"BGC" (space) message & send to 7575

نوازشریف لتا کے گانے سنیں

سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ جنگ میں تو آپ ایک بار رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔ (ونسٹن چرچل)
سیاستدان مُرجھا تو جھاتے ہیں مگر مرتے نہیں۔
فطرت کے چند مسلمہ قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ کسی کو جتنی شدت سے دبانے کی کوشش کی جائے وہ اتنی ہی طاقت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ بِلی بظاہر ایک بے ضرر اور بے وقعت سا جانور ہے جسے ڈرانے اور بھگانے کے لئے معمولی سا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن اگر آپ دروازہ بند کرکے اس کو پھینٹی لگانے کی کوشش کریں گے تو یہ سب سے بڑی حماقت ہو گی۔ آپ ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے جائیں گے، بلی دوڑ کر ایک کونے سے دوسرے کونے میں جائے گی لیکن جب اسے معلوم ہو گا کہ تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں تو یہ جھپٹ پڑے گی اور آپ کا منہ نوچ لے گی۔ سیاسی جماعتیں اور گروہ بھی اپنی جدوجہد کے دوران طبعی موت مر جائیں تو الگ بات ہے لیکن جب آپ انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کینچوے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں‘ جسے 100 ٹکڑوں میں بھی بانٹ دیا جائے تو ہر ٹکڑا علیحدہ کینچوا بن جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بعض اوقات دفاعی حکمت عملی کے تحت حالتِ خوابیدگی میں چلی جاتی ہیں اور حملہ آور سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن حالات سازگار ہوتے ہی یہ جماعتیں اور گروہ پہلے سے زیادہ سیاسی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر مصطفی کمال کا خیال تھا کی اس نے اسلام پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے، اس کے جانشینوں نے بھی سیکولراِزم کا علم گاڑنے کی پوری کوشش کی‘ لیکن اسلام پسند اربکان کی صورت میں واپس آ گئے۔ اربکان کی حکومت فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے ختم کی گئی تو چند برس بعد یہ لوگ طیب اردوان کی صورت میں لوٹ آئے اور اب انہیں اکھاڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کو دفن کرنے کے دعوے کئی مرتبہ غلط ثابت ہوئے۔ آخری مرتبہ یہ لوگ صدر مُرسی کی شکل میں نمودار ہوئے۔ جنرل سیسی کا خیال ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر اس نظریے کو زندہ گاڑ کر اس کی باقیات کو لحد میں اتار دیا ہے لیکن یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ سیاسی جماعتیں طبعی موت نہ مریں تو پھر سے زندہ ہو جاتی ہیں۔ اخوان المسلمون کا بھی پھر سے احیا ہو گا۔ افریقہ کی نیشنل کانگرس کی مثال لے لیں، سفید فاموں نے اس کا نام و نشان مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، نیلسن منڈیلا کو دہشتگرد قرار دے کر کئی برس تک قید رکھا گیا لیکن ابتلا اور آزمائش کی ان پُرہول وادیوں میں کون سرخرو ہوا؟ کون صفحہء ہستی سے مٹ گیا، یہ سب تاریخی حقائق ہیں۔ بھارت میں گاندھی خاندان کا سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، 15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کی فوج نے صدارتی محل کا ٹینکوں سے گھیرائو کرکے شیخ مجیب کو پورے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بغاوت کرنے والوں کا خیال تھا کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی تاریخ سے شیخ مجیب کا نام حرف غلط کی مانند مٹا دیا ہے، اس کی بیٹی حسینہ واجد‘ جو اس واردات کے وقت ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گئیں‘ 17مئی 1982ء کومقبول ترین سیاسی رہنما کی حیثیت میں وطن واپس لوٹیں اور تیسری مرتبہ ملک کی وزیر اعظم ہیں۔ آج وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا کر وہی غلطی دہرا رہی ہیں اور اس کا نتیجہ بھی ان تحریکوں کی مقبولیت کی صورت میں نکلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین عوامی رہنما تھے‘ اگر انہیں حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جاتا تو بے پناہ سیاسی غلطیوں کے ارتکاب کے باعث ان کی سیاست کا بہت جلد خاتمہ ہو جاتا لیکن ضیا الحق کی ایما پر انہیں پھانسی دے کر امر کر دیا گیا اور بینظیر بھٹو بھی 80ء کی دہائی میں مقبول ترین رہنما کی حیثیت سے واپس لوٹیں۔ 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر نواز شریف کو جلاوطن کیا تو مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کے لئے مسلم لیگ (ق) کی پنیری لگائی گئی۔ پرویز مشرف کو خوش فہمی تھی کہ نواز شریف قصہ پارینہ ہو چکا لیکن اس کی سیاست پھر سے زندہ ہو گئی۔27 دسمبر2008ء کو جس نے بینظیر کو قتل کرنے کی سازش کی اس کا خیال تھا کہ بی بی کے رخصت ہونے سے پیپلز پارٹی تاش کے پتوں کی مانند بکھر جائے گی لیکن محترمہ بینظیر کی شہادت سے نئی زندگی پا کر پیپلز پارٹی برسر قتدار آ گئی۔ باچا خان کے سیاسی نظریئے پر غداری سمیت کون سی تہمت نہیں لگی، سرخ پوشوں کو دبانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کئے گئے لیکن عوامی نیشنل پارٹی آج بھی قائم و دائم ہے۔ اب ہمارے حقیقی ''گاڈ فادرز‘‘ کا خیال ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو روند ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔
ویسے ہمارے ہاں کامیاب سیاستدان وہی ہے جو ایک اچھا مداری اور کرتب باز بھی ہو۔ امریکی مصنف اور شاعر، کارل سینڈ برگ کے بقول ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں، ایک اچھالنے کے لئے، ایک وقت گزاری کے لئے اور ایک منتخب ہو جانے کی صورت میں خرگوش نکالنے کے لئے۔ ہمارے ہاں سیاست تنی ہوئی رسی پر چلنے کا نام ہے یا یوں سمجھیں کہ بیک وقت کئی گیندیں اچھالنے اور انہیں گرنے نہ دینے کا دوسرا نام ہے۔ آپ اسے سانپ اور سیڑھی کا وہ کھیل بھی کہ سکتے ہیں جس میں آپ کتنے ہی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیوں نہ کر رہے ہوں مگر سانپ سے ڈسے جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔ سویلین حکومت کی مثال اس بہو کی سی ہے جسے بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، اسے اپنے شوہر یعنی عوام کا رانجھا بھی راضی رکھنا ہے ، اسٹیبلشمنٹ نامی نخریلی اور تخریبی ساس کی سازشوں سے بچنا ہے، انصاف کے ہتھوڑے سے بھی خود کو محفوظ رکھنا ہے، اپنے بچوں یعنی پارٹی ورکرز کی فلاح و بہبود کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے، اپوزیشن کی صورت میں لاتعداد جیٹھ اور دیور جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی سازشوں سے بھی بچنا ہے، شریکوں کے حسد اور ہمسایوں کی کڑوی کسیلی باتوں کا توڑ بھی کرنا ہے اور میڈیا نامی پھپھے کٹنی عورت کے زہریلے پراپیگنڈے کو مات بھی دینی ہے۔ ان تمام جھمیلوں میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر گھر گرہستی یعنی ملکی ترقی کے بارے میں بھی سوچنا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں ووٹ مانگنے کے لئے پھر سے جھولی پھیلانے کا وقت آئے تو کارکردگی دکھانے کے لئے کچھ تو ہو۔ خاکی حکمرانوں کے برعکس جمہوری حکمرانوں کو ایسے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ نواز شریف جیسا کہنہ مشق، تجربہ کار اور منجھا ہوا سیاستدان بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ آپ دیکھیں ناں عوامی مینڈیٹ کے دم پر اِترانے اور بھائو کھانے والے نوازشریف سرمنڈانے بھی نہ پائے تھے کہ دھرنوں کی صورت میں اولوں کی برسات ہو گئی اور انہیں اقتدار کا بیشتر حصہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف)، پختونخوا ملی پارٹی میں بانٹنا پڑا لیکن پھر بھی جان نہ چھوٹی تو حق حکمرانی کے کاغذات اسٹیبلشمنٹ نامی ساس کے ہاں گروی رکھ چھوڑے۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری ٹی وی نے ایک منتخب وزیر اعظم کی تقریر سنسر کر دی۔ اب سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ پاناما عملدر آمد بنچ جو بھی فیصلہ دے لیکن منہ زور ساس یہ چاہتی ہے کہ بہو اپنی خواب گاہ تک محدود ہو جائے اور اپنی فیورٹ گلوکارہ لتا منگیشکر کے گانے سنتی رہے:
اے ہوا یہ بتا، اے گھٹا یہ بتا، کیا تجھے ہے پتہ 
اب کے جو ساون برسے گا وہ ساون کیسا ہو گا؟
(فلم ''غضب‘‘ 1982ء نوازشریف کی فیورٹ گلوکارہ، لتا منگیشکر)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں