مطالبہ‘ احتجاج‘ خود احتسابی... انفرادی شخصیت اور سماج کا اساسی جوہر کیا ہے؟
میرا جواب ہے: خود احتسابی۔ قرآن مجید کی راہ نمائی یہی ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی تعلیم کا حاصل یہی ہے۔ مسلم سماج کا تعارف بھی یہی ہے۔ اس بات کو تصورِ آخرت نے آخری درجے میں واضح کر دیا ہے۔ خدا کے حضور میں سب اپنے اپنے اعمال کیلئے جواب دہ ہوں گے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں اس کا نامۂ عمل ہو گا۔ کسی دوسرے کا کارنامہ یا جرم اس میں رقم نہیں ہو گا۔ یہ تصور خود احتسابی کا کلچر پیدا کرتا ہے‘ دنیا میں بھی۔ اسلام کا معاملہ یہی ہے۔ وہ جب اہلِ اسلام کی ناکامیوں کو زیرِ بحث لاتا ہے تو اسکی تمام تر توجہ ان خامیوں کی نشا ندہی پر ہوتی ہے جوشکست کا سبب بنتی ہیں۔
غزوہ اُحد‘ عہدِ رسالت کا بڑا واقعہ ہے۔ نبیﷺ نے جو جنگیں لڑیں وہ حکمِ خداوندی کے تحت لڑیں اور ان کا تعلق اللہ کے قانونِ اتمامِ حجت سے تھا۔ اس لیے بدر ہو یا اُحد‘ آسمان سے فرشتے اُترے اور ان معرکوں میں شریک ہوئے۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کا نفاذ‘ اصلاً صحابہ کے ہاتھوں سے کیا۔ میدانِ اُحد کو اسلامی جماعت کی تربیت گاہ بنا دیا گیا۔ اس جنگ کا پلڑا مخالفین کے حق میں پلٹ گیا۔ یہ کیوں ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے اس پر تبصرہ کیا ہے۔ یہ سورہ آلِ عمران میں بیان ہوا ہے۔ یہ ''خود احتسابی‘‘ کی دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کیا اور ان سے یہ کہا گیا کہ ان کے ازالے کی صورت اصل کی طرف رجوع ہے۔ یہ اصل صبر اور تقویٰ ہیں۔
مکہ میں مسلمان مذہبی جبر کا شکار تھے۔ یہ صورتحال مسلمانوں کو مضطرب رکھتی تھی۔ جب ان کی طرف سے یہ حرفِ شکایت زبان پر آیا کہ 'اللہ کی نصرت کب آئے گی‘ تو جواباً انہیں صبر کی تلقین کی گئی۔ نبیﷺ نے ساری توجہ اس پر دی کہ صحابہ کی جماعت میں اعلیٰ انسانی اوصاف کا ظہور ہو اور ان کی شخصیات اخلاقی طور پر اتنی توانا ہو جائیں کہ ہر مشکل صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ صحابہ نے نبیﷺ کی تربیت سے فیض اٹھایا اور خود کو اللہ اور رسول کے حسبِ خواہش ڈھال لیا۔ ان تیرہ برسوں میں نہ کوئی مطالبہ کیا گیا اور نہ کوئی احتجاج۔ مسلمانوں کی حکمتِ عملی کو اگر کسی جامع اصطلاح میں بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ صبر ہے۔ شخصیت سازی اور خود احتسابی اسی کا بیان ہے۔
مذہبی پیراڈائم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ اگر سماجی بیداری اور تشکیلِ نو کے دیگر مظاہر پر غور کیجیے تو اس میں اساسی جوہر یہی دکھائی دیتا ہے: خود احتسابی اور شخصی تعمیر۔ مذہب کا مقدمہ اس لیے طاقتور ہے کہ وہ اسے محض دنیاوی سود و زیاں سے نہیں‘ آخرت سے متعلق کر دیتا ہے‘ جس سے اس کا تناظر وسیع تر ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر اس بحث کو دنیا کی زندگی تک محدود کر دیا جائے تو بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جنہوں نے خود احتسابی کی اور اپنی تعمیر پر توجہ مرتکز رکھی۔ معاصر دنیا میں چین اس کی ایک مثال ہے۔ امریکہ سمیت کئی عالمی قوتیں اس کی ترقی کے راستے میں مزاحم ہیں لیکن وہ اس سے بے نیاز صرف اپنی تعمیر پر اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔مسلم مفکرین نے بھی اس بات کی اہمیت کو بیان کیاہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر کسے یاد نہیں:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
