ہمیں معاشی آسودگی چاہیے یا جمہوریت؟
بحث اب اس دائرے میں منتقل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سوال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے ہمارے لیے دو میں سے کسی ایک کا انتخاب ناگزیرہے۔ اگر ہم معاشی ترقی چاہتے ہیں تو جمہوریت کو کچھ وقت کے لیے بھول جانا ہو گا۔ یہ اسی طرح کا سوال ہے کہ مذہب چاہیے یا سائنس؟ گویا سائنسی تحقیق کے عمل کو ماننا ہے تو مذہب کا انکار لازم ہے۔ ایک مذہبی ذہن سائنسی نہیں ہو سکتا۔
یہ ایک مغالطہ ہے جو دانستہ پھیلایا جاتا ہے۔ وہ عہد اب قصۂ پارینہ ہوا جب مذہب سائنس کے راستے میں کھڑا ہو گیا تھا۔ اس میں قصور مذہب کا کم اور اہلِ مذہب کا زیادہ تھا۔ اسلام کو اگر مذہب کا حقیقی نمائندہ مان لیا جائے تو مولانا وحید الدین خاں کے الفاظ میں وہ دورِ جدید کا خالق ہے۔ سائنسی تحقیق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شرک ہے۔ چاند سورج جیسے مظاہرِ قدرت کی پرستش نے ان کی تسخیر اور ان تک رسائی کا راستہ بند کر دیا تھا۔ اسلام نے بتایا کہ یہ مظاہر قوانینِ خداوندی کے پابند ہیں۔ ان میں الوہیت تلاش کرنا جہالت ہے۔ چیچک کسی دیوتا کی نارا ضی کا نتیجہ نہیں ہے۔ آج مذہب اور سائنس کی صفوں میں چند کم فہم ہی باقی ہیں جو دونوں کو باہم متصادم قرار دیتے ہیں۔
سیاسیات میں بھی اب اس خیال کے لیے کوئی جگہ نہیں کہ سیاسی استحکام مضبوط ریاست ہی میں آسکتا ہے اور یہ مضبوطی اسی وقت قائم ہوتی ہے جب ریاست کے معاملات آہنی ہاتھوں میں ہوں۔ قانون سازی اور اس کا نفاذ کسی فردِ واحد کو دے دیا جائے۔ دورِ جدید نے بتایا ہے کہ ریاست اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب حکومتوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ آہنی ہاتھوں سے صرف جبر پیدا ہوتا ہے‘ استحکام نہیں۔
'عادل بادشاہ‘ طرز کی کہانیاں اس وقت لکھی گئیں جب بادشاہت ہی حکومت کی واحد صورت تھی۔ لوگ ظالم اور عادل بادشاہ میں فرق کرتے تھے۔ ظالم بادشاہ سے نجات کا مطلب کسی عادل بادشاہ کی حکمرانی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ 'عدل‘ ہی اعتماد پیدا کرتا ہے لیکن تاریخ نے بتایا کہ فردِ واحد کی نسبت اجتماع میں عدل دینے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ مطلق اقتدار کسی انسان کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو اس سے اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ وہ خود کو خیر کا منبع سمجھ لے۔ تاریخ اسی کی تائید کرتی ہے۔ اسی لیے دنیا میں جمہوریت آئی۔
آج انسان طویل تہذیبی سفر طے کر چکا ہے۔ اب رجعتِ قہقری ممکن نہیں۔ مطلق العنانیت کے لیے اب مہذب معاشروں میں جگہ نہیں رہی۔ یہ اگر جمہوریت کے نام پر ہو تو بھی قابلِ قبول نہیں۔ جمہوریت کا لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں سے نجات ممکن ہوتی ہے۔ عوام کو یہ بھروسا ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں گے‘ ان کو ہٹا دیں گے۔ اس سے بھی ریاست پر اعتماد قائم رہتا ہے۔ اگر عوام کو یہ معلوم ہو جائے کہ حکمرانوں کے نصب و عزل میں ان کا کوئی کردار نہیں تو پھر وہ نظام سے مایوس اور لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ لاتعلقی کسی موقع پر غصے میں ڈھل کر ریاست کو رہے سہے استحکام سے بھی محروم کر دیتی ہے۔
اس لیے یہ موازنہ اصولاً غلط ہے کہ عوام کو جمہوریت یا معیشت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر آمریت یا معیشت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا جائے تو اس میں وزن ہے کہ دونوں کا ساتھ چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بالخصوص اگر آمریت میں ظلم بھی شامل ہو جائے۔ لوگ ضیا الحق صاحب اور پرویز مشرف صاحب کے ادوار کا ذکر کرتے ہیں کہ تب پاکستان معاشی طور پر خوش حال تھا۔ اسی طرح ایوب خان صاحب کا عہد بھی۔ اس سے معیشت کو آمریت سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ درست نہیں۔ ان ادوار میں معاشی خوشحالی حکومت کی کسی پالیسی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ امریکی ڈالروں کی فراوانی کے دم سے تھی جو اس خطے میں امریکی مفادات کے پیشِ نظر پاکستان کو دیے گئے۔
