یہ انتخابات ہیں‘ حق و باطل کا کوئی معرکہ نہیں۔ یہ عوام کے جذبات کا بدترین استحصال ہے کہ اسے حق و باطل کا معرکہ بنا کر پیش کیا جائے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ یہاں ہر انتخابی معرکے کو اسی طرح پیش کیا گیا ہے۔ 1970ء میں یہی ہوا۔ بھٹو صاحب کے سوشلزم کو کفر کہا گیا اور عوام کو باور کرایا گیا کہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ 1977ء میں اس عمل کو دہرایا گیا۔ 1985ء میں سیاسی جماعتیں غیر اسلامی قرار پائیں اور انہیں انتخابی عمل میں شرکت سے روک دیا گیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو عورت کی حکمرانی کی حرمت کا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا۔ بعد میں قدرے بہتری آئی لیکن اب مذہبی کارڈ ایک بار پھر آزمایا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں تو ایسا کرتی ہی ہیں اب دوسری جماعتوں کے نادان مذہبی دوست ان کو بھی یہی سبق پڑھا رہے ہیں۔
تاریخ پر حکم لگانا آسان ہوتا ہے۔ ہر واقعے کے نتائج ہم بچشمِ سر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کا اخلاص نہیں‘ ان کی بصیرت زیرِ بحث ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض نے جانتے بوجھتے مذہب کو استعمال کیا ہو؛ تاہم اس کا بھی امکان موجود ہے کہ کچھ سادہ لوح اسے درست سمجھتے رہے ہوں۔ ہم تو ظاہر پر حکم لگاتے ہیں جس کا تعلق فہم اور بصیرت سے ہے۔ کیا آج کوئی ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ ماضی میں اُن دعووں کی کوئی اخلاقی بنیاد موجود تھی؟
1970ء کے انتخابات کو دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح تھا۔ اسلام ہمارا دین ہے‘ جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان میں سے کسی جملے کو دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جب اسلام کو دین ماننے کے بعد معیشت کی سوشلسٹ تشکیل کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس سے کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ یہ عمل اسلام کے دائرے میں ہو رہا ہے۔ ہم نظری بحث اٹھا سکتے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کی روشنی میں معیشت کی سوشلسٹ تشکیل ممکن ہے یا نہیں لیکن اسے اسلام دشمن یا کفر نہیں کہہ سکتے۔ اُس وقت دنیا میں بہت سے مسلم سکالرز تھے جو اسے عین اسلام سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے باوصف بھٹو صاحب کے سوشلزم کو کفر قرار دے کر انتخابات کو کفر اور اسلام کا معرکہ بنا دیا گیا۔ آج کوئی اس تعبیر سے اتفاق نہیں کرتا۔
1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کا سامنا پیپلز پارٹی سے تھا۔ ان انتخابات کو بھی کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ اس معرکے میں جو قومی اتحاد کی حمایت میں نہیں نکلتے‘ اس کی مثال تبوک کے منافقین جیسی ہے۔ کیا آج کوئی یہ بات مان سکتا ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چکی‘ شراب پر پابندی لگا چکی‘ ایسی جماعت کے ساتھ انتخابی مقابلہ حق اور باطل کی جنگ کیسے ہو سکتا ہے؟
بینظیر بھٹو صاحبہ آئیں تو اسلام میں عورت کی حکمرانی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے سیکولرازم کو لادینیت بتایا گیا۔ اس پر قرآنی آیات کا اطلاق کیا گیا کہ جو اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ آج کون ہے جو اس مقدمے سے اتفاق کرتا ہے؟ آج سب بینظیر بھٹو کو مسلم دنیا کا افتخار سمجھتے ہیں کہ وہ پہلی خاتون مسلمان وزیراعظم تھیں۔ آج وہ مسلم تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔
کل جو انتخابی معرکوں کو حق و باطل کا معرکہ قرار دے رہے تھے‘ آج اپنے مؤقف کا دفاع نہیں کر سکتے۔ جو آج کے انتخابات کی یہی تعبیر کر رہے ہیں‘ کل وہ بھی شرمندہ ہوں گے۔ جو بڑی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں‘ ان میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں۔ یہاں تک کہ طرزِ حکومت میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ سب اسی آئین اور قانون کے مطابق حکومت کرتے رہے ہیں۔ آئندہ بھی یہی ہو گا۔ میں نہیں جان سکا کہ کس بنیاد پر اسے حق و باطل کا معرکہ کہا جا رہا ہے؟
