اگر ہمیں جینا ہے تو سیاسی و مذہبی تقسیم سے ماورا چند فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر احتجاج کے کلچر سے نجات۔
'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘۔ سب اس جملے کی گرفت میں ہیں۔ اس صحیح بات کو جس غلط انداز میں اختیار کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں 'جمہوریت‘ کی کوئی خبر ہے اور نہ 'حق‘ کی۔ جمہوریت میں ہر حق آپ کے فرض کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بنیادی حقوق‘ جیسے جینے کا حق‘ حرکت کا حق‘ کسی صورت میں پامال نہیں کیے جا سکتے۔ اس لیے احتجاج کے نام پر عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دینا نہ تو حق ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ لہٰذا احتجاج کا ہر وہ اسلوب جس سے زندگی مفلوج ہو جائے‘ جمہوریت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
دھرنا طرز کا احتجاج ان لوگوں نے متعارف کرایا ہے جو جمہوریت پر نہیں‘ انقلاب پر یقین رکھتے ہیں۔ انقلاب بنیادی طور پر موجود نظام اورقانون سے بغاوت کا نام ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کو بے بس بنا دیا جائے۔ اس راہ میں جو قانون آئے اسے پامال کیا جائے۔ انقلاب آداب کا پابند نہیں ہوتا۔ اس میں لوٹ مار کو بھی اس دلیل کے ساتھ جائز سمجھا جاتا ہے کہ یہ مال عوام کا ہے جو سرمایہ داروں نے اپنی تجوریوں میں بند کر رکھا ہے۔ انقلاب کا یہ تصور اشتراکیت کی دین ہے جسے اسلام اور جمہوریت پسندوں نے بھی اپنا لیا۔
جمہوریت ہی نہیں‘ اسلام جیسے اخلاقی نظام میں بھی دوسرں کی عزت اور جان و مال کو حرمت حاصل ہے۔ ہم دوسروں پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ان کی عزت یا جان و مال کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتے۔ احتجاج کے کلچر نے اس فرق کو مٹا دیا۔ دوسروں کے گھروں کے سامنے جمع ہو کر آوازے کسنے اور ان کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے کو احتجاج کا نام دے کر قابلِ قبول بنا لیا گیا۔ جمہوریت اور مذہب میں ملزموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ احتجاجی کلچر نے تنقید اور بدتمیزی کا فرق ختم کر دیا۔ 'الیکشن کمشنر کو شرم آنی چاہیے‘... یہ جملہ خود بول کر بتا رہا ہے کہ یہ تنقید نہیں کچھ اور چیز ہے۔
ہم نے احتجاج کے جس کلچر کو اختیارکر لیا ہے‘ اس میں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے اور دوسروں کی توہین کی جاتی ہے۔ کوئی منظم اور مہذب معاشرہ اس رویے کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس سے صرف انارکی اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ عوام سیاسی و مذہبی وابستگی سے ماورا اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے سب کو اس کلچر سے نجات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ہم احتجاج کیوں کرتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات مؤثر انداز میں اس طبقے تک پہنچے‘ ہم جسے متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ بالعموم اس کا ہدف حکومت ہوتی ہے۔ جب ہم سڑکیں بند کرتے ہیں تو صرف حکومت متاثر نہیں ہوتی‘ عام آدمی‘ تاجر‘ مزدور‘ طالب علم‘ مریض‘ نہیں معلوم کتنے طبقات ایک اذیت سے گزرتے ہیں۔ جب ایک وقت میں سب لوگ متاثر ہوتے ہیں تو اس سے زندگی متاثر ہوتی ہے۔ جب ایک ہسپتال میں احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو آپ کے مریض کے ساتھ بے شمار دوسرے مریض بھی موت کی دہلیز پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اس حرکت کو احتجاج کہنا چاہیے؟