اس مقدمے کو مضبوط بنانے کے لیے کرپشن کو بھی جمہوریت سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بھی خلافِ واقعہ ہے۔ کرپشن کا تقابل بھی بتاتا ہے کہ سیاست دان اس دوڑ میں دوسروں سے بہت پیچھے ہیں۔ جمہوریت میں کرپشن کے خلاف دو طرح کا احتساب ہوتا ہے‘ ایک قانونی اور دوسرا عوامی۔ عدالتوں پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے مگر عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھنا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی جمہوریت بہتر نظام ہے۔
یہ ایک اصولی بات ہے لیکن پاکستان کا مخمصہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو کچھ عوارض لاحق ہو گئے ہیں۔ اس بیمار جمہوریت کی وجہ سے ہمارے ہاں ایسے جمہوری ادوار بھی آئے جب نہ صرف عوامی مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مزید سماجی مسائل پیدا کر دیے جن میں سے اکثر اخلاقی نوعیت کے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جمہوریت کو ایک فطری عمل کے طور پر آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ کچھ اداروں نے یہ چاہا کہ اپنی مرضی کے سیاست دان پیدا کریں۔ انہوں نے مزید غلطی یہ کی کہ جب ارتقا کے بعد کچھ سیاست دان پیدا ہو گئے تو ان کا راستہ روک کر نئے سیاستدان پیدا کرنے چاہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ اس سے جمہوریت اس طرح ثمر بار نہیں ہوئی جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔
اب پھر ہم جمہوریت اور آمریت کا ملغوبہ تیار کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں یہی ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس سمت میں قدم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان تمام سیاسی قوتوں کو اس نظام یا ملغوبے کا حصہ بنایا جائے جو عوام میں جڑیں رکھتے ہیں۔ اس نظام کو پانچ سال تک بر قرار رکھا جائے۔ جب سب سیاسی قوتیں اس کا حصہ ہوں گی ا ور وہ غیر ریاستی قوتیں بھی اس میں شامل ہوں گی جن کی قیادت میں مرکزِ تغیرات کام کرتا ہے تو اس نظام کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
اس کے لیے ایک باضابطہ حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگلے پانچ سال کوئی جلوس نکلے گا نہ احتجاج کے نام پر کاروبارِ زندگی متاثر ہو گا۔ میڈیا آزاد ہو گا۔ جس نے جو بات کہنی ہے‘ اسے آزادی ہو گی۔ اسی طرح شہروں میں ہائیڈ پارک کی طرح کی مخصوص جگہیں ہوں گی جہاں جلسہ کیا جا سکے گا۔ سڑکوں اور آبادیوں میں مذہب یا سیاست کے نام پر کوئی سر گرمی نہیں ہو گی۔اس نظام کو الیکشن کے بعد بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے الیکش کا خصوصی قانون بھی بنایا جا سکتا ہے۔ میں اس کی تفصیلات پر ان شا اللہ تفصیل سے لکھوں گا۔
یہ کوئی مثالی حل نہیں۔ یہ عمومی جمہوری پیمانے پر بھی پورا نہیں اترتا لیکن اسے ایک وقتی حل کے طور پر قبول کیا جا سکتاہے۔ پانچ سال بعد یہ فطری ڈگر پر لوٹ سکتا ہے۔ مثالی حل اس وقت ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ اقتدار کی جنگ میں شامل فریق تصادم کی طرف جائیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ سب مل کر ملک کو اس بحران سے نکالیں۔ میں دوسرا راستہ تجویز کر رہا ہوں۔ میں جب اس پر لکھوں گا تو اس تجویز پر بات کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہ کالم اس بحث کو ایک نیا رُخ دینے کی ایک کوشش ہے کہ اصولی باتوں سے اتفاق کے ساتھ ہم عملاً جو پالیسی اختیار کرتے ہیں‘ اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