انتخابات کے بعد کا مرحلہ استحکام ہے۔ استحکام کی پہلی اینٹ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا ہے۔
انتخابی نتائج پر جو جماعت سب سے زیادہ خدشات کا اظہار کر رہی تھی‘ اس کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دیگر جماعتوں کے پاس بھی بظاہر کوئی جواز موجود نہیں کہ وہ ان نتائج پر انگلی اٹھائیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ ان نتائج کو تسلیم کر لیا جا ئے گا۔ جمہوریت کے لیے یہ ایک نیک شگون ہو گا۔ شکایات کا باب تو کبھی بند نہیں ہوتا اور یہ لازم نہیں کہ ہر شکوہ غلط ہو۔ اس کے باوصف نتائج کو قبول کرنا سیاسی بلوغت کی علامت سمجھی جائے گی۔
انتخابی نتائج کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی خبر نہیں دے رہے۔ یہ ان سیاسی رجحانات کی تاکیدِ مزید ہے جن کو ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی‘ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی‘ پنجاب میں (ن) لیگ اور پھر پی ٹی آئی‘ بلوچستان میں منتشر مینڈیٹ‘ مدت سے سیاسی رجحانات یہی ہیں۔ دس سال پہلے انتخابی سیاست میں پی ٹی آئی کا ظہور ہوا جس میں خیبر پختونخوا اس کی قوت کا سرچشمہ بنا۔ پنجاب میں نواز شریف صاحب نے پیپلز پارٹی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے مایوس لوگوں کے لیے ایک متبادل بن گئی۔ خان صاحب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ نواز شریف صاحب کا توڑ مل گیا ہے۔ یوں پی ٹی آئی پنجاب میں متبادل قوت بن گئی۔ 2024ء کے انتخابی نتائج ان سیاسی حقائق کی توثیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان نتائج سے اس سیاسی حقیقت کی بھی تجدید ہوئی کہ سیاسی عصبیت کا توڑ عدالت یا ریاست کے پاس نہیں ہے۔ ایک سیاسی عصبیت پر کوئی دوسری عصبیت ہی غالب آ سکتی ہے۔ خان صاحب نے جو عصبیت پیدا کر دی ہے اس نے کلٹ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی گئی وہ ناکام ثابت ہوئی۔ اہلِ تحقیق اس کے اسباب کا سراغ لگائیں گے لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسباب جو بھی رہے ہوں‘ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اس عصبیت نے انتخابی نتائج کی صورت میں ظہور کیا ہے۔
ان نتائج کی کوکھ سے کیا سیاسی استحکام جنم لے سکے گا؟ آج کا سب سے اہم سوال یہی ہے۔ تادمِ تحریر جو انتخابی نتائج ہمارے سامنے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک فریق اتنا توانا نہیں ہے کہ تنِ تنہا حکومت بنا سکے۔ یہ بظاہر سیاسی نظام کی ناکامی ہے کیونکہ تاریخ یہ ہے کہ ایسی صورتحال سیاسی ابہام میں اضافہ کرتی ہے؛ تاہم اگر سیاسی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرے تو یہ کمزوری اس نظام کی طاقت میں بدل سکتی ہے۔
اس سے ایک قومی حکومت کا تصور مستحکم ہو سکتا ہے۔ اگر پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایک قومی حکومت پر اتفاق کر لیں اور معاشی استحکام کے لیے ایک پانچ سالہ منصوبہ تشکیل دے پائیں تو اس سے مل کی معیشت ایک ڈگر پر چل نکلے گی۔ اس خیال سے خان صاحب شاید اتفاق نہ کر پائیں۔ اگر آزاد اراکین پر ان کی گرفت مضبوط رہی تو وہ قومی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ ہو گا کہ خان صاحب پر مقدمات ختم ہوں۔ اگر نئی حکومت اس سے اتفاق کرے تو وہ اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ معاملہ قومی حکومت کی تشکیل میں مانع ہو گا۔
ایک منظر نامہ یہ ہے کہ آزاد اراکین (ن) لیگ کا انتخاب کریں اور یوں (ن) لیگ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر سامنے آئے۔ پیپلزپارٹی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرے؛ تاہم اس صورت میں 'اصلی‘ پی ٹی آئی اس نظام کا حصہ نہیں ہو گی اور یوں عدم استحکام کا خطرہ اس سسٹم کے دامن گیر رہے گا۔ یہ منظر نامہ کچھ ایسا خوش آئند نہیں ہو گا‘ اِلّا یہ کہ پی ٹی آئی زیادہ مزاحمت نہ کر سکے اور نئی حکومت اپنی کارکردگی سے عوام کا دل جیت لے۔ ایسا ہونا شاید مشکل ہو اور اس کی وجہ خان صاحب کا مزاحمتی مزاج ہے۔ وہ مزاحمت کریں گے اور اس سے ایک تلوار اس نظام کے سر پر لٹکتی رہے گی۔
