محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان تشریف آوری پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ آپ کو حکومتِ پاکستان نے مدعو کیا۔ اس دعوت کے محرکات کیا تھے؟ ان کا یہ دورہ پاکستان اور اسلام کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہوا؟
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ غالب پہلو یہ ہے کہ وہ ایک مناظر ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی شہرت دین کے ایک عالم کی ہے۔ تیسرا پہلو‘ جس کا وہ خود دعویٰ کرتے ہیں‘ یہ ہے کہ وہ ایک داعی ہیں۔ ان تینوں حیثیتوں کے سماجی مطالبات ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ بعض حوالوں سے متضاد ہیں۔ ان تضادات سے ایک خلطِ مبحث پیدا ہوتا ہے جو سماج کو الجھا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کا یہ دورہ بھی ان الجھنوں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
مناظرے کی نفسیات یہ ہے کہ آپ کو اپنا مقدمہ درست اور دوسرے کے مقدمے کو غلط ثابت کرنا ہے۔ یہ عمل فتح وشکست کی فضا میں آگے بڑھتا ہے۔ اس میں ایک طرف آپ کے لیے تالیاں بجتی ہیں اور آپ اپنے حلقے میں مقبول ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مگر آپ کے لیے ناپسندیدگی کی لہر اٹھتی ہے۔ آپ اس حلقے میں اپنے لیے جگہ نہیں پیدا کر سکتے۔ اس کی مثال مسلکی ذاکرین اور خطبا ہیں۔ یہ سب اپنے ہم مسلکوں میں پسندیدہ اور دوسروں کے لیے بسا اوقات ناقابلِ قبول ہو جاتے ہیں۔
دعوت دل سوزی اور محبت کا دوسرا نام ہے۔ اس میں دوسرے کو کم تر نہیں سمجھا جاتا۔ داعی کو دوسرے مذاہب اور مسالک کے وابستگان کی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے نہ کہ انہیں نیچا دکھانا۔ اگر ان کے کسی تصور پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا مقصد بھی اصلاح ہوتا ہے۔ داعی اور مدعو کے درمیان عداوت کا نہیں‘ بقائے باہمی اور احترام کا رشتہ استوار رہتا ہے۔ اس کی مثال تبلیغی جماعت ہے۔ اس کی جماعتیں ساری دنیا میں جاتی ہیں۔ سب حکومتوں کو معلوم ہے کہ یہ اسلام کی دعوت دینے کے لیے آتے ہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت کی تعبیرِ دین نہیں‘ حکمتِ عملی زیرِ بحث ہے۔ وہ اپنی دعوت مثبت طور پر سب کے سامنے رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وہ اگر قتل کیے گئے ہیں تو یہ کارِخیر مسلمان بھائیوں ہی نے سرانجام دیا ہے۔ ان بھائیوں نے‘ جو خود کو زمین پر خدا کا نمائندہ سمجھتے اور حیات وموت کے باب میں خدائی اختیارات استعمال کرتے ہیں۔
دعوت کا ایک دوسرا پہلو ہے جو دورِ حاضر میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ یہ ایک کثیر المذاہب سماج میں اپنا دینی تشخص قائم رکھنا اور خود کو معاشرے کے ایک مفید عنصر کے طور پر پیش کرنا ہے۔ یہ اس صلاحیت کا عملی اظہار ہے کہ آپ کیسے اپنے اخلاقی وجود کو دعوت کا ایک عملی مظہر بناتے ہیں۔ اگر کسی نے اس کی کوئی علمی اور عملی تصویر پیش کی ہے تووہ مولانا وحید الدین خاں ہیں۔ انہوں نے اسلام کی حقانیت کا مقدمہ پیش کیا اورخود کو دوسرے مذاہب کے لیے بھی خیر کی علامت بنا دیا۔
دعوت کا سب سے اہم جزو صبر ہے۔ قرآن مجید نے اسے پیغمبرانہ اسلوبِ دعوت کا جوہر بتایا ہے۔ جس میں صبر نہیں‘ جو شدید سے شدید تنقید کو سن نہیں سکتا‘ اسے چاہیے کہ وہ کبھی دعوت کا رخ نہ کرے۔ وہ اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے بڑھ کر دعوت کو۔ کوئی اس دعوتی مزاج کو سمجھنا چاہے تو اسے سرسید احمد خاں اور مولانا محمد الیاس کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہماری تاریخ کے یہی دو آدمی ہیں جن کی دعوت کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔
عالم کا منصب ان دونوں سے مختلف ہے۔ عالم کا حقیقی معاملہ خواص کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ علمی سوالات کو موضو ع اور اپنے عہد کے ذہن کو مخاطب بناتا ہے۔ یوں وہ اپنے دین کو اپنے دور کی سب سے بڑی علمی حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اگر عوام سے متعلق ہوتا ہے تو ان کی ذہنی عقدہ کشائی کے لیے۔ وہ مجمع عام میں جہاں خاص وعام جمع ہوں‘ ان مباحث کو نہیں چھیڑتا‘ جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا اسلوب ہمیشہ علمی ہوتا ہے۔ یہ مناظرے سے مختلف مگر دعوت سے قریب تر ہے‘ اگرچہ جوہری اعتبار پر اس سے بھی الگ ہے۔
اس بحث کی تفہیم کے لیے‘ ایک اور زاویہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ایک گروہ جب زندگی کے سفر میں دوسروں سے بچھڑ جاتا ہے اور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں؛ ایک یہ کہ وہ خود احتسابی سے گزرے‘ اپنے بچھڑ جانے کے عوامل کو تلاش کرے اور پھر ان کا مداوا کرے۔ دوسرا یہ کہ اپنے گرد ایک حصار بنائے اور خود کو اس زعم میں مبتلا رکھے کہ لوگ اس کے وجود کے درپے ہیں کیونکہ وہ اس کی قوت سے خائف ہیں۔ اس نفسیات کو ایسے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو یہ بتاتے رہیں کہ وہ برتر قوم کا نمائندہ ہے‘ کیا ہوا اگر کوئی وقتی زوال آ گیا۔ مناظر اور گروہی خطیب و ذاکر اس مرحلے پر کام آتے ہیں۔
تجدید صرف علم کی ضرورت نہیں‘ یہ حکمتِ عملی کی بھی ضرورت ہے۔ علم کی نشر واشاعت‘ مثال کے طور پر ایک حکمتِ عملی کی متقاضی ہے‘ لازم ہے کہ اسے دورِ حاضر کے ابلاغی مطالبات سے ہم آہنگ بنایا جائے۔ قدیم دور میں جو دینی لٹریچر شائع ہوتا تھا‘ اگر آج کے دور میں بھی اسی طرح چھاپا جائے تو وہ کسی قاری کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔ یہ کارِ تجدید موضوعات کے انتخاب سے لے کر اسے پیش کرنے کے اسالیب تک‘ سب کو محیط ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے جب ان تینوں باتوں کو جمع کرنا چاہا تو اس سے تینوں کے متضاد مطالبات سامنے آ کھڑے ہوئے۔ یوں ان کا دورہ ایک ایسی بحث کا موضوع بن گیا جس نے یہ بنیادی سوال اٹھا دیا کہ ان کی اس تشریف آوری کا پاکستان یا اسلام کو کیا فائدہ ہوا؟ میرا احساس ہے کہ ان کی آمد سے معاشرے میں موجود مذہبی پراگندگی میں کوئی کمی نہیں آ سکی۔ مسلکی عناصر کے ساتھ لبرل نقطہ نظر کے لوگوں کو بھی موقع ملا کہ وہ مذہب کی سماجی افادیت پر سوالات اٹھا دیں۔ ایک طالبہ کے سوال پر ڈاکٹر صاحب کا جواب‘ ایک داعی کا نہیں‘ مناظر کا ردِعمل تھا۔ دعوت کے پہلو سے سوال یہ ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب سائلہ کو اسلام کے قریب لانے کا باعث بنا ہے یا دور کرنے کا؟
یتیم بچیوں کے معاملے میں بھی ڈاکٹر صاحب کا رویہ اور دینی استدلال دونوں محلِ نظر ہیں۔ مجھے اس اندازِ نظر پر حیرت ہے کہ دین میں کسی مرد کا جنسِ مخالف کو دیکھنے کا صرف ایک زاویہ ہے‘ قطع نظر کہ اس کی عمر کیا ہے۔ یہ سوچ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایک معصوم بچی کو باپ کے علاوہ بھی کسی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے اور وہ بھی یتیم بچی کو؟ ڈاکٹر صاحب کی احتیاط اپنی جگہ مگر سوال پھر وہی ہے کہ ایک داعی سماج کو اپنے طرزِ عمل سے کیا پیغام دے رہا ہے؟
یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی تشریف آوری کا ایک سماجی مطالعہ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہوں یا کوئی دوسری دینی شخصیت‘ ان کے طرزِ عمل کو دعوت‘ مناظرہ اور تحقیق کے مطالبات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے دورے پر کوئی تنقیدی بات نہ کی جائے۔ مجھے جب یہ احساس ہوا کہ میڈیا میں یہ بحث افراط وتفریط کی نذر ہو رہی ہے تو میں نے اس پر قلم اٹھایا۔ رہا یہ سوال کہ ریاست کو اس دورے سے کیا ملا‘ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