یہ اللہ کی مرضی ہرگز نہیں تھی۔
یہ اللہ کی مرضی کیسے ہو سکتی ہے کہ نشے میں دھت ایک خاتون انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح کچلتی اور روندتی پھرے اور اسے چند سکوں کے عوض چھوڑ دیا جائے۔ یہ بلاشبہ خدا کی ذات پر اتہام ہے۔ وہ ذات جس نے اپنی کتاب کو میزان بنا کر اتارا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں‘ اس کا کوئی فیصلہ عدل کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ کتاب راہنمائی کرے گی کہ اللہ کافیصلہ کیا ہے۔
اس کا فیصلہ ہے کہ ریاست پر قصاص فرض ہے۔ یہ اس لیے فرض ہے کہ اسی میں زندگی ہے۔ قصاص کیا ہے؟ جان کے بدلے جان۔ مقتول کے وارثوں کو مگر اس نے حق دیا کہ وہ چاہیں تو قاتل کو معاف کر دیں۔ یہ عدل پر مبنی اس کی حکمت تھی کہ انسانوں کے مابین دائمی دشمنی پیدا نہ ہو۔ بدلے کے جذبات کو اس نے اس طرح ٹھنڈا کر دیا کہ قاتل کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق مقتول کے وارثوں کو دے دیا۔ خدا کا یہ حکم ایک قبائلی معاشرے میں نازل ہوا جہاں انسانی جذبات کی باگ انتقام کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک قتل‘ واقعاتِ قتل کے ایک سلسلے کو جنم دیتا اور یوں نسلیں برباد ہو جاتیں۔ اللہ نے اس آگ کو اس طرح ٹھنڈا کیا کہ انتقام کے جذبات پورے ہو جائیں‘ سماج لاقانونیت سے محفوظ رہے اور ساتھ ہی قتل کا عذاب تھم جائے۔ دیت کا حکم اس لیے دیا کہ قاتل کو اپنے جرم کا احساس رہے اور وہ دوبارہ جرم کرنے سے پہلے کئی بار سوچے۔
قتل کے جرم میں مگر دو نہیں‘ تین فریق ہوتے ہیں۔ ایک فریق ریاست بھی ہے۔ وہ اس لیے قائم ہوتی ہے کہ عوام کے جان ومال کا تحفظ کرے۔ خدا کا قانون اور انسانی قانون‘ دونوں متفق ہیں کہ جزا وسزا کا معاملہ نظمِ اجتماعی یعنی ریاست طے کرے گی۔ قصاص کا حکم نظمِ اجتماعی کو دیا گیا ہے۔ دیت کے معاملات بھی وہی نمٹائے گی۔ جب ریاست عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتی ہے تو جو کوئی اس کے اس حق کو چیلنج کرتا ہے‘ وہ ریاست کے خلاف جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ جرم ایک طرف فرد کے خلاف ہوتا ہے جس کی جان ومال پر تاخت کی جاتی ہے اور دوسری طرف ریاست کے خلاف بھی‘ جس کے حق کو پامال کیا جاتا ہے۔ قتل جیسا جرم بھی دونوں کے خلاف ہے۔ اگر مقتول کے وارثوں نے معاف کر دیا تو اس سے قصاص کی فرضیت باقی نہیں رہتی لیکن یہ لازم نہیں آتا کہ ریاست بھی لازماً معاف کرے۔
ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی ہو یا دہشت گردی‘ یہ وہ جرائم ہیں جو فرد سے زیادہ ریاست کے خلاف ہیں۔ ان جرائم میں اصلاً ریاست کا حق ہے جو پامال کیا جاتا ہے۔ فرد کا نقصان اس کا ایک نتیجہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب دہشت گردی کے ایک واقعے میں دس افراد مار دیے جاتے ہیں تو مقتولین کے ورثا الگ الگ قتل کا مقدمہ نہیں قائم کرتے۔ ان مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی اصلاً ریاست کے خلاف جرم ہے۔ اس میں متاثرہ فرد نہ بھی چاہے تو ریاست کے لیے اقدام لازم ہوتا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ کارساز کے حادثے میں دو انسانی جانیں چلی گئیں اور ریاست اس میں فریق ہی نہیں بنی۔ اور اگر شریک ہوئی بھی تو قاتل کے سہولت کار کے طور پر۔ جس نے دو افراد کو قتل کیا‘ وہ مقتولین کو جانتی تک نہ تھی۔ مقتول بھی اس کے وجود سے بے خبر تھے۔ ان کی باہم دشمنی نہ تھی۔ مجرمہ مگر ریاست کو جانتی تھی۔ ٹریفک کے قوانین سے تو باخبر تھی۔ اس کے خلاف تو ریاست کو کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ افسوس کہ اس بار بھی یہ توقع پوری نہیں ہو سکی۔
