کوئی ریاست کا عہدے دار ہے یا ایک عامی‘ پاکستان میں جس کو دیکھو ناصح اور واعظ کے منصب پر فائز ہے۔ اس کے پاس پندو نصیحت کے جواہر سے لبریز ایک زنبیل ہے۔ وہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے‘ لٹاتا چلا جاتا ہے۔ اگر ان میں اُگنے کی صلاحیت ہوتی تو ہم آج نصیحتوں کے ایک جنگل میں بھٹک رہے ہوتے۔
معاشرے کی اکثریت چونکہ مسلم ہے‘ اس لیے واعظین اپنے خطبات کو بااثر بنانے کے لیے حسبِ ذائقہ قرآن مجید‘ احادیث‘ صالحین کے واقعات اور اقوال کا استعمال کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے ساتھ رِقت اور آنسوؤں سے بھی بھرپور کام لیا جاتا ہے۔ اسلوبِ کلام میں 'ہم‘ کہہ کر دوسروں کو مخاطب کرتے ہیں لیکن واعظوں کواس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہوتا کہ 'ہم‘ میں وہ شامل نہیں ہیں۔ یہ وعظ دوسروں کے لیے ہیں اور وہی ان پر عمل کے پابند ہیں۔
میں اکثر خیال کرتا ہوں کہ جس کے پاس اختیار ہے‘ جو زبانِ حال سے بہت کچھ کہہ سکتا ہے‘ وہ زبانِ قال ہی کا سہارا کیوں لیتا ہے؟ مثال کے طور پر ہم میں سے کوئی ایک ادارے کا سربراہ ہے۔ اس کے قوانین و ضوابط کے تحت اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ کچھ پابندیاں وہ ہوتی ہیں جو اخلاقی ہوتی ہیں۔ ہم دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر خود کو اور اپنے رب کو نہیں دے سکتے۔ میں نے کل ہی مولانا وحید الدین خاں کا ایک جملہ کہیں پڑھا کہ جس بات پر ہم اپنے ضمیر کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکتے‘ اس پر ہم اپنے پروردگار کے سامنے بھی نہیں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک محکمے یا ادارے کا سربراہ جب خود کو نظر انداز کرکے دوسروں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریاں بتاتا ہے تو وہ دراصل گفتار کا غازی ہے۔ سماج کو کردار کے غازی بدلتے ہیں‘ واعظین نہیں۔
واعظ اور ناصح ہمارے ادب میں ہمیشہ مطعون رہے ہیں۔ وہ استہزا کا موضوع ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اکثر بے عمل ہوتے ہیں۔ 'دوسروں کو نصیحت‘ خود میاں فضیحت‘۔ جو لوگ فی الواقع اصلاح کے خواہش مند ہوتے ہیں ان کا پہلا ہدف ان کی ذات ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ عمر بھر خاموش رہتے ہیں مگر ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ نقشبندی صوفیا میں ایک طبقہ ہے جو خاموش رہتا ہے۔ وہ کلام نہیں کرتا 'توجہ‘ کرتا ہے۔ ہمارے عہد کے ایک نقشبندی بزرگ تھے مولانا خان محمد‘ جن کا تعلق کندیاں سے تھا۔ شاید ہی کسی نے انہیں عوامی اجتماع میں گفتگو کرتے سنا ہو۔ ان کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو ان کی 'توجہ‘ کی معرفت ان سے وابستہ تھے۔ علامہ اقبال نے اسی بات کو اپنے اسلوب میں بیان کیا ہے:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
یہ علم اور معرفت کا تقابل ہے۔ کسی فلسفیانہ بحث میں پڑے بغیر اس کا جوہر بھی یہی ہے کہ محض معلومات اور علم سے شخصیت کی اصلاح نہیں ہوتی۔ تبدیلی کے لیے اس سے الگ کسی شے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تصوف کے پس منظر میں یہ 'نظر‘ ہے۔ میں اگر اپنے الفاظ میں بیان کروں تو یہ وعظ اور کردار کا فرق ہے۔ ایک اچھا مقرر معلومات اور علم کا دریا بہا دیتا ہے۔ اس سے لیکن زندگی تبدیل نہیں ہوتی۔ الہامی روایت میں واعظ کی طوالتِ کلام کو غیرپسندیدہ اور دانش کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ گفتار اور کردار کے فرق کو تو بطورِ خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ عہدنامہ جدید میں تو ایسے واعظین کو ہدف بنا کر تنقید کی گئی ہے جو سماج میں مذہب اور اخلاق کے نمائندہ بن کے جیتے ہیں مگر بے عمل ہیں۔ قرآن مجید نے بھی اس پر کلام کیا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے جہنم میں ان واعظین کے معاملات کو بیان کیا ہے جو خود عمل نہیں کرتے۔ ہماری دینی روایت میں رکوع و سجود میں طوالت اور وعظ میں اختصار کو پسندیدہ کہا گیا ہے۔
