ہماری زندگی خود ساختہ حقائق (Virtual Reality) کی گرفت میں ہے یا فی الواقع نئی سیاسی و سماجی حقیقتیں جنم لے چکیں؟
یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ساختہ حقائق نتیجتاً حقیقی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ وہ 'حقیقت‘ جو کمپیوٹر کی مدد سے ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہو رہی ہے‘ غیرحقیقی ہونے کے باوجود ہماری معمولاتِ زندگی کو متاثر کر رہی ہے اور ہمارے خیالات کو بھی۔ اس کے نتیجے میں ہم جو اقدام کرتے ہیں‘ وہ ہماری اصل زندگی کی صورت گری کرتا ہے۔
ایک مثال سے بات مزید واضح ہو جائے گی۔ ایک سیاسی جماعت سوشل میڈیا پر ایک مہم چلاتی اور خود ساختہ حقائق عوام کے سامنے رکھتی ہے۔ عوام اسے سچ سمجھتے ہیں اور حقیقی زندگی میں اپنا ووٹ اس کے زیرِ اثر استعمال کرتے اور ایک سیاسی جماعت کو ایوانِ اقتدار تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس جماعت کا طرزِ عمل عوام کی حقیقی زندگی پر اثر انداز ہو گا۔ اس طرح خود ساختہ حقیقت‘ نتیجے کے طورپر حقیقی زندگی کو متاثر کر رہی ہو گی۔
ہماری زندگی میں ورچوئل رئیلٹی کا کردار اس طرح بڑھ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہی ہماری حقیقی زندگی ہو گی۔ ہم اسی میں ہنسیں گے اور اسی میں روئیں گے۔ یہ ہمارے ارد گرد ایک حصار بنا دے گی۔ ہم اپنی خواہشوں کی فصیلوں میں قید ہو جائیں گے اور انہیں حقیقی خیال کریں گے۔ یہ پیش گوئی بھی ہے کہ یہ ورچوئل رئیلٹی میں جنم لینے والا سامانِ تسکین ہماری ازدواجی زندگی کا متبادل بن جائے گا۔ اس کے نتیجے میں خاندان کے ادارے کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ سوال بھی پیدا ہو گا کہ انسانی افزائشِ نسل بھی کیا اس خود ساختہ حقیقت کی نذر ہو جائے گی؟ اس کے بعد نسلِ انسانی کیسے باقی رہ پائے گی؟
میں جب اس تبدیلی پر غور کرتا ہوں تو افلاطون کا تصورِ امثال ذہن میں اُبھرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں‘ یہ ایک عالمِ امثال ہے۔ حقیقی زندگی کہیں اور ہے‘ یہ جس کا عکس ہے۔ جیسے غار میں بیٹھے افراد اس واقعے کو دیوار پر پڑنے والے سائے سے جان رہے ہیں جو غار سے باہر حقیقی زندگی میں رونما ہو رہا ہے۔ جو دیوار پر دکھائی دے رہا ہے‘ وہ حقیقی نہیں ہے۔ ان کو دیکھنے والا مگر اسے حقیقی سمجھ رہا ہے۔ وہی ورچوئل رئیلٹی۔
مذہبی تعبیر کے مطابق اس دنیا کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔ وہ ان معنوں میں تو حقیقی ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ایک خاص وقت کیلئے امرِ واقعہ ہے۔ وقت کا یہ تصور جب تبدیل ہوتا ہے تو یہ سب غیرحقیقی بن جاتا ہے۔ وقت کے محدود تصور میں موت آتی ہے تو انسان مر جاتا ہے لیکن مذہبی تعلیمات کے مطابق وقت کا کینوس وسیع ہوتا ہے تو یہ موت حقیقی نہیں رہتی۔ یہی انسان کچھ وقت کے بعد دوبارہ جی اٹھتا ہے۔ بالکل ایک تمثیل کی طرح‘ جس میں ایک کردار مر جاتا ہے اور پردہ گرنے کے بعد اُٹھ جاتا ہے۔
مذہب کے دیے ہوئے قانونِ آزمائش کے مطابق یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی نوعیت آزمائش کی ہے۔ قاتل اور مقتول دونوں آزمائش کا شکار ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب دونوں زندہ ہو کر ایک عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ وہ منظر حقیقی ہو گا۔ وہاں جو کچھ ہو گا‘ وہی اصلی ہے۔ کیا اس کی یہ تفہیم کی جا سکتی ہے کہ مذہبی تعبیر کے مطابق بھی یہ عالم ایک ورچوئل رئیلٹی ہے اور اس میں ہونے والا واقعہ غیرحقیقی ہونے کے باوجود نتیجتاً ہماری حقیقی زندگی پر اثر انداز ہو نے والا ہے؟
یہ مذہب کی سائنسی تعبیر کی کوئی کوشش نہیں ہے اور نہ میں اس اندازِ نظر کا قائل ہوں۔ میں مذہب کو ایک مخبرِ صادق کی خبر کی بنیاد پر درست مانتا ہوں جس کی تصدیق میرے حواس کرتے ہیں اور عقل و شعور بھی۔ میں آخرت کے مقدمے کو اخلاقی بنیاد پر درست مانتا ہوں؛ تاہم مذہبی متون یہ کہتے ہیں کہ انسان جب اپنے ارد گرد پھیلی کائنات کو دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے تو دراصل اپنے پروردگار کو دریافت کرتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کائنات کے مظاہر اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ٹیکنالوجی میں کچھ حقیقی نہیں ہے۔ یہ قدرت کی تخلیق سے مستنبط اصولوں کا اطلاق ہے۔
پھر یہ کہ جب ہم افلاطون کے فلسفے کو بھی اسی تسلسل میں دیکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن نظری سطح پر جو دریافت کر پایا ہے یا ٹیکنالوجی کی مدد سے جس غیرحقیقی زندگی کی صورت گری کر رہا ہے‘ یہ سب تمثیل ہے۔ گویا کچھ حقیقی نہیں ہے۔ یہ مذہب کی سائنسی تعبیر نہیں ہے۔ یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ ہمارے پاس موجود علم کا قدیم ترین مصدر اور جدید ٹیکنالوجی دونوں اس جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ ہم ایک غیرحقیقی عالم‘ عالمِ امثال میں جی رہے ہیں‘ اصل عالم کہیں اور ہے۔ مذہبی مقدمے کے مطابق یہ عالم وہ ہے جس میں جنت اور دوزخ ہیں اور وہی حقیقی ہے۔
افلاطون اس عالم کو عالمِ امثال کہتا ہے لیکن ایک دوسرے حقیقی عالم کو بھی مانتا ہے۔ وہ یہ نہیں بتا سکا کہ وہ کہاں ہے۔ مذہب نے بتا دیا کہ وہ کہاں ہے۔ اس نے ابھی وجود میں آنا ہے۔ یہ عالمِ امثال ختم ہو جائے گا اور پھر اس کے اجزا کی ترتیبِ نو ہو گی جس سے حقیقی عالم وجود میں آئے گا۔ عالم کا پروردگار اس زمین و آسمان کو نئے زمین و آسمان سے بدل ڈالے گا۔
انسان نے ورچوئل رئیلٹی سے ایک من پسند زندگی 'تخلیق‘ کر لی ہے۔ وہ جب چاہے گا اس کے ارد گرد دھوپ پھیل جائے گی۔ وہ بارش کی خواہش کرے گا تو مینہ برسنے لگے گا۔ وہ آرزو کرے گا تو سمندر اس کی نظروں کے سامنے موجزن ہو جائے گا۔ یہ سب مگر ہوگا غیرحقیقی۔ مذہب کہتا ہے کہ حقیقت میں بھی ایسا ہو گا۔ پروردگار کو پہچاننے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فی الواقع ایسی زندگی ملنے والی ہے۔ وہ جو چاہیں گے‘ انہیں میسر ہوگا۔ دل میں جنم لینے والی خواہش واقعہ بن کر سامنے ہوگی۔ ورچوئل رئیلٹی نہیں‘ زندہ حقیقت بن کر۔
انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ ورچوئل رئیلٹی سے حقیقت تک پہنچ جائے۔ عکس میں اصل کو دریافت کر لے۔ غار کی دیوار پر پھیلے سائے سے جان لے کہ اس غار کے باہر ایک زندگی ہے اور وہی حقیقی ہے۔ عالمِ امثال سے پرے بھی ایک عالم ہے اور وہی اصلی ہے۔ فلسفی اور پیغمبر میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ فلسفی عالمِ امثال سے نکلنے کا راستہ نہیں جانتا اور پیغمبر انگلی تھام کر اس عالم سے حقیقی عالم تک لے جاتا ہے۔ غور کیجئے تو زندگی اسی سفر کا نام ہے۔ ہم دراصل ایک غیرحقیقی زندگی میں زندہ ہیں۔ اس کی درست تعبیر یہ ہے کہ یہ دارالامتحان ہے۔ اس کا وجود عارضی ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے مستقل ہے۔ اس کا دروازہ بند ہو گا‘ پرچے کا وقت ختم ہو گا تو ہم حقیقی زندگی میں پہلا قدم رکھ دیں گے۔ اب ایک انتظار گاہ میں بیٹھ کر نتیجے کے اعلان کا انتظار کریں گے۔ نتیجے کے بعد ہم اس حقیقی زندگی میں دوسرا قدم رکھ دیں گے۔ ایسی زندگی جس میں ہمیں ہمیشہ رہنا ہو گا۔
معلوم ہوا کہ ورچوئل رئیلٹی نے کسی نئی حقیقت کو جنم نہیں دیا۔ اس نے ایک قدیم سبق کی یاد دہانی کرائی ہے۔ انسان جیسے ہی ٹیکنالوجی کی عینک اتارے گا‘ حقیقی زندگی اس کے سامنے کھڑی ہو گی۔