مذہبی سفارت کاری کیا ہے؟
ایک وقت تھا جب سفارت کاری حکومت کا کام ہوتا تھا۔ اس کام کے لیے خصوصی وزارت بنائی جاتی تھی‘ جو ممالک کے درمیان باہمی یا پھر عالمی معاملات پر بات کرنے کی مجاز تھی۔ جمہوریت نے ریاستی امور میں عوام کے کردار کو اہم قرار دیا تو ان امور میں بھی عوامی شمولیت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ عوام کو اب براہِ راست بھی سفارت کاری کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کو 'پبلک ڈپلومیسی‘ کہا گیا۔ مختلف طبقہ ہائے حیات کے نمائندہ افراد دوسرے ممالک کے انہی طبقات کے نمائندوں سے ملنے لگے۔ ادیب ادیب سے‘ فنکار فنکار سے۔ سفارت کاری اصلاً دو ممالک کے عوام کا ایک دوسرے کے قریب جانے کا نام ہے۔ عوام اس کام میں اب براہِ راست شریک ہو گئے۔
'مذہبی سفارت کاری‘ عوامی سفارت کاری کی توسیع ہے۔ اس کا تعلق ان سماجی طبقات سے ہے جو مذہب کے دائرہ میں متحرک ہوتے ہیں۔ یہ علما ہو سکتے ہیں اور غیر حکومتی اداروں کے نمائندے بھی۔ مذہب چونکہ قوموں کے اجتماعی امور میں مستقل کردار ادا کر رہا ہے جسے کم نہیں کیا جا سکا‘ اس لیے 'مذہبی سفارت کاری‘ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے کہ مذہب کے نام پر اقوام کے مابین بڑھتے فاصلوں کو کم کیا جائے اور مذہب افتراق کے بجائے‘ اشتراک کی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ پبلک ڈپلومیسی‘ مذہبی سفارت کاری جس کا حصہ ہے‘ حکومتی سفارت کاری ہی کی توسیع ہے۔ یہ عمل وزارتِ خارجہ سے ماورا نہیں‘ اس کے دائرے ہی میں ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام کی سطح پر وحدتِ فکر ہی دوسری اقوام کے سامنے آئے۔
برادرم اسرار مدنی نے اس میدان میں قدم رکھا تو نئے اُفق دریافت کیے۔ وہ ایک دفعہ علما اور عوامی سطح پر متحرک مذہبی راہ نماؤں کو چین لے گئے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ وہاں مسلمانوں کی ثقافت کیسی ہے اور ایک غیرمذہبی ریاست کے شہری ہوتے ہوئے وہ اپنے مذہب پر کیسے عمل کر رہے ہیں۔ میں نے اس وفد کے شرکا کے تاثرات جانے تو مجھے اندازہ ہوا کہ مذہبی سفارت کاری کی اہمیت کیا ہے۔
گزشتہ دنوں اسرار مدنی صاحب ایک وفد انڈونیشیا بھی لے گئے۔ اس میں سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی اور علما کی بھرپور نمائندگی تھی۔ پنج پیر سے مولانا محمد طیب طاہری‘ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے مولانا راشد الحق اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم بھی وفد میں شامل تھے۔ مولانا محمد طیب‘ مولانا طاہر پنج پیری کے صاحب زادے ہیں۔ مولانا طاہر کا وسیع حلقۂ اثر ہے جس کا دائرہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کو محیط ہے۔ ہزاروں مدارس ان سے وابستہ ہیں۔ دین کی تدریس کے باب میں‘ وہ اپنے استاد مولانا حسین علی کے منہج کو اپنائے ہوئے تھے۔ مولانا حسین علی کے ہاں قرآن مجید کو مرکزیت حاصل رہی اور انہوں نے عقیدہ و عمل میں ہمیشہ قرآن ہی کو میزان تسلیم کیا۔
مولانا راشد الحق‘ مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے ہیں۔ یہ گھرانہ بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مفتی نعمان نعیم‘ مفتی نعیم مرحوم کے صاحب زادے ہیں۔ مذہبی سفارت کاری کی اہمیت اس سے واضح ہے کہ ان کے مدرسے میں انڈونیشیا کے تین سو طالب علم اِس وقت زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ طالب علم فراغت کے بعد انڈونیشیا میں پاکستان کے غیر رسمی سفیر ہوں گے۔ مستقبل میں یہ اپنی حکومت میں کسی اہم منصب پر فائز ہو سکتے ہیں اور اس طرح دو ملکوں کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہوں گے۔ افغانستان میں انہی طالب علموں کی وجہ سے مولانا سمیع الحق کا وسیع حلقۂ اثر تھا۔ جب ان کے شاگرد افغانستان کے حکمران بنے تو خیال ہوا کہ ان کی و جہ سے باہمی تعلقات اچھے ہو جائیں گے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو ممکن تھا کہ وہاں کی حکومت کے ساتھ مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا۔
مذہبی سفارت کاری کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے تجربات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ سیکھنا اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ انڈونیشیا اس کی ایک مثال ہے۔ انڈونیشیا کے بارے میں مَیں برسوں سے لکھ رہا ہوں۔ وہاں کی آبادی کا 87فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ وہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان تحریکیں ہیں۔ ہم نے ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے وہ بنیادی مسائل بہت اچھی طرح حل کر لیے ہیں‘ ہم برسوں سے جن میں الجھے ہوئے ہیں۔ نہ سیکھنے کی ایک بڑی وجہ ہماری لا علمی ہے۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور طبقات نے عرب کے علما اور تحریکوں سے رابطہ رکھا یا امریکہ اور یورپ کے سکالرز سے۔ یہاں کسی کو خبر ہی نہیں کہ انڈونیشا میں مسلمان علما کا کردار کیا ہے۔ ریاست و سیاست کے باب میں ان کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ ہم حج عمرے پر جاتے ہیں تو ہمیں سب سے منظم گروہ انڈونیشیا کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نظم ان میں کیسے آیا؟ یہ دراصل وہاں کی بڑی مذہبی جماعتوں نہضۃ العلما اور محمدیہ کی محنت ہے۔ ان کا الازہر وغیرہ سے گہرا رابطہ ہے لیکن ہم اس سے بے خبر ہیں۔
گزشتہ بیس سال سے میرا احساس یہ ہے کہ ہمارے لیے اگر سیکھنے کو کچھ ہے تو وہ آج کے مشرقِ وسطیٰ و مغرب میں کم اور انڈونیشیا میں زیادہ ہے۔ عرب دنیا میں مذہب سمیت ہر شے ریاست کے کنٹرول میں رہی ہے۔ وہاں نئے افکار کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ مصر میں جو کچھ ہے‘ اس کا بہتر علمی بیان خود ہمارے ہاں موجود ہے۔ مصر تو اس معاملے میں ہمارا مقلد ہے۔ مراکش میں قدرے بہتر حالات ہیں مگر وہاں بھی ریاست کا کنٹرول موجود ہے۔
انڈونیشیا میں جمہوریت ہے۔ اسی وجہ سے وہاں مسلم فکر کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خود اسلام کے فروغ اور اشاعت کے لیے جمہوریت کتنی بڑی نعمت ہے۔ انڈونیشیا کے اہلِ علم نے اس سے فائدہ اٹھایا اور مقامی حالات کی رعایت سے اسلام کی ایسی تعبیر پیش کی جس کی وجہ سے مسلم سماج اپنے دین سے دور نہیں ہوا۔ ساتھ ہی اس نے اس صلاحیت کا عملی ثبوت پیش کیا کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی اسلام ایک رحمت ہے۔ وہاں کی بڑی مذہبی جماعتیں‘ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر 'اسلام بطور رحمۃللعالمین‘ کے ایک بڑے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کے علما اور مذہبی طبقات کا ان تجربات سے واقف ہونا از بس ضروری ہے۔
اسرار مدنی صاحب نے بروقت اس کمی کو محسوس کیا اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہ خود دینی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں۔ پاکستان کے مسلم سماج کو درپیش مسائل کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ آج ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کو سمجھتے ہوں اور اس کے ساتھ جدید مسائل کو بھی۔ مدنی صاحب کا ادارہ پاکستان کو ایک بہتر سماج بنانے کی شعوری کوشش کرر ہا ہے۔ مذہبی سفارت کاری اسی کوشش کا ایک جزو ہے۔ اگر ایسا ممکن ہو کہ ہمارے یہ علما انڈونیشیا کا سفر نامہ لکھیں یا اپنے اپنے ادارے میں اساتذہ اور طالب علموں کو اپنے مشاہدات اور تجربات سے آگاہ کریں تو ان کا یہ سفر نتائج کے اعتبار سے زیادہ مفید ہو جائے گا۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ لازم نہیں کہ ہم انڈونیشیا کے علما کی ہر رائے سے اتفاق کریں لیکن اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اس سے ہمیں اس کا ادراک ہو گا کہ ختمِ نبوت کے بعد کسی کا قول فی نفسہٖ واجب الاتباع نہیں۔ اہلِ علم اختلاف کریں گے اور ہمیں اتفاق و عدم اتفاق سے ماورا ان کی رائے کا احترام کرنا ہے۔ اس عمل کے جاری رہنے ہی میں برکت ہے۔