میں بتکرار یہ لکھ رہا ہوں کہ اقتدار کی سیاست کو اہلِ دانش کے مشوروں سے کچھ دلچسپی نہیں۔ وہ اہلِ صحافت اب اس کی تصدیق کر رہے ہیں جن کی رسائی مراکزِ اقتدار تک ہے۔ مجھ جیسوں کے تجزیے کی بنیاد تاریخ ہوتی ہے۔ صحافی اپنی رائے کی اساس حالاتِ حاضرہ سے کشید کردہ معلومات پر رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ بھی کبھی 'حالاتِ حاضرہ‘ ہی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا ہے 'حالاتِ حاضرہ‘ تاریخ بنتے چلے جاتے ہیں۔
اہلِ اقتدار کی نفسیات کو کیا تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ رائے ساز جب اعترافِ عجز کرنے لگیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی کوئی شنوائی نہیں تو یہ دراصل اسی تاریخی حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہمارے ہاں اس طبقے کا نفسیاتی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا۔ تاہم‘ ہمارے مشاہدے میں ایسے معاشرے بھی ہیں جن میں اہلِ اقتدار کا طرزِ عمل اس نفسیات کا پابند دکھائی نہیں دیتا۔ ان معاشروں میں لوگ اقتدار کے بجائے اقدار کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اس سے کیا اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ اقتدار کی سیاست کرنے والوں کی نفسیات تبدیل نہیں ہو سکتی۔
یورپ کبھی اہلِ کلیسا اور بادشاہ کی گرفت میں تھا۔ دونوں عوام کے سامنے جواب دہ نہیں تھے۔ آج ایسا نہیں ہے۔ وہاں احتساب کا ایک مؤثر نظام وجود میں آ چکا۔ حکومت میں بیٹھے خود کو عوامی عدالت میں مسئول سمجھتے ہیں۔ نظام پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ عدالتی فیصلے تسلیم کیے جاتے ہیں اور انتخابی عمل کی شفافیت پر سب کو بھروسا ہے۔ یورپ میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟
اہلِ اقتدار کی نفسیات وہاں بھی وہی ہے جو یہاں ہے۔ وہاں البتہ سماج کی شعوری سطح بلند ہوئی ہے اور عوام کی اخلاقی و فکری استعداد (Potential) میں اضافہ ہوا ہے۔ اب جیسے ہی کوئی سیاستدان اخلاق کے سماجی معیارات سے انحراف کرتا ہے‘ عوام کی نظر سے گر جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ اقتدار سے محرومی ہے۔ کوئی سیاستدان یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہاں اقتدار کی نفسیات کا یہ تقاضا ہے کہ اُن خطرات سے دور رہا جائے جو اقتدار سے دوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان خطرات کا تعلق رائے عامہ سے ہے۔
یہ نفسیات ہمارے ہاں کیسے ظہور کرتی ہے؟ ہمارے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اخلاقی و فکری شعور سے تہی دامن ہیں‘ اس لیے اقتدار تک رسائی کا عمل عوامی شعور سے غیر متعلق ہے۔ یہاں اقتدار کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے۔ اگر وہاں ان کے بارے میں اچھی رائے پائی جاتی ہے تو ان پر اقتدار کے راستے کھل سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی سعی و جہد کا مرکز‘ ان مراکزِ اقتدار میں بیٹھے فیصلہ سازوں کی نظر میں قابلِ قبول بننا ہے جن کی فیض رسانی سے اقتدار کے بند دروازے کھل سکتے ہیں۔ گویا اہلِ سیاست کی نفسیات ہر جگہ ایک ہے۔ فرق طرزِ عمل میں ہے اور اس کا تعین سماجی حالات کر رہے ہیں۔
ہمارے سماجی حالات کیا ہیں؟ دنیا جانتی ہے کہ عمران خان صاحب کا سامنا کس قوت سے ہے‘ کیا خان صاحب نہیں جانتے؟ وہ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ نام لے لے کر ان کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں۔ اس کے باوصف وہ اہلِ سیاست سے تو بات کرنے کو تیار نہیں مگر 'ان‘ سے مذاکرات کی درخواست کر رہے ہیں۔ 'ان‘ سے عرض گزار ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے اپنا نمائندہ مقررکریں۔ یہ رویہ اقتدار کی سیاست کے مروجہ پیمانے پر پورا اترتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ 'ان‘ ہی کے ساتھ بات چیت کا فائدہ ہے۔ وہی جیل کے دروازے کھول سکتے اور انہیں ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھا سکتے ہیں۔دیگر سیاستدان بھی اسی پیمانے پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر اقتدار خان صاحب کا مطمح نظر نہ ہوتا تو وہ سیاستدانوں سے مذاکرات کرتے۔ انہیں آمادہ کرتے کہ وہ اداروں کوغیرسیاسی بنانے کے نکتے پر جمع ہو جائیں۔ اس سے سیاسی قوتوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا۔ یہ اس ملک کو لاحق اصل مرض کا علاج تھا۔ آج وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں شہباز شریف صاحب کا مقام دیا جائے۔ وہ یہ مطالبہ عوام سے نہیں کسی اور سے کر رہے ہیں۔ یہ اقتدار کی سیاست کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ کہنا یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی نفسیات ہر جگہ ایک ہے۔ اگر فرق ہے تو اس میں ہے کہ کون اقتدار تک پہنچا سکتا ہے؟ جہاں یہ حق عوام کے پاس ہے وہاں لوگ عوام سے رجوع کرتے ہیں۔ جہاں یہ کہیں اور ہے وہاں اہلِ سیاست 'کہیں اور‘ دیکھتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سماج کو درپیش اصل مسئلے کا علاج نہیں کر رہے۔ نظام سے بے زاری اور ہیجان کو 'سیاسی شعور‘ سمجھتے ہیں۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ جمہوری عمل کا تسلسل ہی عوامی شعور کی تربیت کرتا ہے‘ اگرچہ یہ عمل قدرے طویل ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم دونوں کی معاشی کامیابی کو رشک کی نظر سے دیکھتے اور ان کی مثال دے کر اپنے اہلِ سیاست کی مذمت کرتے آئے ہیں۔ بھارت میں جمہوری عمل نے مودی جیسے انتہا پسند کو منصبِ اقتدار تک پہنچا دیا۔ آٹھ برس ضائع کرنے کے بعد اب عوام میں یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ پاپولسٹ اور انتہا پسندانہ سیاست متنوع شناختیں رکھنے والے ملک کے لیے کتنی نقصان دہ ہوتی ہے۔ اگر جمہوری عمل کا تسلسل نہ ہوتا تو شاید بھارت کے عوام اس کا ادراک نہ کر پاتے۔
بنگلہ دیش میں بھی پاپولزم نے حسبِ توقع فاشسٹ حکومت کو جنم دیا۔ جمہوری عمل کے تسلسل نے اب عوام کو اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ معاشی ترقی اگر سماجی ترقی کے ساتھ نہ ہو تو بدترین ظلم وجود میں آتا ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگوں کے عدالتی قتل نے سماج کو ہلا دیا۔ فاشسٹ مزاج میں مگر اصلاح کا امکان نہیں ہوتا۔ بجائے اپنی روش تبدیل کرنے کے اب جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان میں جو لوگ پاپولسٹ سیاست کا شکار ہیں انہیں بھارت اور بنگلہ دیش کے حالات کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد شاید انہیں اندازہ ہو کہ ایسی قیادتیں ملک کو کہاں لے جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ جمہوری عمل کو روک کر مقبول لیڈروں کے راستے کو غیر جمہوری طریقے پر بند کرنے والوں کو بھی اس پر ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سے سماج کا شعوری ارتقا رُک جاتاہے۔ مودی اور حسینہ واجد کو صرف عوام ہی کمزور کر سکتے تھے۔
پاکستان کا مسئلہ سیاسی نہیں‘ سماجی بھی ہے۔اس کی کوکھ سے سیاسی مسئلے نے جنم لیا ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر ابھی اس بات کا ادراک نہیں ہے۔ اس لیے ہم ابھی مزید غلطیاں کریں گے۔ جب تک اقتدار تک رسائی کے راستے ازسرِ نو متعین نہیں ہوتے‘ اربابِ اقتدار کے طرزِ عمل میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ جب مقبول سیاستدان بھی اپنے غیرسیاسی حریف سے مذاکرات کی درخواست کرے اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت سے گریزاں ہو جن کے ساتھ ملنے سے ایک جمہوری کلچر کی طرف پیش قدمی کا زیادہ امکان ہے‘ وہاں اصلاح کا کوئی امکان نہیں۔
میں یہ بات تاریخ کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ اہلِ صحافت حالاتِ حاضرہ اور اپنی معلومات کی روشنی میں یہی لکھ رہے ہیں۔ گویا تاریخ اور حالاتِ حاضرہ ایک بات پر متفق ہیں۔ یہ صورتحال اسی وقت بدل سکتی ہے جب سیاسی حرکیات بدل جائیں۔ سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ وہ نسل جس کا سِن آج نو دس برس ہے‘ جب سماج اور ریاست کی زمامِ کار اس کے ہاتھ میں ہو گی تب تبدیلی آسکے گی۔ اس کے لیے مگر شرط یہ ہے کہ اس کی شعوری تربیت کا سامان آج ہی سے کیا جائے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟ کاش اس کا جواب اثبات میں ہوتا۔