"BGC" (space) message & send to 7575

شکریہ ریمنڈ ڈیوس

بڑی قومیں بدمعاش (گینگسٹر) ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی قوموں کی مثال طوائفوں جیسی ہے۔امریکی فلم ڈائریکٹر سٹینلے کیوبرک۔
خدے دے ڑنگ کے ریمنڈ،جا ریمنڈ ڈیوس تیرا ستیا ناس ہووے،تیراککھ نہ رہوے۔اگلی بار تمہیں کوئی کنٹریکٹ نہ ملے اور اگر ملے تو کسی ایسے ملک میں جا کر پکڑے جائوجہاں تمہیں نسوار نہ ملے، کسی ایسے ملک میں جا پھنسو جو طوائفوں جیسا نہ ہو،جہاں ڈالر کی تھاپ پر گھنگرو پہن کر ناچنے کا چلن نہ ہو ،جہاں تمہیں بچانے کے لیے کوئی پاشا دستیاب نہ ہو ،جہاں تم نشان عبرت بنو اور پھر تمہیں پتہ چلے کہ احسان فراموشی کی سزا کیا ہوتی ہے۔ہم نے تمہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر بگرام ایئر بیس پہنچا دیا اور تو نے ہمیں ہی بے نقاب کر ڈالا۔
مجھے ریمنڈ ڈیوس کی کتابــ ''دی کانٹریکٹر‘‘ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن عمران خان نے پوری قوم کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا تو میں نے، سوشل میڈیا پر لنگر کی طرح بانٹی جا رہی سافٹ کاپی سے استفادہ کرتے ہوئے، ایک ہی نشست میں اسے پڑھ ڈالا۔کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ پیسے یا پروموشن لیکر کسی پر احسان کرو تو پھر اس کی کتاب کے شر سے بھی بچو۔ایک قاتل کی رہائی کی شرمناک داستان پڑھ کر عمران خان، آصف زرداری اور نوازشریف پر تو خوب برسے لیکن اس کہانی کے مرکزی کردار جنرل شجاع پاشا کا نام لینے سے یوں گریزاں ہیں جیسے مشرقی عورتیں اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔خدا ہی جانے یہ کیا ماجرا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کے دربار میںپہنچے تو بندہ و صاحب و محتاج و غنی سب ایک ہو گئے ۔کالے کوٹ والوں سے لے کر حب الوطنی کے خاکی لنگوٹ والوں تک سب کورنش بجا لانے میں سبقت لے جانے کے خواہاں تھے۔امریکی قونصلیٹ کو ریمنڈ ڈیوس کا دفاع کرنے کے لیئے کوئی وکیل نہیں مل رہا تھالیکن جب ریٹ بڑھایا تو ایک لاکھ ڈالر کی پیشکش سن کر پنجاب کے سابق پراسیکوٹر جنرل زاہد حسین بخاری کے منہ میں پانی بھر آیا۔ریمنڈ ڈیوس کی وکالت پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر میری لائف انشورنس بھی کروا دیں تو نوازش ہو گی ۔امریکی سفارتکار نے کہا ،تمہیں اتنی بھاری فیس دے رہے ہیں ،انشورنس کروانی ہے تو خود ہی کروالو۔اس ناہنجار ریمنڈ ڈیوس نے میڈیا کی آزادی کی قلعی بھی یہ کہ کر کھول دی کہ مقتول فہیم احمد کی بیوی شمائلہ کنول نے وقوعہ کے دوسرے دن ہی خود کشی کر لی تھی مگر پاکستانی میڈیا میں یہ خبر ایک ہفتے بعد رپورٹ ہوئی۔صحافیوں کا کیا ہے ،ان کے بارے میں تو جنرل پاشا نے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکام پاکستانی صحافیوںکو شراب کی ایک بوتل ،عورت اور پیسے کے عوض خرید لیتے ہیں ۔تعجب تو ان محب وطن افرادپر ہے جو مدت ملازمت میں توسیع کے لالچ میں بذات خود عدالت میں جا کھڑے ہوتے ہیں،ایلچی کی طرح امریکی سفیر کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک مشن مکمل نہیں ہو جاتا ۔ریمنڈ ڈیوس نے تو اپنی کتاب میں کیے گئے انکشافات کے ذریعے محض مہر تصدیق ثبت کی ہے ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ دیت کا ڈرامہ رچانے سے دو دن قبل مقتولین کے ورثا ء کو حراست میں لے لیا گیا تھااور انہیں مخصوص انداز میں قائل کیا گیا تھا کہ تمہارے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے ،دیت وصول کرو اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہو جائو۔ریمنڈ ڈیوس بتاتا ہے کہ جب ورثا باری باری اس کے سامنے آکر یہ کہ رہے تھے کہ ہم نے خون بہا لیکر قتل معاف کیا تو یہ کہتے ہوئے کچھ افراد کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔اسٹینلے کیوبرک کے بقول وہ قوم طوائف نہیں تو اورکیا ہے جس کے آنسو ایک قاتل کو تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہاں موجود ایک حساس ادارے کے سربراہ کو نظر نہیں آتے۔
ریمنڈ ڈیوس ہی کیا اس سے پہلے سی آئی اے کے چیف لیون پنیٹا بھی جنرل پاشا کا شکریہ ادا کر چکے ہیں۔چند برس قبل جب ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''وردی فائٹس ‘‘ سامنے آئی تو انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے پر بھی روشنی ڈالی ۔انہوں نے بتایا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاعات کی تصدیق ہونے کے بعد آپریشن جیرینیمو کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور ہم ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانا چاہتے تھے۔جوائنٹ چیف آف اسٹاف مائیک مولن نے عمان میں جنرل کیانی سے ملاقات میں بھی اس حوالے سے بات کی مگر اصل بریک تھرو تب ہوا جب صدر اوبامہ نے مجھے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا ٹاسک دیا ۔جان کیری کی اسلام آباد آمد کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا بھاگم بھاگ امریکہ پہنچے ۔جنرل پاشا سے ملاقات کے دوران لیون پنیٹا نے کن الفاظ میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی بات کی ، اس کتاب کے صفحہ نمبر 305پر اس کی تفصیل موجود ہے۔لیون پنیٹا کہتے ہیں ''میں نے جنرل پاشا کو متنبہ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی حفاظت کے ذمہ دار تم ہو اور میں تم سے ہی پوچھوں گا‘‘ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ''دی کانٹریکٹر‘‘ کو لیون پنیٹا کی کتاب ''وردی فائٹس ‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ بات باآسانی سمجھ آجائے گی کہ دیت کی ادائیگی اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے دن جنرل شجاع پاشا بذات خود کمرہ عدالت میں کیوں موجود تھے اور اس قدر متحرک کیوں تھے۔جنرل پاشا کے دور میں ممبئی حملے ،مہران بیس پر دہشتگردی ،ایبٹ آباد آپریشن ،سلیم شہزاد قتل سمیت کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن پر ہمارے ہاں ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے مگر مزہ تو تب ہے کہ دشمن بھی شکریہ کہنے پر مجبور ہو جائے۔صحافی تو شراب کی ایک بوتل ،عورت اور پیسے کے عوض بک جاتے ہیں ،ان کا شکریہ جو مدت ملازمت میں توسیع کے لالچ میں آگئے۔شکریہ جنرل پاشا۔ ریمنڈ ڈیوس تمہارا بھی شکریہ ،ایک مرتبہ پھر آئینہ دکھانے اور یہ بتانے کا کہ ہم کس قسم کی ریاست ہیں۔

 

ریمنڈ ڈیوس نے تو اپنی کتاب میں کیے گئے انکشافات کے ذریعے محض مہر تصدیق ثبت کی ہے ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ دیت کا ڈرامہ رچانے سے دو دن قبل مقتولین کے ورثا ء کو حراست میں لے لیا گیا تھااور انہیں مخصوص انداز میں قائل کیا گیا تھا کہ تمہارے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے ،دیت وصول کرو اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہو جائو۔ریمنڈ ڈیوس بتاتا ہے کہ جب ورثا باری باری اس کے سامنے آکر یہ کہ رہے تھے کہ ہم نے خون بہا لیکر قتل معاف کیا تو یہ کہتے ہوئے کچھ افراد کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں