سینٹ‘ کیوں نہ ختم ہی کر دی جائے؟

نقل کے لیے بھی عقل چاہیے۔ دوسروں کی نقل میں سینٹ تو بنا لی گئی لیکن یہ نہ سوچا گیا کہ ایوان بالا کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں بہت سے صوبے ہوں تاکہ بڑے‘ چھوٹوں پر حاوی نہ ہو سکیں۔ ہمارے تو صوبے ہی کل چار ہیں۔ اس لیے ان میں توازن پیدا کرنے کے لیے سینٹ کی ضرورت نہیں۔ پھر اس کے اختیارات اتنے کم ہیں کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ امریکہ میں 50ریاستیں ہیں۔ ان میں سے کچھ آبادی کے لحاظ سے بہت بڑی اور کچھ بہت چھوٹی ہیں۔ قانون سازی میں سب کو یکساں اہمیت دینے کے لیے تمام ریاستوں کے دو دو نمائندے سینٹ میں رکھے گئے۔ سینٹ کے اختیارات بھی زیادہ ہیں۔ سینیٹر بھی ایوان زیریں کے ارکان کی طرح براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ رہی وزارت، تو وہ کسی منتخب نمائندے کو نہیں ملتی، چاہے ایوان بالا کا ہو یا ایوان زیریں کا۔ تمام وزیر باہر سے لیے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سینٹ حب علیؓ نہیں، بغض معاویہ کے تحت آئین میں رکھوائی۔ اگرچہ وہ پنجاب کے ووٹوں سے ہی وزیر اعظم بنے تھے لیکن وہ اس کی اہمیت کم کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں اس میں زیادہ دلچسپی نہ تھی کہ چھوٹے صوبوں کو زیادہ اہمیت ملے ۔ اگر وہ زیادہ عرصہ رہتے تو ممکن تھا کہ سینٹ کے اختیارات اتنے بڑھا دیتے کہ اسے قومی اسمبلی پر برتری ہو جاتی اور تین چھوٹے صوبے پنجاب پر ہمیشہ غالب رہتے ۔ ان کے بعد سینٹ جیسے تھی کم و بیش ویسے ہی چل رہی ہے ۔ اس وقت اس کی حیثیت ایک مباحثہ کلب سے زیادہ نہیں، جہاں تقریریں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ سینٹ کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔ اگر لیڈر امیدوار نامزد کر دے تو پارٹی کے ارکان اسے منتخب کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ جہاں امیدواروں میں مقابلہ ہو جائے وہاں ایک ایک رکن اسمبلی کا ووٹ کروڑوں روپے میں خریدا جاتا ہے۔ اگر ارکان سینٹ کے براہ راست انتخاب کی بات کی جائے تو حکمرانوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے کیونکہ اس طرح وہ چہیتوں کو رکن نہیں بنوا سکیں گے ۔ اگر ارکان کا انتخاب براہ راست ہو تو ان کے حلقے قومی اسمبلی کے حلقوں سے بھی بڑے ہوں گے ۔ پھر کون کہیں زیادہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہوگا، جب کہ سینیٹر بن کر قومی اسمبلی کے رکن کی نسبت کہیں کم فائدے ملتے ہیں؟ اب تک سینٹ کا ایک فائدہ یہ سامنے آیا ہے کہ یہ آئین میں ترمیم روک سکتی ہے ۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی پارٹی اگلے الیکشن میں ہار جاتی ہے۔ (کسی نے لگاتار دو دفعہ حکومت نہیں بنائی۔) تاہم سینٹ میں اس کی سیٹیں برقرار رہتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سینٹ کے ارکان چھ سال کے لیے ہوتے ہیں اور ہر تین سال کے بعد آدھے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے ۔ چنانچہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سینٹ میں اکثریت کے لیے اس کے اگلے الیکشن تک انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ اس وقت تک وہ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔ سوال یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے ؟ صرف ہمارے ہاں ہی ترمیم کے لیے نہ بحث کی ضرورت سمجھی جاتی ہے اور نہ میڈیا اور دانشوروں سے مشورہ کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی رائے بھی ضروری نہیں ہوتی مثلاً 18ویں ترمیم کے تحت آئین میں سو سے زیادہ تبدیلیاں کی گئیں لیکن اس قدر خفیہ طور پر کہ اسمبلی تو کجا، اس کمیٹی کے سب ارکان کو بھی خبر نہ ہوئی جنہوں نے منظوری دی! آئین میں ترامیم کے لیے سینٹ کی منظوری ضروری بھی نہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ان کی دوتہائی اکثریت منظور کر لیتی ہے تو کافی ہونی چاہیے ۔ اگر مزید نمائندگی درکار ہو تو کہیں بہتر ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی رائے لے لی جائے ۔ اگر تین صوبوں میں سے ہر ایک کی اسمبلی اپنے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت سے اتفاق کرے تو ترمیم منظور ہو جائے ۔ لیکن پھر یہ ہوگا کہ کسی صوبہ میں مخالف پارٹی برسراقتدار ہو تو رکاوٹ پڑ سکتی ہے ۔ یوں ترمیم کرنا جوئے شیر لانا ہوگا۔ یہ ایک لحاظ سے بہتر ہی ہوگا کیونکہ اب تک آسانی سے کی جانے والی ترمیموں نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ سینٹ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ الیکشن لڑ کر کامیاب نہیں ہو سکتے انہیں اندر لایا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد جسے وزیر بنانا ہو اسے کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ اس چور دروازہ کی بجائے کچھ وزیر قومی اسمبلی سے باہر سے لینے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ در اصل، وزیر ہونے ہی باہر سے چاہئیں۔ آج زمانہ تخصیص کا ہے۔ ہر شعبہ کی ضروریات سمجھنے کے لیے اس کے ماہرین درکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔ جو لڑ کر کامیاب ہوتے ہیں انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے ۔ ایک وزیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے دن انھیں فائلوں کو نپٹانے کا طریقہ بتایا گیا کہ کس طرح کسی تجویز کو منظور کرنا ہے اور کس طرح نامنظور۔ اگر کسی فیصلہ کی ضرورت نہ ہو تو صرف \"seen\" لکھ کر نیچے دستخط کر دیں۔ ایک ایسی فائل آئی تو وزیر موصوف نے اس پر حرف ’’س‘‘ لکھ کر دستخط کر دیئے ! جب ارکان اسمبلی کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں تو ان سے کسی معاملہ پر غور اور نئی سوچ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے سینٹ کو ختم کر دیا جائے ۔ رہا مسئلہ پنجاب کی اکثریت کا تو اس نے کبھی اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے قربانی دیتا رہا ہے ۔ دریائوں کے پانی میں اپنا حصہ کم کیا، مالیاتی ایوارڈ میں کمی قبول کی، یہاں تک کہ دوسرے صوبوں کے سبھی امیدوار پنجاب کے ووٹوں ہی سے وزیر اعظم بنتے رہے ۔ اس لیے پنجاب کی اکثریت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ڈر ہے تو پھر اس کے پانچ صوبے بنا دیں۔ لیکن پھر ڈر ہوگا کہ دوسرے صوبوں کی تقسیم کا بھی مطالبہ ماننا پڑے گا۔ یہاں آ کر پائوں رک جائیں گے اور آگے قدم نہیں اٹھے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں