"BGC" (space) message & send to 7575

شکریہ جنرل صاحب

سیاست میں کبھی پسپائی اختیار نہ کرو، کبھی رجوع نہ کرو، کبھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرو۔ نپولین بونا پارٹ
قومیں احتساب اور جواب دہی کے زینے طے کرتی ہوئے آگے بڑھا کرتی ہیں۔ غلطی پر سزا نہ ہو تو محض رجوع بے معنی ہے اور اس کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں۔
فوری اور اضطراری ردعمل تو میرا بھی یہی تھا مگر حالات کا باریک بینی سے تجزیہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد رائے دینے کے لیے کسی بھی معاملے کے تناظر اور تاریخ کو جوش کے بجائے ہوش سے سمجھنا ناگزیر ہوتا ہے۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے، خدشات اور اعتراضات کا لامتناہی سلسلہ۔ یہ نکتہ آفرینی بھی کی جا سکتی ہے کہ ایسی بات کسی سیاستدان کی طرف سے کسی ریاستی ادارے کے بارے میں کی گئی ہوتی تو کیا تب بھی محض یہ کہنے پر جان چھوٹ پاتی کہ مطالبات پورے ہونے کے بعد اب وہ بیان بے معنی ہو گیا لہٰذا یہ قضیہ ختم ہوا؟ اللہ اللہ خیر سلا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ملکی و غیر ملکی سطح پر جو جگ ہنسائی اور رسوائی ہونا تھی، وہ تو ہو چکی، زبان سے نکلے الفاظ، صفحہ قرطاس پر منتقل کیے گئے خیالات، کمان سے چھوٹا تیر، بندوق کے دہانے سے نکلی گولی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں آپ کے اکائونٹ سے کہی گئی بات قابل معافی ہے نہ قابل تلافی؛ چنانچہ اب ان وضاحتوں سے کیا حاصل؟
یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور ضرور اٹھایا جانا چاہئے کہ جب سب معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو چکے تو پھر اس معاملے پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ شائع کرنے میں کیا قباحت ہے؟ نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعات، نیلز بوہر کے الفاظ مستعار لوں تو آمریت کا بہترین ہتھیار رازداری ہے جبکہ جمہوریت کا بہترین ہتھیار شفافیت ہونا چاہئے۔ قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیا واقعی یہ سنگین نوعیت کی غیر ذمہ داری اور پیشہ ورانہ نااہلی کا معاملہ تھا یا پھر محض بارگیننگ پوزیشن بہتر کرنے کے لیے مخصوص حلقوں کی جانب سے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا گیا؟ شکوک و شبہات کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جناب پرویز رشید، طارق فاطمی اور رائو تحسین سمیت کسی پر یہ الزام عائد نہیں کیا گیا کہ انہوں نے یہ خبر لیک کی، تو پھر یہ خبر کس کی اختراع تھی؟ اگر یہ خبر درست تھی تو پھر اخبار کے مدیر اور متعلقہ رپورٹر کے خلاف کارروائی کی سفارش کیوں کی جا رہی ہے؟ قومی سلامتی بتانے سے نہیں چھپانے سے خطرے میں پڑتی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ تمام تحقیقاتی کمیشنز کی رپورٹیں شائع کی جائیں اور آغاز ڈان لیکس کی رپورٹ سے کیا جائے۔
بعض احباب تو تیوری چڑھاتے ہوئے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ جناب کون سی جمہوریت، کیسی جمہوریت؟ یہ تو نری بادشاہت ہے۔ جمہوریت کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ پر بورڈ تو جمہوریت کا ہی آویزاں ہے جس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ''ماسٹر کی‘‘ تو وزیر اعظم کے پاس رہتی ہے مگر اس کی ڈپلیکیٹ چابیاں ایک سے زائد لوگوں کے پاس ہیں، مثال کے طور پر کیپٹن صفدر، حمزہ شہباز، اسحاق ڈار اور خواجہ آصف۔ آگ لگے ایسی جمہوریت کو۔
