جمہوریت انسٹنٹ کافی نہیں جو فوری تیار ہو جائے۔ (نوبل انعام یافتہ مصری مندوب، محمد البرادی)
برطانوی پارلیمنٹ کو منتخب جمہوری اداروں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا ایوانِ زیریں جسے ''ہائوس آف کامنز ‘‘ یا دارالعوام کہا جاتا ہے، اس کے انتخابات ہوں اور ہم پاکستانی لاتعلق رہیں‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ 8 جون کے انتخابات کے بارے میں مختلف برطانوی اداروں کے سروے تو یہی بتا رہے تھے کہ وزیر اعظم تھریسا مے کی کنزرویٹو پارٹی 383 کے قریب نشستیں حاصل کرے گی اور باآسانی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی‘ مگر جون کا مہینہ ''مے‘‘ کا اختتام ثابت ہوا ہے اور تھریسا مے اکثریت سے محروم ہو گئی ہیں۔ ان کی کنزرویٹو پارٹی نے اب تک 318 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 650 کے ایوان میں حکومت بنانے کے لیے 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان کی حریف لیبر پارٹی 261 نشستیں جیتنے کے بعد بہت پیچھے ہے تاہم اب کوئی بھی جماعت تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں اور کسی چھوٹی جماعت سے اتحاد کرکے ہی ایوان میں اکثریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ باالفاظ دیگر مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی صرف پاکستان میں ہی اہمیت کے حامل نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت پر مبنی سروے‘ جو انتہائی معتبر سمجھے جاتے تھے‘ اب ان کی ساکھ مشکوک ہوتی جا رہی ہے کیونکہ اس سے قبل امریکہ اور فرانس میں بھی انتخابی نتائج نے انہیں غلط ثابت کیا۔
برطانوی انتخابات کے انعقاد سے پہلے بھی بہت سی باتیں میرے لیے حیرت کا باعث تھیں مگر پولنگ ڈے اور اس کے بعد نتائج نے تو مجھے ہکابکا ہی کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور نواز شریف وزیر اعظم ہیں۔ اگر آج انتخابات کا اعلان ہو جائے اور آپ کو معلوم ہو کہ نواز شریف بدستور وزیر اعظم رہیں گے، کوئی نگران حکومت تشکیل نہیں پائے گی اور نہ ہی کوئی نگران وزیر اعظم آئے گا‘ ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو نواز شریف مستعفی ہو جائیں گے۔ کیا ایسی صورت میں کوئی بھی جماعت انتخابی نتائج کو تسلیم کرے گی؟ یہاں تو نگران حکومتوں اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے نتائج قبول نہیں کیے جاتے اور لوگ ریٹرننگ آفیسرز پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر برطانیہ میں انتخابی نتائج آنے اور اکثریت کھونے کے باوجود تادم تحریر تھریسا مے وزیر اعظم ہیں۔
برطانیہ میں 8 جون کو پولنگ ڈے کا کلچر دیکھ کر بھی مجھے شدید مایوسی ہوئی۔ ہمارے ہاں تو سیاسی جماعتیں ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے بہت تگ و و دو کرتی ہیں۔ ہر جماعت اپنے حامیوں کو گھروں سے پولنگ سٹیشن لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ قیمے والے نان، بریانی اور جوس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پولنگ سٹیشن کے باہر میلے کا سماں ہوتا ہے۔ ہر پارٹی نے اپنا انتخابی کیمپ لگا رکھا ہوتا ہے جہاں ووٹر لسٹیں پڑی ہوتی ہیں۔ ہر شخص کو اس کا نام اور ووٹ نمبر پرچی پر لکھ کر تھمایا جاتا ہے اور قطار میں کھڑے ہوئے ووٹرز کو اس وقت تک قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب تک وہ بیلٹ بکس تک نہ پہنچ جائیں۔ جن ووٹرز نے کسی شرط کے تحت ووٹ دیا ہوتا ہے وہ بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت اپنے موبائل فون کے کیمرے میں تصویر بنا کر لے جاتے ہیں اور بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح پولنگ سٹیشن کے باہر ہر پارٹی کے کارکن اپنے امیدوار کے حق میں نعرے لگاتے اور بھنگڑے ڈالتے نظر آتے ہیں۔ انتظامیہ بھی ووٹرز کو گھروں سے باہر نکالنے کی نیت سے انتخابات کے روز چھٹی کا اعلان کر دیتی ہے تاکہ لوگ باآسانی ووٹ ڈال سکیں۔ ہمارے ہاں تو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چھٹی کے بغیر ممکن ہی نہیں مگر برطانوی بہت کھڑوس ہیں، ان کے ہاں قومی انتخابات کے دن بھی چھٹی نہیں ہوتی۔ دفاتر، عدالتیں، سکول، کاروباری مراکز معمول کے مطابق کھلے رہتے ہیں۔ اگر آپ نے ووٹ ڈالنا ہے تو اپنی ڈیوٹی پر جانے سے پہلے کاسٹ کریں یا پھر بعد میں۔
