برادرِ محترم ڈاکٹر حسین احمدصاحب پراچہ کا بہت شکریہ اور ان کے لیے دعا۔
ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میرے کالم کو توجہ سے پڑھا بلکہ اس کا تجزیہ بھی کیا۔ اس کے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس بحث کا دوسرا زاویہ سامنے آیا جو میرے کالم کا حصہ نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ اس مکالمے کو آگے بڑھانے کا ایک موقع پیدا ہوا‘ میرا کالم جس کا نقطہ آغاز بنا ہے۔ میں مناظرے کا نہیں‘ مکالمے کا آدمی ہوں۔ میرے نزدیک ہر ایسی کوشش محمود ہے جس سے سماج میں غورو فکر کے نئے در وا ہوتے ہوں اورفکری ارتقا کا امکان پیدا ہو۔ یہ مکالمے ہی سے ممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے تبصرے نے اس مکالمے کو ممکن بنا دیا۔ میں اس موضوع کو دو پہلوں سے آگے بڑھانا چاہتا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب نے جن کا ذکر کیا۔
پہلی بات تو یہ کہ انڈونیشیا کی جماعتوں نے اقتدار کی سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے‘ خود کومحض ذکر وفکر اور عبادت تک محدود نہیں کیا۔ انہوں نے سماجی تبدیلی کا ایک متبادل لائحہ عمل دیا جو زیادہ جامع بھی ہے اور نتیجہ خیز بھی۔ انہوں نے ریاست کے بجائے سماج کو اپنی تبدیلی کا محور بنایا۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی تبدیلی کے بجائے‘ اپنی کاوشوں کوسماجی تبدیلی کے لیے وقف کر دیا۔ اس سے ان کے عمل کا دائرہ محدود نہیں‘ وسیع ہوا ہے۔
تفصیل کا موقع نہیں‘ میں بس ایک پہلو کو نمایاں کر نا چاہتا ہوں۔ نہضۃالعلما کا کہنا ہے کہ انہیں خیرِ امت بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کواسی منصب پر فائزکیا ہے اور انہیں خود کو اس کا اہل بنانا ہے۔ امت کسی سیاسی تجسیم کا نام نہیں‘ یہ دراصل ایک برادری ہے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصولوں پر قائم ہو۔ نہضۃالعلما کا کام اہلِ اسلام کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔
یہ کام پلک جھپکنے میں ہونے والا نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ایک مسلمان 'مبادی خیرِ امت‘ کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنائے۔ بعض تجربات سے گزرنے کے بعد‘ وہ اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ رسالت مآبﷺ کے اسوۂ حسنہ سے اخذ شدہ اصولوں پر فرد کی تعمیرسے ہم خیرِ امت بن سکتے ہیں۔ یہ اس کے مبادی یا اساسات ہیں۔ زوال کا سبب ان سے دوری ہے۔ یہ اساسات تین ہیں:ایک 'الصدق‘۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیشہ وہی کریں جو درست ہو۔ کبھی جھوٹ نہ بولیں الا یہ کہ کسی بڑے سماجی فائدے کے لیے دین نے اسے روا رکھا ہو۔ دوسری اساس ہے'الامانۃ و وفا بالعہد‘۔ ایفائے عہد‘ ہر کسی کے ساتھ اور امانت کی پاسداری۔ تیسری اساس ہے'التعاون‘۔ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون۔
نہضۃ العلما کے لٹریچر میں اس کی شرح کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر امانت سے مراد یہ ہے کہ ہم نے ہر عہد کی پاسداری کرنی ہے۔ یہ انفرادی سطح پر ہو گا اور اجتماعی سطح پر بھی۔ لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں سے ایفائے عہد کرے۔ شہری ریاست سے اپنا عہد نبھائے۔ جو عہد توڑتا ہے‘ وہ دراصل نفاق کا اظہار کرتا ہے۔ جس آدمی میں یہ صفات ہوں گی‘ وہ کسی منصب پر بیٹھنے کا اہل ہو گا اور نہ اسے کوئی بڑی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ جب لوگوں میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں گی توپھر وہ خیرِامت ہوں گے۔ یہ سیاست کی بالواسطہ اصلاح ہے۔
اس کے لیے انہوں نے تربیت اور تعلیم کا ایک وسیع نظام تشکیل دیا ہے۔ ہزاروں درس گاہیں قائم ہیں۔ ان کے کئی درجے ہیں۔ جن میں سے ایک مدرسہ ہے۔ صدر سکارنو نے جب 'نیو آرڈر‘ متعارف کرایا تو تعلیم کے نظام میں دوئی کو ختم کر دیا۔ اس پر نہضۃ العلما نے ردِ عمل کا اظہار کیا اور مذہبی تعلیم کا دفاع کیا۔ تاہم بعد میں‘ کسی تصادم میں پڑے بغیر‘ دینی تعلیم کے نظام کو ریاستی نظامِ تعلیم سے ہم آہنگ بنا دیا۔ مدرسے کی تعلیم کے کئی درجے ہیں۔ اس کے ساتھ 'پنسنترن‘ (Pesantren)کا تصور ہے جو اس کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ مختصر یہ کہ یہاں کا فارغ التحصیل اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ وہ کسی حکومتی اور ریاستی منصب تک پہنچ سکتاہے۔ اس طرح وہاں دینی اور غیر دینی تعلیم کا یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ دینی مدرسے کا فارغ التحصیل سماج کے لیے اجنبی ہو جائے اور ریاست کے منصب کے لیے اہل نہ سمجھا جائے۔
سیاست بھی لوگوں کے لیے شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، اگر وہ انفرادی سطح پر اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں بھی سیاست کر سکتے ہیں۔ نہضۃالعلما کے ایک بڑے راہنما اور عالم عبد الرحمان واحد انڈونیشیا کے صدر رہ چکے ہیں۔ بطور عالم‘ پورے انڈونیشیا میں ان کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح محمدیہ کے راہ نما پارلیمان کے سپیکر تھے۔ بطور جماعت‘ تاہم یہ سیاست کو اپنے لیے مضر سمجھتے ہیں۔
وہ اس بات کے قائل کیسے ہوئے کہ سیاسی جد وجہدان کے لیے نقصان دہ ہے؟یہ اس مکالمے کا دوسرا اہم پہلو جس کا محل ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب کے کالم سے پیدا ہوا۔ 'نہضۃالعلما‘ اور 'محمدیہ‘ عملی سیاست کر چکے ہیں۔ نہضۃ تو وہاں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ یہ 'ماشومی‘ کے نام سے قائم ہونے والے سیاسی اتحاد کا حصہ تھے۔ اس تجربے سے انہوں نے سیکھا کہ اقتدار کی سیاست کسی ایسی جماعت کے لیے سازگار نہیں جو خیرِ امت تشکیل دینا چاہتی ہے۔ دعوت و اصلاح کا کام جوہری طور پر سیاسی کام سے مختلف ہے۔
اصلاحی جماعتوں کا کام سیاستدان سمیت‘ سب طبقات میں وہ اوصاف پیدا کرنا ہے جو انہیں اپنے اپنے منصب اور سماجی و سیاسی کردارکے لیے بہترین انتخاب بنا دے۔ اقتدار کی سیاست کے اپنے مطالبات ہیں جو ایک اصلاحی جماعت پورا نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دنیا سے جڑی ہے اور دنیا آپ کے اصولوں پر قائم نہیں ہے۔ اس لیے ان کا سیاست سے گریزایک ایسا فیصلہ ہے جو تجربے کاحاصل اور غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ ان کا فہمِ دین بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے کالم میں تیونس کی 'نہضہ‘ کی جو مثال دی‘ اس کی تاریخ کا آخری باب شاید ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ وہاں کی نہضہ‘ انڈونیشیا کی نہضۃ العلما کی طرح سیاست سے توبہ کر چکی۔ اس کے راہ نما اعلانیہ 'سیاسی اسلام‘ سے اظہارِ برأت کر چکے۔ وہ اب سیاسی اور مذہبی اداروں کو الگ رکھنے کے قائل ہیں۔ اسی کے نتیجے میں نہضہ کے رہنماراشد غنوشی نے 'مسلم ڈیموکریٹس‘ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی ہے جس کا مذہبی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ گویا انڈونیشیا اور تیونس‘ دونوں مقامات پر ریاست کو مسلمان بنانے کے تجربات کے بعد‘ وہاں کی مذہبی جماعتیں اس نتیجے تک پہنچی ہیں کہ جد وجہد کا محور ریاست نہیں‘ سماج کو بنانا چاہیے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب نے جو مثال اپنی تائید میں پیش کی ہے‘ وہ ان کے مؤقف کو غلط ثابت کر رہی ہے۔
انڈونیشیا اور تیونس کی مثالوں میں ہمارے لیے بڑی راہ نمائی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تجربات سے سیکھنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس سوال پر غور تو کیا جاناچاہیے کہ ریاست کو مزید مسلمان بنانے کی کوششوں کا حاصل کیا رہا؟انڈونیشیا اور پاکستان مختلف کیوں ہیں؟بارِدگر عرض ہے کہ انڈونیشیا کا اسلام ذکر اور رسوم کا اسلام نہیں‘ وہ زندہ اسلام ہے جو سماج کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا محور‘ ریاست نہیں‘ سماج ہے۔ یہ بات اہلِ علم پر واضح ہے کہ سماج‘ ریاست سے بڑا ہو تا ہے۔ ڈاکٹرحسین احمد پراچہ صاحب کا ایک بارپھر شکریہ اور ان کیلئے دعا کہ انہوں نے تنقیحِ مزید کا موقع فراہم کر دیا۔