سچ کہا گیا! پنجاب میں بسنے والے بلاشبہ عجیب لوگ ہیں۔ ان کی زمین ہو یا دل‘ ان کا دامن سب کے لیے کھلا ہے۔ کسی علاقائی تعصب کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ اس کے باوجود‘ یہ لوگ سب کے دشنام کا ہدف بنتے ہیں۔ اور تو اور‘ اب ان کے اپنے سپوت بھی دشنام طرازی میں دوسروں کے ساتھ ہم آواز ہیں مگر یہ ہیں کہ ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ ہیں نا عجیب لوگ؟
پنجاب والوں کا تازہ ترین جرم یہ بتایا گیا کہ بلوچستان میں کوئی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہیں مگر یہ کیسے عجیب لوگ ہیں کہ انہیں ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ بلوچ یکجہتی کونسل بنی ہے مگر یہ عجیب لوگ ہیں کہ اس کی موجودگی سے بے نیاز‘ شادیاں کر رہے ہیں۔ کے پی میں ٹی ٹی پی متحرک ہے اور پنجاب والوں کواس کی بھی خبر نہیں۔ اس بے خبری کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ اسلام آباد‘ لاہور موٹر وے آباد ہے۔ گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں۔ شام کو لوگ کڑاہی گوشت کھا رہے ہیں۔ مہنگی دکانوں پر رش ہے۔ یہ کیسے عجیب لوگ ہیں کہ انہیں اردگرد کی کچھ خبر نہیں۔
ادب مانع ہے ورنہ عرض کرتا کہ آپ نے شاید اسلام آباد‘ پشاور موٹروے کو نہیں دیکھا۔ یہاں بھی گاڑیاں اسی طرح فراٹے بھرتی ہیں جیسے اسلام آباد‘ لاہور روٹ پر۔ پشاور بھی لاہور کی طرح آباد ہے‘ اور خدا کرے سدا آباد رہے۔ پشاور اور کراچی میں بھی اسی طرح مہنگی دکانوں پہ رش ہوتا ہے۔ رہا کڑاہی گوشت اور چپلی کباب تو لوگ پنڈی‘ اسلام آباد سے ان کھانوں کے لیے پشاور کا رُخ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ 'چرسی تکے‘ کی اشتہا بھی ان کو وہاں لے جاتی ہے۔ شادیاں پشاور اور کوئٹہ میں بھی ہو رہی ہیں۔ کراچی کا تو ذکر ہی کیا‘ یہ شہری کلچر کا منفرد نمونہ ہے جہاں زندگی رات اور دن کے فرق سے واقف نہیں۔ پشاور اور کراچی‘ پنجاب کے شہر نہیں ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ زندگی کا وہ کون سا رنگ ہے جو صرف پنجاب میں ہے‘ کہیں اور نہیں ہے۔
پنجاب غیر متعصب ہونے میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ اپنی تہذیبی شناخت اور مفادات کے بارے میں بھی بے حس ہو گیا ہے۔ ریاست کے پڑھائے 'قومی مفاد‘ کے سبق کو اس نے صحیفہ آسمانی مان کر‘ جزوِ ایمان بنا رکھا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس سبق کو صرف پنجاب نے پڑھا اور قبول کیا ہے۔ کسی دوسرے صوبے میں یہ حلق سے نیچے نہیں اترا۔ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں پہلے اسلام‘ پھر پاکستان اور پھر پنجاب کی ترتیب کو دل و جان سے قبول کیا گیا ہے۔ دوسرے صوبوں میں یہ ترتیب الٹ ہے۔ محترم المقام ولی خان نے اس کو قدرتِ کلام کے ساتھ ایک جملے میں سمو دیا تھا کہ میں پانچ ہزار سال سے پختون‘ چودہ سو سال سے مسلمان اور پچاس سال سے پاکستانی ہوں۔
پنجاب میں زمین فروخت کرتے وقت‘ ملازمت دیتے ہوئے‘ رشتہ ناتا جوڑتے ہوئے‘ کبھی پنجابی غیر پنجابی تقسیم کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اگر آج کوئی سروے ہو تو میر اندازہ ہے کہ پنجاب کے شہروں میں کم و بیش 40فیصد پختون آباد ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اگر براستہ جی ٹی روڈ‘ پشاور سے راولپنڈی میں داخل ہوں تو پہلا واسطہ پختون آبادیوں سے پڑتا ہے۔ راولپنڈی اور لاہور کے بڑے تجارتی مراکز پر پختون بھائی چھائے ہوئے ہیں۔ تاجروں کی اکثر منتخب یونینز کے عہدے دار پختون ہیں۔ پختون پنجاب سے الیکشن لڑتے ہیں اور انہیں پنجابی بھائی ووٹ دیتے ہیں۔
رہی ٹی ٹی پی تو جیسے ہی وہ متحرک ہوتی ہے‘ پنجاب کو اس کی خبر ہو جاتی ہے۔ یہ خبر ان جوانوں کی لاشیں دیتی ہیں جو پنجاب کے گاؤں گاؤں میں آتی ہیں۔ ان جوانوں کی لاشیں‘ جو پختون بھائیوں اور ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے اپنی جان نثار کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ اطلاع درست نہیں کہ پنجاب بے خبر ہے۔ دھماکے اور خودکش حملہ آور بھی یہ خبریں پنجاب تک براہِ راست پہنچا دیتے ہیں۔ پنجاب والے ڈاکٹر ماہ رنگ کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں‘ بلوچ لبریشن آرمی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے وجود کا پتا‘ پنجاب میں آنے والی مزدوروں کی لاشیں دیتی ہیں جو بلوچستان میں بے گناہ قتل کر دیے جاتے ہیں۔ ان مقتولین کے لیے بلوچستان سے کوئی تعزیتی پیغام‘ ان کے لواحقین کو کبھی نہیں ملا۔ اس سب کچھ کے باوجود‘ پنجاب میں بلوچ بھائیوں کے خلاف کوئی نفرت نہیں۔ پنجاب میں کبھی بلوچوں یا پختونوں کے خلاف کوئی جلوس نہیں نکلا۔ پنجابی کیسے عجیب لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ ہو جائے 'قومی مفاد‘ کا ایک پیالہ پیتے اور سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
اس سوچ پہ اب نظرثانی کی درخواست ہے کہ 'ریاست‘ اور 'پنجاب میں بسنے والے‘ ایک ہیں۔ لوگوں کو شکایت ریاست سے ہوتی ہے اور مطعون پنجاب ہوتا ہے۔ پنجاب والوں سے پوچھیں تو ان کو بھی ریاست سے وہی شکایتیں ہیں جو دوسروں کو ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب پنجاب بلوچستان کی تقسیم کے بجائے اس حقیقی تقسیم کی بات کرنی چاہیے جو ملک میں موجود ہے۔ یہ تقسیم مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ کے مابین ہے۔ مراعات یافتہ طبقے میں بلوچ سر دار‘ پنجاب کا جاگیردار‘ سندھ کا وڈیرہ اورکے پی کا خان شامل ہیں۔ دوسری طرف تمام صوبوں کے محروم عوام ہیں۔ بلوچ سرداروں کے عشرت کدے لاہور میں بھی ہیں اور کراچی میں بھی۔ کے پی کے خوانین اسلام آباد میں بڑی بڑی رہائش گاہوں کے مالک ہیں۔ بیورو کریسی‘ سول ہو یا ملٹری‘ ان میں سب صوبوں کے لوگ شامل ہیں اور عوام کے بارے میں ان کی سوچ ایک جیسی ہے۔ مشکل میں ہیں تو تمام صوبوں کے عوام۔
اس مراعات یافتہ طبقے کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔ کوئی ماہ رنگ بلوچ اس پر احتجاج نہیں کرتی کہ بلوچستان کے اس مراعات یافتہ طبقے نے بلوچوں کو کس طرح تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں سے محروم رکھا۔ ریاست کے خلاف تو بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں‘ ان مقامی قوتوں کے خلاف کیوں نہیں ہوتے جنہوں نے صدیوں سے بلوچ عوام کو اپنا یرغمال بنا کر رکھا ہے؟ اگر انہیں ریاست سے شکایت ہے تو انہیں یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اس کا اظہار کریں لیکن اگر یہ احتجاج صرف ریاست تک محدود رہتا ہے اور پھراس سوال کا جواب لازم ہو جاتا ہے۔
مجھے اتفاق ہے کہ پنجاب کے باسیوں کو عجیب نہیں‘ نارمل ہونا چاہیے۔ ان میں اپنے حقوق کا شعور ہونا چاہیے۔ کوئی ان پر بے بنیاد الزام دھرتا ہے تو اس کا جواب دینا بے ادبی نہیں۔ اگر پنجاب میں لاشیں آتی ہیں اور دوسرے بھائی ان کے غم میں شریک نہیں ہوتے تو انہیں دکھ پہنچنا چاہیے۔ تاہم وہ وسعتِ قلبی کی اپنی روایت نبھاتے رہیں۔ وہ سندھی‘ بلوچ‘ بلتی‘ کشمیری اور پختون بھائیوں سے محبت کرتے رہیں اور ان کے لیے اپنے دامنِ دل کو وا رکھیں۔ وہ اس سوچ پہ قائم رہیں کہ ایک اقلیتی گروہ کے جرائم کے ذمہ دار صوبے کے عوام نہیں ہوتے۔
پنجاب آج قیادت سے محروم ہے۔ یہاں جو قیادت پیدا ہوئی‘ اسے 'قومی مفاد‘ کے نشہ پر لگا دیا گیا۔ اگر دوسرے صوبوں میں حقوق کے لیے آواز اٹھانا قومی مفاد کے خلاف نہیں تو پنجاب میں کیوں ہے؟ ایک وقت تھا کہ حنیف رامے مرحوم نے پنجاب کا مقدمہ پیش کیا تھا‘ مگر ان کی قدرتِ کلام پنجابیوں کو قائل نہ کر سکی۔ میرے بھائی ڈاکٹر بابر اعوان بھی برسوں سے اس کی کسک محسوس کرتے اور پنجاب کے عام آدمی کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ ان کا معاملہ بھی مگر وہی رہا جو فیض صاحب کا تھا کہ 'دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی‘۔ دیکھئے پنجاب میں بسنے والے کب تک عجیب ہی رہتے ہیں۔