ایک افسانہ تراشنا اور پھر اسے واقعہ بنا کر پیش کرنا۔ اسی کو 'پوسٹ ٹروتھ‘ کہتے ہیں۔ اگر اسے سوشل میڈیا کے پاوں لگ جائیں تو اسے جنگل کی آگ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ میڈیا کی تخلیق کردہ 'تصوراتی حقیقت‘ کو 'ہائپر رئیلیٹی‘ کہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ کم و بیش ایک عشرے سے اس کی زد میں ہے۔ لاہور کے ایک کالج سے منسوب افسانہ اس کی تازہ ترین شہادت ہے۔
پاکستان کے قابلِ بھروسا اہلِ صحافت متفق ہیں کہ لاہور کے کسی کالج میں اس طرح کا کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دوطالب علموں سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا: 'ہمیں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا‘۔ میں جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں‘ اس افسانے کو پھیلے تین دن ہو چکے ہیں۔ ایک گھائل بچی کی زندگی کو داو پر لگا دیاگیا اور اس کے والدین کوبے رحم سوشل میڈیا نے رسوائی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ ابھی تک اس افسانے کے مرکزی کردار کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ کون ہے‘ کہاں ہے‘ کسی کو نہیں معلوم۔
اس کے باوصف ایک ہنگامہ برپا ہے۔ نوجوان سڑکوں پر ہیں۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ انہیں کون لایا ہے؟ لانے والا کیا چاہتا ہے؟ کوئی خاص ہدف؟ کاروباری رقابت؟ ملک میں انتشار؟ پاکستان کو بنگلہ دیش بنانا؟ ابھی صرف قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں۔ حکومتی اداروں پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ کھوج لگائیں۔ سائبر کرائم کے لیے ادارے قائم ہیں۔ یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ اس افسانہ سازی کی فیکٹری تک پہنچیں۔ کیا معلوم اس ٹکسال میں افواہوں کے مزید کون کون سے سکے ڈھل رہے ہیں جو کل بازار میں پھینکے جانے ہیں؟
سوشل میڈیا کے ہاتھوں دنیا بھر کو سماجی اضطراب کا ایک چیلنج درپیش ہے۔ 'پوسٹ ٹروتھ‘ کو ٹروتھ بناکر پیش کیا جاتا ہے اور پھر ایک مہم کے تحت نوجوانوں میں ہیجان برپا کیا جاتا ہے۔ امریکہ جیسے معاشرے میں یہ کام ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کیا اور وہ ابھی تک اس کو کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ ایک عرصے سے مستحکم معاشرہ سمجھا جاتا تھا۔ ابراہم لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے راہنماوں نے اس کے داخلی تضادات کو حکمت کے ساتھ مخاطب بنایا اور امریکہ کو بڑی حد تک ان سے نجات دلائی۔ اس کا نتیجہ ایک مستحکم معاشرے کا قیام تھا۔ یہ استحکام امریکی ریاست کی بعض غیردانش مندانہ پالیسیوں کے باوجود باقی رہا۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکی سماج کو پراگندہ کر دیا۔ اس کے لیے اسی پوسٹ ٹروتھ اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا۔
پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ یہاں کے حالات تو اس طرح کی مہم کے لیے امریکہ سے کہیں زیادہ سازگار رہے ہیں۔ یہاں اضطراب موجود تھا۔ بس اسے دیا سلائی دکھانا تھی۔ یہ کام 2013-14ءمیں ایک باضابطہ مہم میں بدل دیا گیا۔ اس کا پہلا استعمال سیاست میں ہوا۔ پھر مذہب میں۔ اب معاشرہ ایک آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ سیاست اور مذہب دونوں کے نام پر پوسٹ ٹروتھ کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک افسانے کو لوگ جب چاہیں واقعہ بنا دیتے ہیں۔ ہیجان کی فضا پیدا کر کے نوجوانوں کی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دی گئی اور ان جذبات کی باگ پس پردہ کارفرما ہاتھوں میں ہے۔
حکمتِ عملی یہ ہے کہ پاکستان کو مسلسل انتشارِ فکر و عمل میں مبتلا رکھا جائے۔ کوئی اچھی خبر عوام کے کانوں میں نہ پڑے جس سے اضطراب میں کوئی کمی آ سکتی ہے۔ سوشل میڈیا اب ایک متبادل میڈیا کے طور پر خبر کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ پرنٹ میڈیا بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ریاستی پابندیوں نے اسے ناقابلِ اعتبار بنا دیا ہے۔ اب اُس سے وابستہ افراد بھی اپنے دل کی بات کہنے کےلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ وہاں بھی چونکہ مسابقت ہے‘ اس لیے یہ لوگ بھی اتنا انتظار نہیں کر سکتے جو کسی خبر کی تصدیق کےلئے لازم ہے۔ یوں غلط خبر کی تشہیر میں شاید نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ دار بن جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ ان قوتوں کو ہوتا ہے جو چاہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ مسلسل مضطرب رہے۔ یہاں کبھی چین نہ آئے۔