ہم جب ایک ملک کے شہری بنتے ہیں تو خدا کے بعد اس کے بھروسے پر گھروں سے نکلتے اور گھروں میں رہتے ہیں۔ ہمارے اندر یہ احساس موجود ہوتا ہے کہ ریاست ہماری جان اورمال کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ ہم اپنے ساتھ کوئی محافظ نہیں رکھتے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست نے ہماری جان کی حفاظت کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ہم اپنی جیب میں رقم بھی رکھتے ہیں اور ہمیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی اس کو نہیں چرائے گا۔ اسی طرح ہم بے فکری سے گاڑی چلاتے ہیں کہ یہاں ریاست موجود ہے جو اسے کنٹرول کر رہی ہے۔ قبائلی معاشرت میں جب ریاست نہیں تھی تولوگ اپنے دفاع کا اہتمام کر کے گھر سے نکلتے تھے۔
آج جب کوئی دہشت گرد دوسرے کے جان ومال کے لیے خطرہ بنتا ہے تو ریاست اس کے خلاف حرکت میں آتی ہے۔ جب دہشت گردی کرنے والے کا یہ حق قابلِ قبول نہیں کہ دیت دے کرچھوڑ دیا جائے تو ٹریفک حادثات میں قتل کرنے والے کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اگر دہشت گردی کے خلاف اقدام کی وجہ انسانی جان کی حرمت اور فساد ہے تو اس کا اطلاق ٹریفک حادثات پر بھی ہونا چاہیے۔ اعداد وشمار کی گواہی یہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد‘ دہشت گردی کے واقعات کی نذر ہو جانے والوں سے زیادہ ہے۔
عام آدمی کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر اسے اللہ کی رِضا قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک جرم اللہ کی رضا نہیں ہو سکتا۔ اس کی رضا یہ ہے کہ جو انسانی جان و مال کی بے حرمتی کا مرتکب ہو‘ اسے سزا ملے۔ ایک مسلمان کی جان کی حرمت کو اللہ کے رسولﷺ نے بیت اللہ کی حرمت کے برابر قرار دیا ہے۔ اس کو پامال کرنے والا اللہ کی رضا کے خلاف اقدام کرتا ہے۔ اللہ کی رضا قصاص میں ہے۔ بلاشبہ اس نے دیت کا متبادل بھی دے دیا ہے لیکن یہ حق مقتول کے ورثا کے لیے ہے۔ ریاست کی اپنی ذمہ داری ہے اور وہ اسی پہلو سے فیصلہ کرے گی۔ اس نے جرم کو اجتماعی اثرات کے تناظر میں دیکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی اجازت دو مختلف امور ہیں۔ انسان کو ایک قانونِ آزمائش کے تحت اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اس دنیا میں اس کے افعال کے بدلے میں اسے ایک دائمی زندگی ملنی ہے جو جنت ہو سکتی ہے اور دوزخ بھی۔ اس قانونِ آزمائش کے تحت اسے اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو خدا کی رضا کے مطابق استعمال کرتا ہے یا اس کے خلاف۔ اگرانسان اس کی رضاکو نظر انداز کرتا ہے تو وہ اس کی سزابھی بھگتے گا۔ اگر کوئی نشے میں کسی پر گاڑی چڑھا دیتا ہے تو یہ اس کی رضا کے خلاف ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مذہب کا سوئے استعمال بڑھ رہا ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے تو مذہب کے استحصال کی کہانی اب پرانی ہو گئی۔ قدیم بادشاہوں سے لے کر دورِ حاضر کے آمروں تک‘ سب نے مذہب میں پناہ تلاش کی۔ جاگیرداری کے لیے بھی اس سے جواز ڈھونڈا گیا۔ اب تقدیر کو خاص معنی پہنا کر مجرموں کو بچایا جا رہا ہے۔ اسی طرح دیت کا قانون بھی اس سوئے استعمال کی زد میں ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہو یا سانحہ کارساز‘ لوگ دیت کے قانون کی اس تفہیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس ملک میں رائج ہے۔ اہلِ علم کو اس بارے میں توجہ دینا چاہیے کہ کہیں یہ فہم تو نظرثانی کا محتاج نہیں‘ جس سے مجرم فائدہ اٹھا رہے ہیں؟
مذہب خیر کی ایک قوت ہے اور اس میں انسانوں کے لیے صرف بھلائی ہے۔ اگر کہیں ایسا نہیں ہے تو یہ ہمارے فہم کا نقص ہے یا مذہب کا دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال۔