ہمارا معاملہ مگر اس سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔ ہماری گفتگو اور خطبے طویل اور نمازیں مختصر ہوتی ہیں۔ اس روش سے آپ کو شاید ہی کوئی استثنا دکھائی دے۔ مجھے ان لوگوں کے بارے میں بطورِ خاص تشویش ہوتی ہے جن کو ملک کے قانون نے اختیارات دیے ہیں اور یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ کچھ کرکے دکھائیں۔ وزیر خزانہ کا کام معیشت کو درست کرنا ہے‘ فضول خرچی پر خطبہ دینا نہیں۔ خاندان کے سربراہ کا کام اپنے گھر کے نظم کو درست کرنا ہے‘ والدین کے حقوق پر درس دینا نہیں۔ ماںباپ بچوں کی تربیت اپنے کردار سے کرتے ہیں‘ گفتار سے نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ قوم کے راہنماؤں کو کبھی نصیحت بھی کرنا پڑتی ہے۔ یہ نصیحت مگر اسی وقت کام آتی ہے جب آپ عامل ہوتے ہیں۔ اگر ملک کا وزیراعظم قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے تو عام آدمی اس کی نصیحت کو سنتا بھی ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ علم کا پروردگار بھی انہی کی دعائیں زیادہ سنتا ہے جو عالمِ اسباب میں اپنی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ بے عمل عمّال کی باتیں حلق سے نکلتیں اور کانوں کے پردے سے ٹکرا کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔
آج ہم واعظین کی قوم بن چکے ہیں۔ حکمران واعظ ہیں۔ ریاست کے اداروں کے سربراہ واعظ ہیں۔ کوئی اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔ ساری توانائی دوسروں کو نصیحت پر صرف کی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بدترین صورت ایسے حکمران ہیں جو آئین کو پامال کرکے اقتدار میں آتے ہیں اور قوم کو آئین اور قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہیں۔ کیا انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا وعظ الفاظ کی فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اس باپ کی طرح ہیں جس نے گھر میں بار بنا رکھا ہو اور بیٹے کو شراب نوشی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔
یہ رویہ اب ہماری فطرتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ اس طرح مزاج میں رس بس گیا ہے کہ ہمیں اپنے دوغلے پن کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی ایک اور مثال نفاذِ اسلام کا مطالبہ ہے۔ اس مطالبے میں یہ پوشیدہ ہے کہ دوسروں پر اسلام نافذ کریں۔ اس کا یہ پہلو کہ اسلام مجھے اپنی ذات پر نافذ کرنا ہے‘ نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ایک دکان دار کو پورا تولنے کیلئے کیا ملک میں اسلام کے نفاذ کا انتظار کرنا ہوگا؟ ایک سرکاری اہل کار کو اپنی ذمہ داری آئین کے مطابق گزارنے کیلئے کیا یہ دیکھنا ہو گا کہ ملک میں اسلام نافذ ہے یا نہیں؟
مغربی معاشروں کو ہم پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہاں سب اپنی اپنی ذمہ داری کے بارے میں حساس ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی شعور تو وافر ہے‘ سماجی شعورنہیں ہے۔ لیڈروں نے بھی سیاسی شعور ہی کو فروغ دیا ہے۔ سماجی تبدیلی اور ذہنی شعور کے بغیر جو سیاسی شعور پیدا ہوتا ہے‘ اس کے مظاہر ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس کلچر کو فروغ دینا ہوگا جس میں لوگ دوسروں کے بجائے اپنی طرف دیکھیں۔ ہمیں واعظین کی نہیں‘ عاملین کی ضرورت ہے۔ ہمارا سیاسی شعور یہ ہے کہ ہم دیانت دار قیادت چاہتے ہیں تاکہ وہ بد دیانتی کے کاموں میں ہماری معاون بنے۔ جس دن یہ کلچر بدلے گا‘ اس دن انتخابات بھی خود احتسابی کی بنیاد پر ہوں گے۔ لوگ دوسروں کو کرپٹ ثابت کرنے کے بجائے اپنی نیک نامی اور اہلیت کو ثابت کریں گے۔ یہ ہے وہ سیاسی شعور جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ پھر ریاستی عہدے پر متمکن ایک بااختیار آدمی وعظ نہیں کرے گا‘ لوگوں کو یہ بتائے گا کہ اس نے آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری کیسے ادا کی۔