی ایک پیمانہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی انتظامی صلاحیت کتنی ہے۔معاشرتی ترقی کو ماپنے کے پیمانے اور ہیں۔نظامِ اقدار‘تہذیبی شناخت‘طبقاتی ہم آہنگی‘عدم امتیاز‘انسان دوستی‘کمزورطبقات کو اٹھانے کی قوت‘بنیادی انسانی حقوق کا احترام۔یہ سب وہ معیارات ہیں جن سے معلوم کیا جاتا ہے کہ ایک معاشرہ مستحکم ہے یا مضطرب۔یہ سب پیمانے اعلان کر رہے ہیں کہ بھارت ایک مضطرب معاشرہ ہے۔صرف مسلمان نہیں‘ بھارت کی ہر مذہبی اور نسلی اقلیت‘اس وقت بے چین ہے‘ جس کی داستانیں منی پور سے سری نگر اور جموں تک پھیلی ہیں۔ارون دھتی رائے جیسے انسانی حقوق کے علمبردار صدائے احتجاج بند کر رہے ہیں اور ریاست مقدمات سے ان کا راستہ اور منہ بند کر نا چاہتی ہے۔
بھارت بطور ریاست کامیاب کیوں ہے اور بطور معاشرہ ناکامی کی راہ پر کیوں گامزن ہے؟ریاست کی کامیابی کی پہلی اور بنیادی شرط سیاسی استحکام ہے۔تقسیم کے بعد بھارت میں ریاستیں تھیں اور صوبے بھی۔ پاکستان کی طرح وہاں بھی جاگیر دار موجود تھے۔انگریزوں کے جانے کے بعد بھارت کی سیاسی قیادت کانگرس کے ہاتھ میں آئی جس کی باگ جواہر لال نہرو جیسے جہاں دیدہ اور صاحبانِ بصیرت کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے ابتدا ہی میں جان لیا کہ متنوع شناختوں کے اس ملک کو دو اصول استحکام دے سکتے ہیں: ایک سیکولرازم اور دوسرا جمہوریت۔
اس کا سادہ مفہوم یہ تھا کہ ریاستی سطح پر کسی ایک مذہب یا نسلی شناخت کی برتری کو قبول نہیں کیا جا ئے گا۔جمہوریت میں جاگیرداری اور مذہبی انتہا پسندی کیلئے کوئی جگہ نہیں۔گاندھی کے قتل سے ابتدا ہی میں اندازہ لگا لیا گیا کہ مذہبی انتہا پسندی کو اگر لگام نہ دی گئی تو گاندھی جیسی شخصیت کی زندگی کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی۔جمہوریت سے ایک عام آدمی کا ریاست کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ان اصولوں کا ہاتھ‘ سختی سے تھام لیا گیا۔ اس سے ریاست مستحکم ہوتی چلی گئی۔آج بھارت میں کوئی جرنیل مارشل لاء کا خواب بھی نہیں دیکھتا۔نہرو نے جب بعض جرنیلوں میں خودسری کے آثار دیکھے تو ابتدا ہی میں اس فتنے کا دروازہ بند کر دیا۔
یہ جمہوریت تھی جس نے بی جے پی جیسی ہندو انتہا پسند جماعت کو بھی اعتدال کا راستہ دکھایا۔اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ جیسے لوگ بی جے پی میں ہونے کے باجود یہ جان گئے تھے کہ بھارت کو اگر مضبوط ہو نا ہے تو ہندو انتہا پسندی کا راستہ روکنا ہو گا۔سیکولر اقدار کو اپنانا ہوگا‘ جو کسی ایک مذہب کی برتری کا راستہ روکتی ہیں۔اسی بات نے کروڑوں مسلمانوں کو ریاست سے جوڑے رکھا۔جمعیت علمائے ہند اورجماعت اسلامی جیسی جماعتوں نے بھارت میں اسی لیے سیکولرازم کی تائید کی کہ وہاں مسلمانوں کے مفاد کا تقاضا یہی تھا۔
جب کانگرس کی طبعی عمر پوری ہو ئی اور واجپائی جیسی جہاں دیدہ قیادت دنیا سے رخصت ہو گئی تو بھارت میں سیکولر اقدار کمزور ہونے لگیں اور ملک کو ہندو ریاست بنانے کے خواب کا احیا ہو گیا۔آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو موقع ملا کہ وہ بھارت کے بارے میں اپنے تاریخی مقدمے کو زندہ کریں جو ہندوتوا کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔قیادت کے خلا نے نریندر مودی جیسے انتہا پسند ہندوؤں کو یہ موقع دیا کہ وہ قیادت کے منصب پر فائز ہو جائیں۔ پاپولزم کی سیاست نے مودی کو وزراتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت کی تاریخ کے دوسرے دور کا آغاز ہو گیا۔ہندوتوا کا مقدمہ یہ ہے کہ بھارت اصلاً ہندوؤں کا ملک ہے۔اسلام ‘مسیحیت‘یہ سب بدیشی مذاہب ہیں ۔جو ہندوستانی ان مذاہب کے ماننے والے ہیں‘وہ غیر مقامی مذاہب اور حملہ آوروں کے زیرِ اثرمسلمان ہوئے۔ان کی نسلوں کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے آبا کے مذہب کی طرف لوٹ جائیں‘جو ہندو تھے۔
ہندوتوا میں تاریخ کی جو تعبیر کی جاتی ہے ‘اس کے مطابق مسلمان حکمران غیر ملکی غاصب تھے‘بھارت کے تشخص کے احیا کیلئے لازم ہے کہ ان کے سب آثارکو مٹا دیا جائے۔بابری مسجد سے لے کر شہروں کے نام تبدیل کرنے تک‘اسی سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔اس سوچ نے بھارت کو انتہا پسندی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔چونکہ ریاست کی قوت بھی اب ان انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئی ہے‘اس لیے ریاستی جبرمیں اضافہ ہو چلا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی ضمانتوں کی پامالی سے لے کر منی پور کے حادثے تک‘ واقعات کا تسلسل یہ بتا رہا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق اور کمزور طبقات کے ساتھ سلوک کے معاملے میں سماجی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں۔
بھارت کا تہذیبی تشخص بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔بھارتی فلمیں یہ بتا تی ہیں کہ بھارت کارپوریٹ کلچر کو قبول کر چکا ہے اور اس کی مقامی تہذیب خود کشی کی راہ پر چل پڑی ہے۔اُردو جیسی زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہوئے‘ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مسلمانوں کا عہدِ حکمرانی اوراُردو بھارت کی تاریخ اور تہذیب کا درخشاں حصہ ہے۔آج وہ سماجی قوتیں طاقت پکڑ رہی ہیں جو بھارت کو اس تاریخی اور تہذیبی ورثے سے محروم کرنے کے درپے ہیں۔ اب یہ مطالبہ کیاجا رہا ہے کہ علی گڑھ کا نام بھی تبدیل کیا جائے۔
بھارت کی اقتصادی کامیابیوںکے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ دراصل منموہن سنگھ جیسے مدبروں کی پالیسیوں کے نتائج ہیں۔مودی صاحب جو کچھ بو رہے ہیں‘ اس کے نتائج ابھی نکلنے ہیں۔یوں بھی جب معاشرے میں اضطراب پھیل جاتا ہے تو اس کی کمزریاں(Fault Lines)نمایاں ہو جا تی ہیں۔آج بھارت کا تہذیبی تشخص کمزور ہو رہا ہے۔ اکثریت اقلیتوں پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ اپنا تشخص اکثریت میں گم کر دیں۔تاریخ میں ہندو اکثریت نے جب پہلے یہ چاہا تو اس نے ہندوستان کو تقسیم کر دیا۔جسونت سنگھ جیسے لوگ بھی اب یہ گواہی دیتے ہیں کہ محمد علی جناح کو علیحدگی کا راستہ کانگرس کی بے بصیرتی نے دکھایا۔سوال یہ ہے کہ جس سوچ کے نتائج ‘ستر اسی سال پہلے تقسیم کی صورت میں نکلے‘ وہ سوچ آج بھارت کو متحد کیسے رکھ سکے گی؟
یہ بھارت ہو یا پاکستان‘قدرت کا قانون سب کیلئے ایک ہے۔متحدہ ہندوستان اگر دو حصوں میں تقسیم ہوا تو اس کے کچھ اسباب تھے۔اسی طرح متحدہ پاکستان ‘اگر دو حصوں میں بٹ گیا تو اس کے بھی کچھ اسباب تھے۔بھارت میں یہی اسباب پھر نمایاں ہو رہے ہیں۔ریاستوں کا زوال دنوں میں نہیں ہوتا۔راستہ منزل کی خبر دیتا ہے۔معاشرہ جب مضطرب ہو تو ریاست مستحکم نہیں رہ سکتی۔متحدہ ہندوستان میں یہ مسلم سماج تھا جس میں اضطراب پیدا ہوا۔اس کے بعد تقسیم ناگزیر ہو گئی۔پھر گاندھی اور ابو الکلام جیسے نابغے بھی اس کو روک نہیں سکے۔بھارت کو مثال بنانے سے پہلے‘ہمیں اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