ایک قلیل تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو سیاسی وابستگی اور نظریات سے قطع نظر محض سویلین بالادستی کے خواہاں ہیں اور حقیقی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ مگر وہ بھی اس صورتحال سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور اس بات پر معترض ہیں کہ اس نگوڑی جمہوریت کا کیا فائدہ جو محض ایک ٹویٹ سے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جمہوریت وہ کھلونا ہے جس سے ایک خاص حد تک کھیلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جب کوئی شریر بچہ خود کو بالغ اور خود مختار سمجھ کر اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے یہ کھلونا چھین لیا جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے کی طرف ضرور بڑھ رہی ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ سب ''بچے جمہورے‘‘ کسی کونے میں بیٹھ کر چُپ چاپ دہی کھا رہے ہیں اور انہوں نے مقررہ حدود سے تجاوز کی کوشش ہی نہیں کی۔
سیاست اور صحافت سے وابستہ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو تماشا دیکھنے کے منتظر تھے اور ان کی خواہش تھی کہ جوتوں میں دال بٹتی تاکہ ان کی موج لگی رہتی۔ اس گروہ میں سے ایک طرح کی بدنیتی پر ایستادہ موقف یہ ہے کہ قومی سلامتی جیسے سنگین معاملے پر سمجھوتہ کیوں کیا گیا؟ دوسری طرح کا بدنیتی اور کھوٹ پر مبنی موقف یہ ہے کہ وزیر اعظم کی حکم عدولی کا معاملہ یوں آسانی سے رفع دفع کیوں کر دیا گیا، نواز شریف ڈتے رہتے تاوقتیکہ اس معاملے کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کسی افسر کو برطرف کیا جاتا۔
ملکی سیاست پر کڑی نظر رکھنے والوں کے یہ خدشات بھی بے جا نہیں کہ ڈان لیکس پہلی اور آخری بارودی سرنگ تو ہے نہیں کہ جس کو ناکارہ بنا دیے جانے کے بعد ریاست کی گاڑی بلا خوف و خطر آگے بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی حادثے کا شکار نہیں ہو گی؟ کلبھوشن کا معاملہ، ایک نجی چینل کے حوالے سے سرد جنگ، افغانستان، بھارت اور ایران سے تعلقات سمیت کئی محاذ ابھی تک بند نہیں ہوئے‘ اور ڈان لیکس کا تنازع طے ہونے کی خوشی بہت عارضی اور وقتی ثابت ہو سکتی ہے۔
لیکن سچ پوچھیں تو مجھے ان تمام خدشات، اعتراضات اور بدنیتی پر مبنی خیالات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ فوج کو رگیدنے،کوسنے دینے، کیچڑ اچھالنے، ڈی جی آئی ایس پی آر اور آرمی چیف کا تمسخر اڑانے کا کھیل انہیں مبارک جو کسی ایجنڈے یا تعصب کا شکار ہیں۔ یہاں تو اہل سیاست نپولین بونا پارٹ کے پیروکار محسوس ہوتے ہیں اور اپنے موقف سے پسپائی کو توہین گردانتے ہیں کجا یہ کہ کسی فوج کا سپہ سالار اپنی غلطی کر برملا اعتراف کرتے ہوئے اپنی رائے پر نظرثانی اور رجوع کرے۔ سچ یہ ہے کہ محض بیوقوف اور مُردے ہی اپنے رائے تبدیل نہیں کرتے ورنہ زندوں کی دنیا تو تغیر و تبدل سے بھرپور دکھائی دیتی ہے۔ ہٹ دھرمی اور ضد ایسے اسپیڈ بریکر ہیں جنہیں نظر ثانی اور رجوع سے ہی مات دی جا سکتی ہے۔ ایک جرنیل‘ جس کی لغت میں پسپائی کا لفظ ہی نہیں ہوتا، وہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رجوع کر لے، اس کے لیے بہت ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور اور ان کے چیف جنرل قمر باجوہ نے ٹویٹ واپس لے کر افواج پاکستان کا بیانیہ بدل دیا ہے اور سویلین بالادستی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ آپ خود ہی بتائیں جس ملک میں یہ چلن ہو کہ ایک میجر، چند سپاہی اور متعدد فوجی گاڑیاں بھیج کر اپنی حکومت فتح کر لی جاتی ہو، جس ملک میں جی ایچ کیو سے نکلی بات کو پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہو، اس ملک میں فوج باضابطہ طور پر اپنے موقف پر نظرثانی کرے اور وزیر اعظم کو فائنل اتھارٹی قرار دے تو خوشی کیسے نہ ہو۔ مبارکباد تو بنتی ہے۔

 

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں