جو خوشامد کر سکتا ہے ،وہ بہتان بھی لگا سکتا ہے۔(نپولین بونا پارٹ)
نپولین کی اس بات کو ایک سے زائد طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے مثلاًجو آپ کے قدموں میں گر سکتا ہے ،وہ آپ کی نظروں سے بھی گر سکتا ہے۔جو اقتدار کی خاطر اپنی پارٹی کو ٹھوکر مار کر آرہا ہے وہ وقت آنے پر کرسی کے لئے آپ کو بھی چھوڑ کر جا سکتا ہے ۔جب نوازشریف لندن اور اس سے پہلے جدہ میں جلاوطنی کے دن کاٹ رہے تھے تو انہیں کھوٹے کھرے کی پہچان ہو چکی تھی اور وہ اپنے ملنے والوں سے اس عزم کا اظہار کیا کرتے تھے کہ پیٹھ دکھانے والے ابن الوقتوں پر کسی صورت بھروسہ نہیں کریں گے لیکن چاپلوسی اور خوشامد ایسی ظالم چیز ہے کہ یہ سب باتیں بھلا دیتی ہے۔وطن واپسی پر نوازشریف کے ساتھ بھی یہی ہوا۔کچھ تو خوشامدی ٹولے کی چکنی چپڑی باتوں کا اثر تھا اور کچھ سیاسی مصلحتیں بھی تھیں کہ نوازشریف نے کسی قدرپس و پیش کے بعد ان موسمی پرندوں کو اپنی منڈیر پر آنے اور دانہ چگنے کی اجازت دیدی جنہوں نے ڈکٹیٹر کی فرمائش پر بننے والی مسلم لیگ(ق) میں جوق در جوق شمولیت اختیار کرکے اس کے غیر قانونی اقتدار کو جواز بخشااور پھر باوردی صدربھی منتخب کیا۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میںوفاداریاں بدلنے والے ان کھوٹے سکوں کا ذکر کیا تھا مگر بات ادھوری رہ گئی تھی۔پہلے تو ایک تصیح نوٹ فرمالیں ۔پیر امین الحسنات سرگودھا این اے 64سے ایم این اے ہیں مگر سہواً یہ لکھا گیا کہ وہ این اے 63سے منتخب ہوئے۔
این اے 136ننکانہ صاحب سے 2002ء میں چوہدری بلال احمد ورک مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اب یہی صاحب اسی حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں۔این اے 137سے رائے منصب نے 2002ء میں سائیکل کے انتخابی نشان پر الیکشن جیتا ،نوازشریف کی واپسی پر مسلم لیگ (ن) میں آگئے اور ان کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر ان کی بیٹی ڈاکٹر شذرامنصب ایم این اے ہیں۔اسی طرح این اے 146اوکاڑہ سے رائو اجمل خان مسلم لیگ (ق) کو پیارے ہو گئے تھے اور حالات بد ل جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر واپس لوٹے تو انہیں صبح کا بھولا سمجھ کر مسلم لیگ (ن) میں قبول کر لیا گیا اور آخری الیکشن میں وہ شیر کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے۔این اے 151ملتان سے سکندر بوسن پرویز مشرف کی باقیات میں شمار ہوتے ہیں ،انہوں نے 2002ء کا الیکشن سائیکل کے انتخابی نشان پر جیتا ،چونکہ جیتنے والے امیدوار تھے اس لئے ان کی بھی مسلم لیگ(ن) میں واپسی ہو گئی ۔این اے 153ملتان جو شجاع آباد اور جلالپورپیروالا پر مشتمل ہے ،یہاں سے رانا قاسم نون مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے ہیں۔ان کے بھائی رانا سہیل احمد نون ماضی میں ایم پی اے اور تحصیل ناظم رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی ہو ،مسلم لیگ(ق) یا مسلم لیگ(ن) کوئی پارٹی ایسی نہیں جس کا یہ حصہ نہ رہے ہوں۔رانا قاسم نون پرویز الہٰی کے دور حکومت میں صوبائی وزیر ہوا کرتے تھے ۔یہاں کے بیشتر سیاستدانوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ جب بھی پارٹی اوور ہونے لگتی ہے تو یہ کسی نئی پارٹی میںشامل ہونیکا فیصلہ کرنے میں دیر نہیںکرتے۔این اے 155لودھراں سے اختر کانجو نے 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور اب اس حلقے سے ان کے فرزند عبدالرحمان کانجو مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں۔سیاسی وفاداریاں کس طرح اور کیسے بدلتی ہیں اس کی بہترین مثال این اے 156خانیوال ہے ۔یہاں سے رضا حیات ہراج 2002ء میںپیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے مگر جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی پیٹریاٹ میں شامل ہو کر پرویزمشرف کے دورِحکومت میں وفاقی وزیر مملکت بن گئے۔2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے یہاں سے سابق اسپیکر سید فخر امام کو اپنا امیدوار نامز دکیا ،مسلم لیگ(ن)نے سابق ایم پی اے سید خاور علی شاہ کو ٹکٹ دیا مگر سائیکل کے انتخابی نشان پر حصہ لینے والے رضا حیات ہراج نے میدان مارلیا۔2013ء کے عام انتخابات میں حالات نے کچھ ایسا رُخ اختیار کیا کہ چہرے وہی رہے مگر انتخابی نشان بدل گئے۔سابقہ الیکشن پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے سید فخر امام کو مسلم لیگ(ن) نے ٹکٹ دیدیا اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ امیدوار خاور علی شاہ تبدیلی کے علمبردار بن کر بلے کے انتخابی نشان کیساتھ میدان میں اترے مگر اس مرتبہ بھی کامیابی نے رضا حیات ہراج کے قدم چومے‘ جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے تھے۔اب جس کے قدم کامیابی نے چومے ہوں،مسلم لیگ (ن) اسے کیسے نظر انداز کر دیتی ،چنانچہ پرویزمشرف کے دور میں وزارت لینے والے یہ صاحب آج کل نوازشریف کے ساتھی ہیں۔این اے 158خانیوال سے پیر اسلم بودلہ کی کہانی بھی رضا حیات ہراج سے ملتی جلتی ہے۔پیر اسلم بودلہ یہاں سے 2002ء میں تیر کے انتخابی نشان پر منتخب ہوئے،بعد ازاں پیٹریاٹ کی چھتری تلے آگئے اور 2008ء کا الیکشن سائیکل کے انتخابی نشان پر لڑاجبکہ 2013ء میں شیر کے انتخابی نشان کیساتھ کامیابی حاصل کی۔این اے 159خانیوال میں بھی''اصولی سیاست ــ‘‘اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔یہاں سے 2002ء میں ملک غلام مرتضیٰ میتلا مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔2008ء میںمسلم لیگ (ق) کے غلام مرتضیٰ میتلا پیپلز پارٹی کے چوہدری افتخار نذیر سے ہار گئے ۔2013ء میں بھی جیتے تو چوہدری افتخار نذیر ہی مگر اس مرتبہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر جبکہ ہارنے والے امیدوار ملک غلام مرتضیٰ میتلا نے اس مرتبہ بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا ۔این اے 167وہاڑی سے نذیر احمد جٹ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں ،یہ 2002ء میں مسلم لیگ(ق) کے رُکن قومی اسمبلی ہوا کرتے تھے۔اسی طرح این اے 173اوراین اے 174ڈیرہ غازیخان سے اویس لغاری اور جعفر لغاری مسلم لیگ (ن) کے رُکن اسمبلی ہیں جبکہ پرویز مشرف کے دورمیں انہوں نے مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور اویس لغاری وفاقی وزیر بھی رہے۔این اے 179مظفر گڑھ سے مخدوم زادہ باسط بخاری بھی 2002ء میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے مگر ہوا کا رُخ بدلتا دیکھ کر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے۔این اے 183بہاولپور سے مخدوم علی حسن گیلانی نے بھی نواشریف کی وطن واپسی پر رجوع کیا اور اب مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں۔این اے 186بہاولپور جو خیر پور ٹامیوالی اور حاصل پور پر مشتمل ہے ،یہاں سے ریاض پیرزادہ رکن قومی اسمبلی ہیں جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔چیمہ خاندان کا بہاولپور اور بہاولنگر کی سیاست میں بہت اہم کردار رہا ہے ۔طارق بشیر چیمہ اور طاہر بشیر چیمہ پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے زیرِ سایہ چلے گئے تھے ۔ایم این اے طارق بشیر چیمہ تو ابھی تک مسلم لیگ (ق) میں ہی ہیں جبکہ طاہر بشیر چیمہ نے رجوع کر لیا اور این اے 190سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ہیں۔خسرو بختیار پرویز مشرف کے دور میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہوا کرتے تھے مگر ہوا کا رخ بدلتا دیکھ کر یہ بھی نوازشریف کے قافلے میں شامل ہو گئے اور این اے 194سے ایم این اے ہیں۔
نہایت صراحت کے ساتھ تردید کئے جانے کے باوجودٹیکنو کریٹی بندوبست کی افواہیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔اس ضمن میں میرا استدلال یہ ہے کہ جب مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں پرویز مشرف کے ساتھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہوں ،ضرورت پڑنے پر ان میں سے کسی کا ضمیر جگایا اور بہتان لگایا جا سکتا ہو،سعد رفیق جیسے ''شاہین‘‘ مصلحت آمیزی کے باعث ''فاختہ‘‘ بن چکے ہوں،چوہدری نثار جیسے اثاثہ جات موجود ہوں ،شہباز شریف کی صورت میں متبادل قیادت دستیاب ہو اوروزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ''اچھے بچے‘‘ کی طرح کام کرنے کوتیا رہوں تو ٹیکنو کریٹی بندوبست کی کیا تُک ہے حضور!