اگر آپ غریب پیدا ہوئے تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں لیکن اگر آپ مرتے دم تک غریب ہی رہتے ہیں تو اس کے قصور وار آپ خود ہیں۔ (بل گیٹس)
اچھی حکومت پر مبنی ملک میں غربت باعث شرمندگی ہونی چاہئے اور بری حکومت پر مبنی ملک میں دولتمند ہونا شرمندگی کی بات ہے۔ (کنفیوشس)
ہمارے ہاں ایسے دولتمند افراد کی کوئی کمی نہیں‘ جنہوں نے بچپن میں مفلسی کی چوٹ کھائی اور غربت و تنگدستی کے جھولے میں پرورش پائی‘ مگر اپنی حیثیت پر اکتفا کرنے یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنی راہیں خود متعین کیں اور انتھک محنت کے باعث کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ہاں البتہ ہمارے ہاں یہ تصور بہت پختہ ہے کہ ہر فقید المثال کامیابی کے پیچھے جرم کی کوئی داستان چھپی ہوتی ہے۔ اس تصور میں تعصب، رنجش، انتقام اور عناد کا کس قدر عمل دخل ہے، یہ کہانی پھر سہی۔ فی الوقت مقامی سطح پر غربت سے عظمت کا سفر طے کرنے والوں کی تابناک مثالیں ایک طرف رکھتے ہوئے عالمی سطح پر چند ایسے افراد کا حوالہ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جنہوں نے ایک غریب بچے کی حیثیت سے جنم لیا‘ لیکن محض اپنی صلاحیت، لگن، جستجو اور محنت کے بل بوتے پر طبقہ امرا میں شامل ہوئے۔ مقبول فدا حسین جو ایم ایف حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور جنہیں بھارت کا پکاسو کہا جاتا ہے، مہاراشٹر کے ایک معمولی اکائونٹنٹ کے گھر پیدا ہوئے اور لڑکپن میں بھارتی فلموں کے پوسٹرز بنایا کرتے تھے‘ مگر اپنے کام سے عشق نے یہ مقام عطا کیا کہ ان کی ایک ایک پینٹنگ کئی ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ لیونارڈو ڈیل ویکیہو اطالوی بزنس مین ہیں اور ان کی کاروباری سلطنت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی والدہ اس قدر غریب تھی کہ انہوں نے اپنے جگر گوشے کو یتیم خانے میں داخل کروا دیا تھا۔ لڑکپن میں اس شخص نے عینکوں کے فریم اور آٹو پارٹس کے مولڈ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کیا‘ جہاں مشین پر کام کرتے ہوئے اس کی ایک انگلی کٹ گئی تھی۔ 23 سال کی عمر میں ویکیہو نے اپنی مولڈنگ شاپ بنا کر کام کا آغاز کیا‘ اور آج یہ شخص عینکوں کے شہرہ آفاق برانڈز ''رے بن‘‘ اور ''اوکلے‘‘ کا مالک ہے۔ Francois Henri Pinault فرانس کے سب سے بڑے کاروباری گروپ کے مالک اور خوبرو ہالی ووڈ سٹار سلمہ ہائیک کے شوہر ہیں۔ اس شخص کے بچپن کی یادیں اس قدر تلخ ہیں کہ آئے روز ہم مکتب طلبا و طالبات کی طرف سے غریب ہونے کے طعنے سننے کو ملتے اور ستایا جاتا۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر سکول کو خیرباد کہنا پڑا۔ لیکن کامیابی کے جذبے سے سرشار اس شخص نے ''گوچی‘‘ جیسا شہرہ آفاق برانڈ متعارف کروایا اور یہ آج فیشن انڈسٹری کا سب سے بڑا نام ہے۔
Sheldon Adelson امریکی سرمایہ کار، کاروباری شخصیت اور کیسینو کی سب سے بڑی کمپنی کا مالک ہے۔ یہ شخص بہت فخر سے بتاتا ہے کہ اس کا باپ ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ 12 سال کی عمر میں اسے گھر کا خرچ چلانے کے لئے اخبارات بیچنا پڑتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ تنگدستی کے باعث کالج چھوٹ گیا اور فٹ پاتھ پر سونا پڑا۔ کچھ عرصہ کے لئے کورٹ رپورٹر بن گیا‘ لیکن ہمت نہ ہاری۔ قسمت کو کوسنے دینے کے بجائے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور آج امریکہ کے ارب پتی افراد میں شمار ہوتا ہے۔ اوریکل نامی سوفٹ ویئر کا بانی Larry Ellison بروکلین کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے انکل اور آنٹی نے ترس کھا کر اسے گود لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد آنٹی فوت ہو گئیں تو زندگی پھر سے سڑک پر لے آئی۔ دو وقت کی روٹی کے لئے معمولی نوعیت کی ملازمتیں کیں‘ مگر آج یہ سڑک چھاپ بچہ اپنی جہد مسلسل کے باعث دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق Dowon Chang کا شمار بھی ایسے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے‘ جنہوں نے اپنے سفر کا آغاز صفر سے کیا‘ اور
آج کامیاب ترین بزنس مین ہیں۔ ان کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ کوریا سے امریکہ آنے کے بعد خاکروب کے طور پر کام کیا، گیس سٹیشن پر ہیلپر اور کافی شاپ پر ویٹر کی نوکری کی۔ نہ تو ان ملازمتوں کو حقیر جانا اور نہ ہی انہیں اپنا مقدر سمجھ کر آگے بڑھنے کی جستجو ترک کی بلکہ زندگی کے سفر کا اہم سنگ میل سمجھ کر منزل کی جانب بڑھتا رہا اور آج ایک رول ماڈل کے طور پر سب کے سامنے ہے۔ Moh Altrad شام کے ایک دور افتادہ گائوں میں ایک بدو کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں جنم دیتے ہی مر گئی۔ باپ نے اسے اپنی ماں یعنی اس کی دادی کے حوالے کر دیا۔ انتہائی غربت کے اس ماحول میں اس کا مقدر ایک چرواہا بننا تھا لیکن اس نے اپنا مقدر خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہونہار طالب علم ہونے کی وجہ سے سکالرشپ پر فرانس آ کر پڑھنے کا موقع ملا‘ مگر سکالرشپ کے باوجود غربت کا یہ عالم تھا کہ دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھایا جا سکتا تھا۔ انہی حالات میں کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف فرانسیسی کمپنیوں میں کام کیا۔ اسی اثناء میں ایک ڈوبتی ہوئی چھوٹی سی کمپنی کو خرید لیا‘ اور اسے Altrad نامی بڑے کاروباری گروپ میں تبدیل کر دیا۔ چند برس قبل اس شخص کو ورلڈ انٹرپرینور آف دا ایئر کا ایوارڈ دیا گیا۔ روسی بزنس ٹائیکون Roman Abramovich نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب وہ صرف دو سال کا تھا تو اس کے والد فوت ہو گئے تھے۔ غربت کے ساتھ یتیمی کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے یہ بات وہی جانتے ہیں جنہوں نے ایسے مشکل ترین حالات کا سامنا کیا ہو‘ مگر اس باہمت نوجوان نے بطور طالب علم بچوں کے کھلونے بیچنا شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ میکسیکو کے Carl Berg کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کارل برگ دس سال کی عمر میں باپ کی شفقت اور سائے سے محروم ہو گیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے دن کو وینڈنگ مشینوں پر کام کرتا اور رات کو ہوٹل میں بطور کلرک نوکری کرکے اسباب زیست فراہم کرتا۔ امریکی ارب پتی شخص کینیتھ لانگون‘ جن کا شمار امریکہ کے مخیر ترین افراد میں ہوتا ہے‘ کے والد اور والدہ نے پلمبر اور کیفے ٹیریا میں ویٹر کی نوکری کی۔ ایک اور ارب پتی امریکی کینی ٹرائوٹ‘ جو ایکسل کے بانی ہیں‘ نے انشورنس ایجنٹ کے طور پر انشورنس پالیسیاں بیچ کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ افریقی نژاد امریکی پریزینٹر اور اینکر Oprah Winfrey ایک سیاہ فام غریب خاندان میں پیدا ہوئیں مگر اپنی جانفشانی کے باعث شہرت و مقبولیت کے ساتھ بے پناہ دولت بھی سمیٹی۔ شاہد خان پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین ہیں جن کے اثاثہ جات کی مالیت کئی ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتاتے ہیں کہ امریکہ میں انہوں نے کس قدر مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ انہوں نے ریستورانوں میں برتن دھونے کی نوکری بھی کی۔
زندگی کے سفر میں مواقع اور اسباب کا بہت عمل دخل ہوتا ہے لیکن جن کے ارادے پختہ ہوں وہ اپنے لئے مواقع اور اسباب بھی خود ہی فراہم کرتے چلے جاتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد کے الفاظ مستعار لوں تو ''بڑے بڑوں کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور اسباب کار فراہم نہیں‘ لیکن وقت کا عازم و فاتح اٹھتا ہے اور کہتا ہے اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اس کو ساتھ لوں گا، اگر سر و سامان میسر نہیں تو اپنے ہاتھوں سے تیار کر لوں گا، اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہئے، اگر انسان گونگے ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہئے‘ وہ زمانے کا مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے چاکری کرائے وہ وقت کا خالق اور اپنے عہد کا پالنے والا ہوتا ہے۔‘‘ دنیا کے 100 امیر ترین افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے 22 منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز صفر سے کیا، آخر یہ بھی تو انسان ہی ہیں۔