دورِ جدید میں احتجاج کے بہت سے مؤثر طریقے وجود میں آگئے ہیں۔ جیسے سوشل میڈیا۔ پچھلے چند برسوں میں جس ادارے نے سماج کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سوشل میڈیا ہے۔ حکومت بھی اگر دباؤ میں آئی ہے تو سوشل میڈیا سے۔ اس کے سوئے استعمال سے جو شر پھیلتا ہے‘ وہ بھی کم نہیں۔ جیسے افواہوں اور جھوٹی خبروں سے معیشت سمیت بہت سے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم 'ورچول رئیلٹی‘ سے زندگی پر وہ اثر نہیں پڑتا جو 'رئیلٹی‘ سے پڑتا ہے۔ اگر کسی کو اپنی بات کہنی ہے تو کیوں نہ اس فورم کو استعمال کیا جائے۔ اس کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا سمیت ابلاغ کے دوسرے ذرائع بھی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ اس کے لیے بھی احتجاج کے ایسے اسالیب اختیار کیے جا سکتے ہیں جس سے متاثر کن انداز میں اپنی بات کہی جائے اور ساتھ ہی عام آدمی بھی متاثر نہ ہو۔ اسی طرح عوام کے منتخب نمائندوں سے مل کر انہیں قائل کیا جائے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس پر آواز اٹھائیں کہ میڈیا پر ناروا پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ دنیا بھر میں لوگ احتجاج کے ایسے طریقے اپناتے ہیں جس سے مطالبے کا ابلاغ ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی زندگی بھی رواں دواں رہتی ہے۔
ہمارے ہاں اب رواج ہو گیا ہے کہ کسی ایک تھانے دار سے شکایت ہوتی ہے اور جی ٹی روڈ کو بند کر دیا جاتا ہے۔ جی ٹی روڈ کو بند کرنے کا مطلب پورے ملک کو مفلوج کرنا ہے۔ احتجا ج کے ان طریقوں سے حکومت سب سے کم متاثر ہوتی ہے۔ بڑے مناصب پر فائز لوگوں کی زندگی پر سب سے کم اثر پڑتا ہے۔ یہ عام آدمی ہے جو وقت پر گھر نہیں پہنچ سکتا۔ جو اپنی بیمار ماں کے لیے دوا کا بندو بست نہیں کر سکتا۔
لازم ہے کہ احتجاج کو کسی ضابطے کا پابند بنایا جائے۔ اس کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی شعوری تربیت بھی۔ ہمیں دو طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ 'ای گورنمنٹ‘ کے تصور کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ایک عام آدمی متعلقہ شعبے کو اپنی شکایت پہنچا سکے اور اس شعبے کے ذمہ داران کو پابند بنایا جائے کہ وہ ایک خاص وقت میں اس شکایت کا ازالہ کریں۔ عمران خان صاحب نے ایک پورٹل بنایا تھا جس کے ذریعے وزیراعظم کو براہِ راست شکایت کی جا سکتی تھی۔ اس کو اگر محکمہ جاتی سطح پر منظم کیا جائے تو شکایات کا تدارک ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ احتجاج کے لیے سڑکیں بند کرنے پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے اور شہروں میں احتجاج کے لیے مقامات مخصوص کیے جا سکتے ہیں۔
شعوری تربیت کے لیے یہ مذہبی راہ نماؤں کی ذمہ داری ہے اور میڈیا کی بھی۔ اس کے ساتھ ہر اس فورم کی‘ جس کا تعلق شعور پیدا کرنے سے ہے جیسے تعلیم۔ اگر جامع مسجد کا خطیب‘ میڈیا میں بیٹھا قلم کار یا تجزیہ کار اور کمرۂ جماعت میں بچوں کو پڑھاتا استاد اس احتجاجی کلچر کو موضوع بنائیں تو سماج کی سمت درست ہو سکتی ہے۔ والدین کا بھی اس میں ایک کردار ہے۔
سماج کبھی مسائل سے خالی نہیں رہتا۔ یہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی نہیں ہوتا۔ اگر فیصلہ سازی میں عوام کی براہِ راست شرکت ہو اور لوگوں کی شکایات کا بروقت ازالہ ہو تو مسائل میں کمی لا ئی جا سکتی لیکن انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی میں بعض اوقات بڑے حادثات ہو جاتے ہیں کہ عوام بے قابو ہو کر باہر نکل آتے ہیں جیسے جب فلسطینیوں کا قتلِ عام ہوا تو پوری دنیا سراپا احتجاج بن گئی۔ ایسے واقعات استثنائی ہیں۔ میں تو اس احتجاجی رویے کی بات کر رہا ہے جو اَب ہمارا روزمرہ ہے۔ ہمیں اس سے نجات کی ضرورت ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ترقی کے لیے زندگی کا روں دواں رہنا ضروری ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ محض زندہ رہنے کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے کہ روز مرہ کی زندگی متاثر نہ ہو۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے‘ ترقی تو اس کے بعد آتی ہے۔ احتجاج اور مطالبے کا مزاج‘ ایک منفی نفسیات کو فروغ دیتا ہے۔ اگر ہم اس سے نجات نہیں پا سکتے تو اسے آداب کے سانچے میں تو ڈھال سکتے ہیں۔