ہندو کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں انھوں نے ریاضی میں بڑی ترقی کی۔ کی ہوگی‘ لیکن اب یہ حالت ہے کہ گنتی بھی بھول چکے ہیں۔ کروڑ تک تو گن لیتے ہیں لیکن اس کے بعد کروڑوں ہی میں گنتے جاتے ہیں، مثلا، سو کروڑ، ہزار کروڑ بلکہ لاکھ کروڑ۔ یہ ہمارے ان پڑھ دیہاتیوں والا طریقہ ہے ۔ فرق یہ ہے کہ دیہاتی بیسیوں میں گنتے ہیں، جیسے چھ بیسیاں، یا دس بیسیاں۔ جب کسی ظالم کا ذکر کرنا ہو تو کہتے ہیں، زورآور کا ایک سو‘ سات بیسیوں کا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں پتہ نہیں کیوں کروڑ پر رک جاتے ہیں، جبکہ ان کی گنتی نیلم، پدم، سنکھ تک جاتی ہے ۔ لگتا ہے کہ ارب لکھنا انھیں پسند نہیں، کیونکہ ہندی میں ’’ارب‘‘اور ’’عرب‘‘کے ایک ہی ہجے ہیں۔ چنانچہ وہ عرب نہیں کہنا چاہتے کیونکہ وہ ’’ملیچھ مسلمان‘‘ہیں۔ چلیں ہندی میں تو ’’عرب ‘‘سے اشتباہ ہو سکتا ہے لیکن انگریزی میں ’’ارب ‘‘کو چھوٹے ’اے‘ سے اور ’’عرب ‘‘کو بڑے ’اے‘ سے لکھ کر فرق کیا جا سکتا ہے ۔ پھر انگریزی میں بھی کروڑ سے اوپر کیوں نہیں جاتے! مثلاً، حکومت کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے کہ اتنے لاکھ کروڑ کا خسارہ ہے ۔ آپ فوراً نہیں بتا سکتے کہ ایک لاکھ کروڑ کتنے بنتے ہیں۔ پہلے ایک کروڑ لکھیں۔ پھر اس کے آگے لاکھ کے پانچ صفر لگائیں۔ جو رقم بنے وہ بھی نہیں بتا سکتے کیوں کہ اس کے لیے گنتی لکھنے کے انگریزی طریقہ کا سہارا لینا ہوگا۔ ہر تین صفر کے بعد کامہ لگائیں‘ تب معلوم ہوگا کہ ایک ٹریلین بنتا ہے ۔ اگر کوئی خبریں سن رہا ہو، خاص طور پر غیرملکی، تو وہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ کسی منصوبہ پر کتنا خرچ ہوگا؟ ہندو طعنہ دیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ اصل میں ہمیں وہ حساب نہیں آتا تھا، جو بنیا اپنے بہی کھاتوں میں لکھا کرتا تھا۔ وہ رقم اس طرح لکھتا کہ کوئی عام آدمی پڑھ ہی نہ سکے ۔ چنانچہ وہ پڑھے لکھے دیہاتیوں کو بھی جو چاہتا مول اور بیاج، یعنی اصل زر اور سود، کی رقم زبانی بتا دیتا، چاہے کھاتہ میں کچھ اور لکھا ہو۔ ہم طعنہ کا جواب دیا کرتے تھے کہ کیا ہوا ہم بہی کھاتوں کی رقمیں نہیں پڑھ سکتے‘ ہمارے بڑوں نے علم ریاضی میں بہت ترقی کی۔ انھوں نے صفر ایجاد کیا۔ الجبرا تو ریاضی کی ایسی شاخ ہے کہ اس کا عربی نام تک اپنا لیا گیا۔ یہی نہیں، یورپ کو گنتی مسلمانوں نے سکھائی، جس نے جلد ہی رومی گنتی کی جگہ لے لی۔ رومی گنتی لکھنا اور پڑھنا بڑا مشکل تھا۔ مثلاً، 2012 ء کو MMXII لکھیں گے ۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کیسے لمبی رقمیں لکھتے اور پھر جمع تفریق کرتے ہوں گے ۔ چنانچہ عام استعمال میں تو رومی گنتی کبھی کی ختم ہو چکی ہے ۔ صرف خاص موقعوں پر استعمال ہوتی ہے ، مثلاً، کتاب کے ابواب کے نمبروں کے لیے۔ اس کی جگہ 1، 2، 3 استعمال ہوتے ہیں، جنھیں ’’عربی ہندسے ‘‘کہا جاتا ہے ۔ ایک شعبہ میں رومی گنتی اب بھی استعمال ہوتی ہے ۔ ہر فلم کچھ سالوں بعد پرانی ہو جاتی ہے ۔ بنانے والے نہیں چاہتے کہ اس کا آسانی سے پتہ چلے ۔ چنانچہ برطانیہ میں فلم کا سال رومی گنتی میں لکھتے ہیں۔ مثلا،2013 ء کو MMXIII لکھیں گے۔ بی بی سی والے بھی یہی کرتے ہیں۔ امریکیوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں۔ چنانچہ وہ اس بکھیڑے میں نہیں پڑتے اور سیدھے سیدھے 2013 ء لکھ دیتے ہیں۔ لیکن اتنی باریک ٹائیپ میں اور ایسی جگہ کہ آسانی سے نظر نہ پڑے ۔ جنوبی ایشیا میں فلموں اور ڈراموں والے کسی بھی طرح سال لکھنے کا تکلف نہیں کرتے ۔ ہمیں رقم یا تعداد لکھنے میں ایک مشکل پیش آتی ہے ۔ ہم نے رقم لکھنے کا طریقہ تو سنسکرت (یا ہندی) والا اختیار کیا، یعنی بائیں سے دائیں۔ انھیں تو سمت تبدیل نہیں کرنی پڑتی۔ ہمارا خط عربی ہے ، جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے ۔ عرب تو اکائی کی طرف سے پڑھتے ہیں۔ مثلاً، 463 کو ثلاثہ و ستین و اربعہ مائہ بولتے ہیں۔ ہم عبارت پڑھتے عربی کی طرح ہیں (دائیں سے بائیں) لیکن رقم یا تعداد انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں پڑھتے ہیں۔ تعداد لکھنے میں ہمیں ایک اور مشکل پیش آتی ہے ۔ بہت سے لوگ ساری رقم لگاتار ہندسوں میں لکھ دیتے ہیں۔ مثلا، 78905434 روپے لکھ دیں گے ۔ پڑھنے والا دائیں طرف سے شروع کرتا ہے ۔ آخر میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ اتنے کروڑ، لاکھ، وغیرہ بنتے ہیں۔ اگر دائیں طرف سے ہر تین ہندسوں کے بعد کامہ ڈالتے جائیں تو ایک نظر میں رقم پڑھی جا سکتی ہے ۔ ہمارے ہاں مرکزی حکومت کے بجٹ میں اور دوسری دستاویزات میں رقوم ملین اور بلین میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس صوبائی بجٹوں میں لاکھ اور کروڑ ہی چلتے ہیں۔ (شاید ان میں تبدیلی کی صلاحیت کم ہے۔) میڈیا میں اور بُرا حال ہے ۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انھیں ملین اور بلین کی سمجھ نہیں تو عوام کو بھی نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام بڑی آسانی سے تبدیلی اپنا لیتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی عام آدمی کو کلومیٹر کی بجائے میل یا کلو کی جگہ سیر کہتے سنا ہے ؟ گنتی کے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت نے 45 سال پہلے جو نظام نافذ کیا تھا اس پر پوری طرح عمل کیا جائے ۔ اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر سب ایڈیٹروں اور رپورٹروں کو ہدائت کی جائے کہ تمام رقوم وغیرہ صرف ملین اور بلین میں لکھی اور بولی جائیں۔ (اس سے آگے بھی گنتی ہے ۔) تحریر میں کچھ عرصہ کے لیے ساتھ ہی بریکٹ میں وضاحت کر دی جائے کہ ملین=دس لاکھ اور بلین=ایک ارب۔ جب تبدیلی عام طور پر قبول کر لی جائے تو وضاحت ختم کر دی جائے ۔ (درجہ حرارت فارن ہائیٹ کی بجائے سینٹی گریڈ یا سیلسیئس اپنانے کے لیے یہی کیا گیا تھا۔) ملین اور بلین کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھا جائے کہ رقم ہو یا تعداد، ہر تین ہندسوں کے بعد کامہ ڈالا جائے ۔ اس طرح اسے ایک نظر میں پڑھنا آسان ہو جائے گا، جیسے(50,706,543 یعنی 50 ملین)۔ اگر جمع کا صیغہ استعمال کرنا ہو تو’’ہزار ہا‘‘کے وزن پر ’’ملین ہا‘‘اور ’’بلین ہا‘‘کہا جا سکتا ہے ۔