اس کے خلاف اب تک کی کوئی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کسی افواہ کی تشہیر کسی و قت بھی آگ لگا سکتی ہے۔ مذہب کا معاملہ سب سے نازک ہے۔ پس منظرمیں مذہب سے دنیاوی مفادات کشید کرنے کی نفسیات کارفرما ہے۔ اب سیاسی مفادات بھی اس میں شامل ہیں۔ جن لوگوں کو سیاست کے نام پر متحرک نہیں ہونے دیا جا رہا‘ ان کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہوتی کہ کسی سماجی مسئلے پر نئی نسل میں اضطراب پھیلا دیا جائے۔ یوں جو مقصد سیاست کے عنوان سے نہیں حاصل کیا جا سکتا‘ اسے غیرسیاسی عنوانات سے حاصل کر لیا جائے۔ یہ ایک تباہ کن راستہ ہے جو خود غرضانہ سیاست کا نمونہ ہے۔
ریاست اور سماج کو اب اس معاملے میں سنجید گی سے سوچنا ہو گا۔ ریاست کو تین کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی قوتوں کو فطری راستہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ غیرسیاسی موضوعات پر عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنا راستہ نہ بنائیں۔ دوسرا یہ کہ سائبر جرم کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تساہل سے گریز کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ مذہب و سیاست میں اعتدال کو فروغ دیا جائے اور ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مذہب و سیاست میں خیر خواہی اور امن کی آواز ہیں۔ ان گروہوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو انتہا پسندی کی علامت ہیں اور ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے سر پر ریاست کا ہاتھ ہے۔
میڈیا‘ سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو بھی اس بارے میں متنبہ ہونا چاہیے کہ ہم نے کیسے سماج کو جھوٹ اور افواہ سازی سے دور رکھنا ہے۔ سول سوسائٹی میں ایسے لوگ نمایاں ہو رہے ہیں جو ردِ عمل کی نفسیات رکھتے اور مذہب کے خلاف ہیں۔ ان کا سماجی کردار مذہبی انتہا پسندوں سے کم خطرناک نہیں ہے۔ سماج کو معتدل اور مستحکم بنانے کے لیے ان سب کو مل کر ایک ایسے کلچر کے لیے کام کرنا چاہیے جس میں افواہ اور پوسٹ ٹروتھ کا کم سے کم گزر ہو۔ عوام کی اس حوالے سے تربیت کی سخت ضرورت ہے کہ وہ غیر ذمہ دار اور غیر مصدقہ ذرائع ابلاغ سے خود کو دور رکھیں۔
لاہور کے ایک کالج کے بارے میں تراشا گیا یہ افسانہ بتا رہا ہے کہ کس طرح سیاسی گروہ‘ سماجی موضوعات کے راستے وہ ہیجان برپا کرنا چاہتے ہیں جو وہ سیاسی عنوان سے نہیں کر سکے۔ یہ ایک متبادل حکمتِ عملی ہے جس پر کام ہو رہا ہے۔ ایک کلٹ خطرناک ہو چکا ہے۔ اس ذہنِ رسا کو داد دینی چاہیے جوکبھی غیرمتحرک نہیں رہتا اور ہیجان کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کیا دوسری طرف بیٹھے لوگ اس صلاحیت سے محروم ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی متبادل بیانیہ‘ کوئی' پلان بی‘ نہیں ہے؟ کیا وہ اسی پامال راستے ہی پر چلتے رہیں گے جس سے ایک حکومت صرف بدنامی کما سکتی ہے؟ دفعہ144‘ گرفتاریاں‘ چھاپے۔ کیا ان کی زنبیل میں اس کے سوا کچھ نہیں؟ کیا 'پوسٹ ٹروتھ‘ کے مقابلے میں کوئی 'ٹروتھ‘ ان کے پاس نہیں؟
یہ سماجی استحکام کا سوال ہے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کی عزت کا بھی ہے جس کا کسی کو کوئی خیال نہیں۔ ہیجان کا سب سے پہلا حملہ عقل پر ہوتا ہے۔ میں برسوں سے لکھ رہا ہوں کہ یہ معاملہ سیاست کا نہیں‘ سماج کا ہے۔ ایک پوری نسل کو ہیجان میں دھکیل دیا گیا مگر اس کو اس دلد ل سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ مجھے اب بھی اس طرح کی کوئی مربوط حکمتِ عملی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ریاست اہلیت ثابت نہیں کر سکی تو پھر سماج کو بروئے کار آنا ہوگا۔ سماجی قوتیں کہاں ہیں؟ ہیں بھی یا نہیں؟