سر سیّد احمد خاں کی تو ساری تگ و دو شخصی تعمیر اور خود احتسابی کے لیے تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کو احتجاج اور تصادم کی نفسیات سے نکالنے کے لیے آواز اٹھائی۔ عمر بھر گالیاں کھائیں۔ یہ سلسلہ پسِ مرگ بھی جاری ہے۔ ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو انہیں انگریزوں کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ تاریخ مگر ان کے حق میں گواہی دے رہی ہے کہ ان کا بتایا راستہ ہی درست تھا۔ وہ اگر مسلمانوں کو احتجاج کی نفسیات سے نہ نکالتے اور انہیں خود احتسابی کی راہ پر نہ ڈالتے تو بطور قوم شاید ہم قصۂ پارینہ بن چکے ہوتے۔ جن کو اس بارے میں شک ہے وہ تحریکِ ہجرت پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس کا خمیر احتجا ج اور تصادم سے اٹھا تھا۔
احتجاج کا راستہ انقلابی تحریکوں نے متعارف کرایا جو اپنی اصل میں سیاسی ہوتی ہیں۔ یہ تحریکیں اس تصور پر کھڑی ہوتی ہیں کہ کمزور اقوام اور گروہوں کے مسائل کی وجہ خارج میں ہے۔ نوآبادیاتی پس منظر میں یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم ان کی غلامی سے نجات کاطریقہ یہ نہیں تھا کہ قابض قوتوں کے ساتھ تصادم یا احتجاج کا راستہ اپنایا جاتا۔ برصغیر کے مسلمان بھی غلام بنا دیے گئے تھے۔ اس کے خلاف ایک طرف احتجاجی تحریکیں اُٹھیں اور دوسری طرف خود احتسابی اور تعمیر کی۔ پہلے کی قیادت مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی راہنما کر رہے تھے اور دوسرے کی سر سید احمد خاں۔ انقلابیوں میں مذہبی اور اشتراکی‘ دونوں شامل تھے۔ اگر ہم ان تحریکوں کا مطالعہ کریں اور انہیں نتائج کے اعتبار سے پرکھیں تو یہ جان سکتے ہیں کہ کون درست کہہ رہا تھا۔
انقلاب اور احتجاجی طرز کے نعرے مقبول بناتے ہیں۔ ان سے اہلِ سیاست کو فائدہ پہنچتا ہے۔ انقلابی مخلص بھی ہوتے ہیں جو سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ میں احتجاج کی مطلق نفی نہیں کر رہا۔ میں احتجاج کے معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتا ہوں۔ جمہوری عہد نے احتجاج کو نظام میں ایک جگہ دی ہے۔ میں یہاں صرف اساسی جوہر کی بات کر رہا ہوں۔ احتجاج سیاسی و سماجی عمل کا حصہ ہے اور اسے روا رکھا جا سکتا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ یہ جزو ہے یا کُل؟ یہ اساسی معاملہ ہے یا اطلاقی و فروعی؟ میں اسے دوسرے درجے میں رکھ رہا ہوں۔ قوموں کی تعمیر خود احتسابی سے ہوتی ہے۔ تاہم جدوجہد میں احتجاج کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے‘ اگر یہ ایک دائرے تک محدود رہے۔ اسے مسائل کا حتمی حل نہ سمجھا جائے۔ اصل مسئلہ مطالبے کی نفسیات ہے۔
یہ پہلو بھی واضح رہے کہ میں ہمہ گیر تبدیلی کی بات کر رہا ہوں جس کا تعلق سماج سے ہے۔ سیاست اس کا ایک جزو ہے۔ سماجی تبدیلی کیلئے احتجاج کوئی موزوں حکمتِ عملی نہیں ہے۔ مصلحین کے لغت میں احتجاج کا لفظ‘ سیاسی مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا۔ یہ رائج الوقت تصورات کے خلاف علم اور فکر کی سطح پر ہونے والی تنقید کے لیے مستعمل ہے۔ جیسے مسیحیت میں یہ تحریکِ اصلاحِ مذہب ہے جسے 'پروٹسٹنٹ ازم‘ (Protestantism) کہا جاتا ہے۔ یہ مروجہ مسیحی تصورات اور اہلِ کلیسا کے خلاف فکری احتجاج تھا۔اِس وقت ہمیں جس صورتِ حال کا سامنا ہے‘ اس کا علاج احتجاج نہیں۔ ریاست معاشی و سیاسی طور پر ایک ایسی جگہ کھڑی ہے کہ اس میں کسی مطالبے کو ماننے کی سکت نہیں ہے۔ احتجاج طاقت کے مراکز میں بیٹھے لوگوں کو اقتدار میں رہنے کا جواز فراہم کرے گا۔ ہمیں صبر اور خود احتسابی کے احساس کے ساتھ اپنے سماجی اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اس میں ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہے۔ نوجوان اپنے علم میں اضافہ کریں۔ اپنی اخلاقی قوت کو بڑھائیں۔ کچھ عرصے کیلئے احتجاج کی نفسیات سے نکلیں۔ مطالبے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دیں۔ احتجاج صرف کتھارسس ہے‘ مسائل کا حل نہیں۔