سوشل میڈیا فی الجملہ فساد کا گھر ہے۔ یہ فساد اخلاقی ہے‘ سماجی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کے ساتھ اس میں مگر خیر بھی ہے۔ اس خیر کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔
میرا تعلق جس نسل سے ہے وہ کتاب کلچر میں پروان چڑھی ہے۔ میں ابلاغ کے جدید ذرائع سے آج بھی مانوس نہیں ہو سکا۔ انہیں حصولِ علم کا ذریعہ ماننے میں تردد ہوتا ہے۔ برسوں پہلے کچھ دوستوں نے اصرار کر کے میرا ٹویٹر اکاؤنٹ کھولا۔ ٹویٹر اب 'ایکس‘ کا پیرہن اختیار کر چکا مگر میں ٹویٹ کرنے کی سعادت سے محروم ہی رہا۔ اپنی کم علمی کے سبب مجھے اس محرومی کا احساس بھی نہیں۔ میرے آنکھیں بند کر لینے سے‘ مگر دنیا بدل نہیں جائے گی۔ وقت کے جبر نے یوٹیوب سے البتہ وابستہ کر دیا۔ اس محدود وابستگی کی بنیاد پر یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس میں خیر موجود ہے اگر کوئی تلاش کرنا چاہے۔
میں جب اپنی دلچسپی کے موضوعات کو دیکھتا ہوں تو معلومات کا ایک انبار ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اپنے اس محدود سے تجربے کو کالم میں بیان کر دوں۔ مجھے اگر چہ اس کا بھی احساس ہے کہ پڑھنے والے اس معاملے میں مجھ سے کہیں آگے ہیں؛ تاہم اس میں کوئی حرج نہیں کہ میں نے اپنی دلچسپی کے میدانوں میں کیا کچھ مفید پایا‘ اس کو بیان کر دوں۔
مذہب مثال کے طور پر ایسا ہی ایک میدان ہے۔ اس میں اُردو‘ انگریزی‘ عربی اور فارسی میں بے پناہ مواد موجود ہے۔ سوشل میڈیا میں تمام اہم تفاسیر موجود ہیں۔ قرأت کے بہت شاندار نمونے موجود ہیں۔ اگر آپ عربی زبان کی ایسی تدریس چاہتے ہیں جس سے قرآنِ مجید کے متن کو سمجھ سکیں تواس پر موجود ہے۔ اب تو معاملہ یہ ہے کہ اس ایک موضوع پر اتنا کچھ میسر ہے کہ انتخاب مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ عام آدمی کی راہ نمائی کی جائے کہ وہ کیا دیکھے۔ میں دین سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اپنے استاذ جاوید احمد صاحب غامدی کے پروگرام دیکھتا ہوں۔ جو علمی متانت اور دعوتی اخلاص دینی پروگراموں کا خاصہ ہونے چاہئیں‘ وہ مجھے ان کے پروگراموں میں ملتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کے درس کے ساتھ‘ عصری مسائل پر بھی بات کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے اہلِ علم کی کوئی گفتگو مل جائے تو اسے بھی توجہ سے سنتا ہوں۔ میرے علم میں نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کو اپنی بات کے ابلاغ کے لیے باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ اپنا مستقل وی لاگ شروع کریں تو یقیناً مجھ جیسے بہت سے طالب علموں کا بھلا ہو اور سوشل میڈیا کے اعتبار میں اضافہ ہو گا۔ مناظرہ باز مبلغین سے میں گریز کرتا ہوں۔ ان کی ایک آدھ وڈیو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ جس لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں‘ اس سے دین کو کوئی فائدہ ہے نہ طالب علم کو۔ میں دوسروں کو بھی ان سے گریز ہی کا مشورہ دوں گا۔ دین کے ایک طالب علم کوالبتہ جاوید احمد غامدی صاحب‘ مفتی تقی عثمانی صاحب یا مفتی منیب الرحمن صاحب جیسے سنجیدہ اہلِ علم کی باتیں ضرور سننی چاہئیں۔
ادب‘ تصوف‘ فلسفہ اور تہذیبی مسائل پر احمد جاوید صاحب کو سننا وقت کا اچھا مصرف ہے۔ ان کی باتیں معلومات افروز بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ دو دن پہلے میں نے معین اختر مرحوم پر ان کی ایک گفتگو سنی۔ میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا اور اس پہلو سے سوچنے کا موقع ملا کہ کوئی چاہے تو ناسازگار حالات میں بھی تہذیبِ نفس کر سکتا ہے۔ اسی طرح شعر فہمی کے باب میں ان کے وی لاگز سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ فارسی ادب پر ان کی نظر قابلِ رشک ہے۔
فلسفے پر انگریزی زبان میں بے شمار اور بے مثال پروگرام موجود ہیں۔ اگر کوئی اُردو میں سمجھنا چاہے تو بھارت کے ایک استاذ ڈاکٹر ہمت سنگھ سنہا کی گفتگو سنے۔ انہوں نے بڑے فلسفیوں کی زندگی اور فلسفے پر کلام کیا ہے اور دقیق مسائل کو بہت سہل انداز میں بیان کر دیا ہے۔ میں نوجوانوں کو مشورہ دوں گا کہ انہیں ضرور سنیں۔ انگریزی میں تو خیر لوگوں نے کمال کر دیا ہے۔ ایک ایک فلسفی اور ایک ایک اہم کتاب پر کئی اسالیب میں کلام کیا ہے۔ بعض تو اتنی دلچسپ ہیں کہ فلسفہ کہانی سے زیادہ اثر انگیز معلوم ہوتا ہے۔ یہ خشک لیکچر نہیں بلکہ تصاویر اور متحرک مناظر کے ساتھ ہیں۔
تاریخ کے اہم واقعات پر بہت شاندار دستاویزی فلمیں موجود ہیں۔ اچھی فلمیں تو انگریزی میں ہیں۔ مسلم تاریخ کے ساتھ عالمی تاریخ کو بھی اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عام آدمی بھی ان واقعات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس میں مستند کو تلاش کرنا مشکل نہیں۔ اکثر لوگ شروع میں اپنا تعارف کرا دیتے ہیں۔ آکسفورڈ‘ کیمبرج اور ہاورڈ جیسے اداروں سے وابستگی بھی مستند ہونے کی ایک دلیل ہے۔ ایسے اداروں کے فارغ التحصیل لوگوں سے ہم توقع نہیں رکھتے کہ وہ علمی بددیانتی کا ثبوت دیں گے۔ تہذیبوں اور اہم مقامات پر بھی دستاویزی فلمیں موجود ہیں۔ یہ نہ طویل ہیں اور نہ خشک۔ معلومات کا خزانہ ہیں۔
سیاستِ حاضرہ کے پروگرام لوگ سب سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے کوئی ایک ایسا وی لاگ نہیں ہے‘ میں جسے دیکھنے کی سفارش کر سکوں۔ خبر کے لیے میں انصار عباسی صاحب‘ عمر چیمہ اور اعزاز سید پر اعتماد کرتا ہوں۔ مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافت کے بڑے بڑے نام ناظرین اور سامعین کی تعداد بڑھانے کی خواہش میں معیار کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ سیاسی وی لاگز نے ٹی وی چینلز کے سیاسی پروگراموں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مقبول ہونے کی خواہش غالب ہو گئی ہے جس سے تجزیے کی سنجیدگی متاثر ہوئی ہے۔
اس کالم میں تمام موضوعات اور مواد کا احاطہ مقصود نہیں اور میں اس کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ میں صرف ا یک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بے مقصد سیاسی وی لاگز اور سستی تفریح کے بجائے اگر سنجیدہ مواد کی طرف رجوع کیا جا ئے تو تفریح کے ساتھ معلومات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھ جیسا مبتدی اگر اتنے پروگرام ڈھونڈ لایا ہے تو آج کا نوجوان مجھ سے کہیں زیادہ رسائی رکھتا ہے۔ وہ چاہے تو ایسے پروگرام تلاش کر سکتا ہے جس سے وہ حظ اٹھانے کے ساتھ اپنے ذہن کے دریچے وا کرنے کا کام بھی لے سکتا ہے۔
اُردو میں لوگوں نے مفید کام کیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ‘ سائنس اور تہذیبوں پر اُردو میں اچھی دستاویزی فلموں کی کمی ہے۔ اقبالیات پر بہت کام ہونا چاہیے۔ بچوں کو ہم نے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم کوئی اچھا کارٹون نہیں بنا سکے۔ مغربی تہذیب اگر عالمگیر ہے تو اس کی وجہ ان کی محنت ہے۔ ساری دنیا کے بچوں کو‘ صرف کارٹونوں کی مدد سے انہوں نے اپنی زبان اور تہذیب کا پرستار بنا دیا ہے۔ ان بچوں کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔
سوشل میڈیا کو بند کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اس حقیقت کو مان کر ہمیں اپنے مادی اور تہذیبی وجود کو قائم رکھنا ہوگا۔ میری نسل کے لوگوں کو بھی کوشش کر کے اپنے ماحول سے نکلنا ہو گا۔ اہلِ مغرب نے اگرچہ سوشل میڈیا کے ذریعے اخلاقی فساد برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی مگر اس کے ساتھ‘ اگر کوئی سنجیدگی سے علم کا متلاشی ہو تو اس کے لیے بھی کمی نہیں۔ لوگوں کو ترغیب دینی چاہیے وہ اس طرف رجوع کریں۔ ہمیں اپنے تجربات میں دوسروں کو شریک کرنا چاہیے کہ کیا اچھا میسر ہے۔ صرف گوگل پر انحصار کافی نہیں کہ وہ تمام رطب و یابس سامنے رکھ دیتا ہے۔