انگریزوں کے دور میں برطانیہ کی بہت سی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ ہندوستان کے سالانہ بجٹ کا ان کے کاروبار پر کیا اثر ہوگا۔ چنانچہ ان کی سہولت کے لیے ہندوستان کا وزیر خزانہ سہ پہرکو پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتا تاکہ برطانیہ میں لنچ کے وقت اس کی تقریر ریڈیو پر سنی جا سکے ۔ دن بھی ہفتہ کا رکھا جاتا تاکہ اختتام ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر سب کو فراغت ہو۔ انگریز چلا گیا، ہم آزاد ہو گئے لیکن ذہنی غلامی ویسے ہی رہی۔ کسی کو اصل وجہ یاد نہ رہی،لہٰذا بجٹ اسی دن اور اسی وقت پیش ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ انگریزوں کو تو اب کیا دلچسپی ہوگی لیکن اپنے ہاں اس روایت سے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔ (ہندوستان میں بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔ انہوں نے تومالی سال بھی انگریز دور کی طرح وہی یکم اپریل سے 31 تک مارچ تک رکھا ہوا ہے ۔) پاکستان میں اس دفعہ ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر جمعہ 14جون کو بجٹ پیش ہونے کی خبر ہے ۔ اس شام کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننا خاصا مشکل ہوگا۔ دفتروں میں چھٹی کا وقت ہوگا،لوگ راستے میں ہوں گے ۔ دکاندار وقت نہیں نکال سکیں گے کیونکہ گاہک آرہے ہوں گے ۔ بیشتر لوگ بھی گھر سے باہر کہیں نہ کہیں مصروف ہوں گے؛ چنانچہ ایک سے دو گھنٹہ کی تقریر سکون سے سننا خاصا مشکل ہوگا۔ سب سے زیادہ مشکل میڈیا کے لیے ہوتی ہے ۔ تقریر شروع ہوتے ہی اسلام آباد میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کو بجٹ دستاویزات کا پلندہ تھما دیا جاتا ہے ۔ بجٹ سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، پھر وہ مصروف بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان کے صدر دفاتر کے ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ کار کراچی اور لاہور میں ہوتے ہیں؛ چنانچہ سارا زور بجٹ تقریر کے تجزیہ پر ہوتا ہے ۔ وہ بھی سب لوگ پوری طرح اور اطمینان سے نہیں سن پاتے ۔ وزیر خزانہ کی تقریر ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ٹاک شو بھی ہوتے ہیں ۔ میزبان کے پاس تفصیلات جاننے اور ماہرین کی رائے لینے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔مہمانوں کو بھی سوچ بچار اور تیاری کے لیے کافی مہلت نہیں ملتی۔ چینل میں شام کا وقت پرائم ٹائم ہوتا ہے جس میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی والے پروگرام ہوتے ہیں اس پرمسلسل چلانے پڑتے ہیں ورنہ بیشتر ناظرین تفریحی چینلوں کا رخ کر لیتے ہیں۔اخباروں میں اتوار کے روز اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ بجٹ کی ضروری تفاصیل آسانی سے دی جا سکیں۔ بجٹ تقریر کا متن بھی بعض اوقات دینا مشکل ہو جاتا ہے ۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مرکزی وزیر خزانہ اتوار کی صبح دس بجے کے لگ بھگ بجٹ پیش کیا کریں۔ اس وقت سب لوگ گھروں میں ہوتے ہیں، اس لیے اطمینان سے ان کی تقریر سن سکتے ہیں۔ تبصرہ اور تجزیہ کرنے والوں کو، اخبار کے ہوں یا ٹیلی ویژن چینل کے ، کافی وقت مل جائے گا۔ اخبار بجٹ کو زیادہ جگہ دے سکیں گے۔ بجٹ دستاویزات میں خفیہ رکھنے والی معلومات نہیں ہوتیں۔ (خفیہ تفصیلات صرف تقریر میں ہوتی ہیں، خاص طور پر ٹیکسوں کی تفصیل) اس لیے انہیں کئی دن پہلے ہی کتابی شکل میں چھاپ لیا جاتا ہے ۔ ان کا مقصد بجٹ کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں پس منظر اور تفصیلات بتانا ہوتا ہے ۔ یہ دستاویزات دو تین دن پہلے تمام اخباروں اور چینلوں کو دی جا سکتی ہیں تاکہ وہ یکسوئی سے مطالعہ کر کے تجزیہ کر سکیں۔ ان دنوں وزارت خزانہ بجٹ دستاویزات کی کمپیوٹرڈسک بنا لیتی ہے ۔ یہ ڈسک سب کو 72 گھنٹے پہلے پہنچائی جا سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہدایت ہو کہ بجٹ تقریر سے پہلے کوئی تفصیل ظاہر نہ کی جائے ۔ چینل والوں کو بھی بے جا مسابقت کی بجائے آپس میں اشتراک کرنا چاہیے ۔ سرکاری طور پر بجٹ کی وضاحت کرنے کے اہل بہت کم افراد ہوتے ہیں۔ چنانچہ مناسب ہو گا کہ چینل ایک مشترکہ پروگرام کریں جس میں ان کے میزبان حکام سے اپنے اپنے سوالات کریں۔ اس طرح مہمانوں کو مختلف چینلوں پر اپنی باتیں دہرانی نہیں پڑیں گی۔ ناظرین کو بھی پوری تفصیل ایک ہی پروگرام سے مل جائے گی۔ وزیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ اور دوسرے اعلیٰ سرکاری اہل کار بھی اس پروگرام میں شرکت کو ترجیح دیں۔ اشتراک کرنے والے چینل ایک ایک نمائندہ بھیجیں۔ اگر چینل زیادہ ہوں تو کچھ کے نمائندے پہلے گھنٹے میں اور باقی دوسرے گھنٹے میں شریک ہوں۔ چینل پروگرام براہ راست نشر کریں۔ مقررہ وقت پر وقفوں کے دوران ہر چینل اپنے اپنے اشتہار چلائے ۔ پروگرام آٹھ بجے سے دس بجے تک نشر ہو۔ مجوزہ تبدیلیوں سے بجٹ تقریر زیادہ آسانی اور توجہ سے سنی جائے گی اور وزیر خزانہ حکومت کی ترجیحات اور منصوبوں کی تفصیل زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں گے ۔ موجودہ صورت میں پوری تفصیلات معلوم نہ ہونے کی بنا بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جن کی سرکاری ترجمان کئی دنوں تک وضاحت کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کشکول تو پتا نہیں کب توڑے گی ،کم از کم اس سال سے دور غلامی کی روایت ہی توڑ دے ۔