نئی صورتحال جتنی پیچیدہ ہے‘ ا تنی ہی بالغ نظری کی متقاضی ہے۔ ایک بات طے ہے۔ اس انتخابی عمل کا اعادہ جلدی نہیں ہو سکے گا۔ اگر یہ نظام قابلِ عمل ثابت نہ ہوا تو پھر ملک کسی غیر آئینی حل کی طرف بڑھے گا۔ اس لیے سب کو بادلِ نخواستہ ہی سہی اسے قبول کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کی آتش مزاج قیادت شاید اسے قبول نہ کرے۔ پانچ سال کا صبر ان کے لیے مشکل ہو گا۔ اس لیے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی 'اصلی‘ کو شامل کیے بغیر استحکام کا حصول آسان نہیں ہو گا۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ قومی جماعتوں نے کم یا زیادہ‘ سب صوبوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ پیپلزپارٹی‘ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی‘ سب صوبوں میں اثرات رکھتی ہیں۔ (ن) لیگ نے اپنی سیاست میں خیبر پختونخوا اور سندھ کو نظر انداز کیے رکھا۔ مجھ پر اس کی حکمت کبھی واضح نہیں ہو سکی۔ آج سندھ اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ نیک شگون ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی کی چند نشستیں جیت پائی ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں ہی مضبوط وفاق کی علامت ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔
ان نتائج سے ایک اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ پنجاب میں جیتنے اور ہارنے والے میں چند نشستوں کے سوا ووٹوں کا فرق بہت کم ہے۔ یہ رجحان سندھ اور خیبر پختونخوا میں نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی یکطرفہ طور پر جیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست میں پنجابی عصبیت موجود نہیں ہے۔ پنجاب کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اس کے برخلاف سندھ اور خیبر پختونخوا کسی پنجابی کے لیے اپنے در وا کرنے پر آمادہ نہیں۔ سندھ کے لوگوں کو پیپلز پارٹی سے شکایت ہو سکتی ہے لیکن شکوؤں کے باجود وہ کسی غیرسندھی کے ہاتھ میں اپنی باگ دینے پر آمادہ نہیں۔ یہی رجحان خیبر پختونخوا میں ہے۔ ان انتخابات میں اس کا اظہار بھی ہوا۔
ان نتائج سے یہ بات پھر ثابت ہوئی کہ مذہبی جماعتوں کے لیے انتخابی سیاست میں کچھ نہیں رکھا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اگرچہ خود کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کی لیکن مستقبل میں شاید اس کے لیے مزید دین و دنیا کے اس ملاپ کو نبھانا مشکل ہو؛ تاہم مولا نا فضل الرحمن چونکہ فطری طور پر سیاستدان ہیں‘ اس لیے وہ اپنے لیے راستے نکالنا جانتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو مذہبی کارڈ ان کے پاس ہے ہی۔ وہ اس کو کسی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے مذہب اور سماج کو جو نقصان پہنچے گا‘ اس کا احساس کم لوگوں کو ہے۔ رہی جماعت اسلامی تو اسے صرف دعا دی جا سکتی ہے‘ مشورہ نہیں۔ عوام نے ایک بار پھر مذہبی سیاست کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کردیا ہے۔ معلوم نہیں‘ ہماری مذہبی جماعتیں اس عوامی آواز پر کب کان دھرتی ہیں۔
انتخابات جمہوریت کے سفر میں پیش قدمی ہے۔ یہ سیکھنے کا ایک عمل ہے‘ ریاست کے لیے‘ سیاسی جماعتوں کے لیے اور عوام کے لیے بھی۔ اس سے کس نے کیا اور کتنا سیکھا‘ اس کا اندازہ آنے والے ایک ماہ میں ہو جائے گا۔ سیاسی حقیقتیں بے نقاب ہو کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس طرح ان کا سامنا کرتے ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا پھر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں۔