2017-18ء میں جس مقام پر (ن) لیگ کھڑی تھی‘ آج اسی جگہ پر تحریک انصاف کھڑی ہے۔ غلط اور صحیح کی بات کل بھی کی جاتی تھی‘ آج بھی کی جائے گی۔ تاہم نہ وہ حق و باطل کا معرکہ تھا‘ نہ یہ حق و باطل کا معرکہ ہے۔ یہ اقتدار کی سیاست ہے۔ ہم انتخابی عمل پر تنقید کر سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے جھکاؤ کی بات کر سکتے ہیں۔ اقتدار کی سیاست میں مگر یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا تھا‘ آج بھی ہو رہا ہے اور امکان یہی ہے کہ کل بھی ہو گا۔ سیاسی عمل کی اصلاح ایک تدریجی عمل ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
سیاسی آنکھ اسے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 2018ء کے انتخابات کو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ‘ دونوں نے غیرمنصفانہ کہا۔ بلاول بھٹو نے 'سلیکٹڈ‘ کی پھبتی کسی۔ اس کے باوجود نتائج کو قبول کیا گیا۔ خان صاحب کو وزیراعظم مان کر ان کو تعاون کی پیشکش کی گئی۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں ''میثاقِ معیشت‘‘ کی تجویز پیش کی۔ اسی کو سیاسی بصیرت کہتے ہیں۔ آپ غلط کو غلط کہہ رہے ہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ سیاسی عمل کو اسی طرح آگے بڑھنا ہے یہاں تک کہ ہم بطور قوم سیاسی و سماجی ارتقا سے گزر کر جمہوری اقدار سے مثالی مناسب پیدا کر لیں۔
آج بھی ضرورت ہے کہ ہم ان انتخابات کو سیاسی ارتقا کا ایک مرحلہ سمجھیں۔ تحریکِ انصاف نے باجود اس کے کہ اسے انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑا‘ انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ یہ اچھا فیصلہ ہے۔ میں نے تو یہ تجویز پیش کی تھی کہ تحریکِ انصاف اس سسٹم کا حصہ بنے۔ تصادم سے صرف اپنی قوت گنوائی جا سکتی ہے‘ حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی قوت کو سمیٹ کر اس وقت کا انتظار کرے جب حالات اس کے حق میں ہو جائیں۔ کل یہ حالات نواز شریف صاحب کے لیے انتہائی ناسازگار تھے۔ ریاست کا ہر ادارہ اور خان صاحب ان کو مٹا دینے کے لیے یکسو ہو چکے تھے۔ چند سال میں یہ منظر تبدیل ہو گیا۔ اگر نواز شریف صاحب کے لیے حالات بدل سکتے ہیں تو خان صاحب کے لیے کیوں نہیں؟اس کے لیے مگر سیاسی بصیرت اور صبر کی ضرورت ہے۔ خان صاحب جب میڈیا سے گفتگوکرتے ہیں‘ مقتدرہ سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ وہ ماضی کی طرح اس کی حمایت چاہتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ یہ پیشکش سیاسی جماعتوں کو کریں اور سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ اسی سے ان کے لیے راستے نکلیں گے۔ جو لوگ انہیں مقتدرہ کے ساتھ تصادم پر اُبھارتے ہیں‘ وہی انتخابات کو حق و باطل کا معرکہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ خان صاحب کے لیے لازم ہے کہ ان کی بات پر کان نہ دھریں۔
مریم نواز صاحبہ نے انتخابی مہم کے اختتام پر اچھی بات کہی۔ میری تجویز پھر یہی ہو گی کہ تحریکِ انصاف اس نظام کا حصہ بنے۔ اسی طرح جس طرح (ن) لیگ 2018ء میں اس نظام کا حصہ بنی۔ اگر وہ مریم نواز صاحبہ کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ایک غیرانتقامی سیاست کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ چلیں تو ان کے لیے راستے کھلیں گے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں ایک دوسرے کے ساتھ برسرِپیکار ہوتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی عمل کو بھی زندہ رکھتیں اور اس کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے 'میثاقِ جمہوریت‘ کیا۔ پھر وہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھیں۔ اپریل 2022ء میں انہوں نے مل کر حکومت بنائی۔ آج پھر انتخابات میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اقتدار کی سیاست حق و باطل کا معرکہ تھا‘ نہ ہوگا۔