برطانیہ میں پولنگ کا دن بہت پھیکا سا ہوتا ہے‘ پولنگ سٹیشن کے باہر کسی جماعت کا کیمپ دکھائی دیتا ہے نہ ہی کارکن آوے ہی آوے کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی جماعت اپنے حامیوں کو بس یا ویگن میں بھر کر لانے کا تکلف گوارہ نہیں کرتی۔ سب ووٹرز اپنی مدد آپ کے تحت پولنگ سٹیشن پہنچتے ہیں۔ وہاں بھی ووٹر لسٹ میں ان کا نام ڈھونڈ کر دینے کے لیے کوئی جیالا یا متوالا موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ ذمہ داری انتخابی عملے پر عائد ہوتی ہے۔ پولنگ سٹیشن میں موبائل فون استعمال کرنے اور تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو شخص کسی بھی طریقے سے یہ بات ظاہر کر دے کہ اس نے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے یا کس کے نام پر مہر لگائی ہے، اسے پانچ ہزار پائونڈ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں تو انتخابی عملے کے ساتھ ہر امیدوار کا پولنگ ایجنٹ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے‘ اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی ووٹر کو شناختی کارڈ کے بغیر بیلٹ پیپر جاری نہ کیا جائے مگر برطانوی بہت بیوقوف ہیں‘ وہاں نہ تو انتخابی عملے کے ساتھ کوئی پولنگ ایجنٹ ہوتا ہے اور ناں ہی ووٹ ڈالنے کے لیے کسی شناختی دستاویز کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تو جعلسازی سے بچنے کے لیے ووٹ ڈالنے کے بعد ہر شخص کے انگھوٹے پر نیلی روشنائی لگائی جاتی ہے تاکہ وہ دوبارہ ووٹ ڈالنے کی کوشش نہ کر سکے لیکن برطانیہ میں ووٹرز کو نشانی لگانے کا بھی کوئی رواج نہیں۔ ہمارے ہاں تو سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل ٹی وی چینلز اس وقت غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کا اعلان کرنا شروع کر دیتے ہیں جب انتخابی عملے کے فرشتوں کو بھی یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ کون جیت رہا ہے مگر برطانیہ میں ریٹرننگ آفیسر ہی نتائج کا اعلان کرتا ہے جسے سب ٹی وی چینلز نشر کرتے ہیں۔
تاہم حیرت کا ایک اور پہلو ابھی باقی ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوںکی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے۔ ان میں انجم چوہدری جیسے شرپسند بھی ہیں جو جمہوریت کو کفر قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو کھلے عام گمراہ کرتے ہیں۔ دہشتگردی کی ہر واردات میں خرم شہزاد بٹ، رضوان راشد اور یوسف زغبہ جیسے اہل ایمان ملوث ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں جرائم کی شرح گوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ 78 فیصد مسلمان مرد اور 63 فیصد مسلمان خواتین بنا کسی ملازمت کے حکومت سے ملنے والے وظائف اور سہولتوں کی وجہ سے پُرآسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن یہ برطانوی عجیب گھامڑ ہیں پھر بھی مسلمانوں کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ گزشتہ پارلیمنٹ میں مسلمان ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 13 تھی اور اس مرتبہ غالباً 15 مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ برمنگھم، لیوٹن، بلیک ہرن، شیفلڈ، آکسفرڈ، روشدالے، لیڈز اور لندن کے میئر مسلمان ہیں۔ پورے برطانیہ میں 3000 سے زائد مساجد ہیں، شریعہ کونسلز اور شریعہ کورٹس کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ہے ناں اچنبھے کی بات؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ برطانیہ بھی اسی دنیا کے نقشے پر ہے یا پھر مریخ کا حصہ ہے؟ لے دے کے تسلی دینے کو محض یہی بات ہی رہ جاتی ہے کہ جمہوریت انسٹنٹ کافی نہیں جو فوری تیار ہو جائے؛ چنانچہ پیوستہ رہ ''جمہوریت‘‘ سے امیدِ بہار رکھ۔