یومِ شہدائے بہاولپور

آج یوم شہدائے بہاولپور ہے۔ 17 اگست 1988ء کا عظیم قومی حادثہ بھی انہی حادثوں جیسا بنا دیا گیا ہے جن کی تسلی بخش تحقیقات نہیں ہو سکیں۔ کیوں نہیں ہو سکیں یہ سوال میں خود سے بھی پوچھ رہا ہوں اور شہداء کے چاہنے والے مجھ سے پوچھتے ہیں۔ مجھے کوئی جواب ملا ہے اور نہ میں سوال کرنے والوں کو کوئی تسلی بخش جواب دے پایا ہوں۔ ہاں‘ کچھ اطمینان ضرور ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور وہ سب سے بڑا کارساز ہے‘ وہ رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے اور منصفِ اعلیٰ بھی! ایک دن ضرور آئے گا جب بستی لال کمال ضرور گواہی دے گی کہ سازش کہاں ہوئی؟ شہدائے بہاولپور اور شہید جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت کے واقعے کو آج 34 برس گزر چکے ہیں۔ اس حادثے سے چونکہ میرا ذاتی تعلق بھی ہے لہٰذا ہر روز جب صبح بیدار ہوتا ہوں تو آسمان پر ضرور نظر ڈالتا ہوں کہ شاید یہی وہ دن ہو جو شہدائے بہاولپور کی شہادت سے متعلق حقائق سامنے لانے والا دن بنے۔
جب ہم شہید ضیاء الحق کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ایک جانب افغانستان میں ملنے والی فتح نظر آتی ہے اور دوسری جانب سری نگر سے آزادی کے لہراتے ہوئے پرچم بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ کابل ہو یا سری نگر‘ دونوں کا پاکستان کے حوالے سے سوچنا ایک زمینی حقیقت ہے اور نظریاتی تعلق بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور کشمیر ہماری شہ رگ، لہٰذا یہاں کے معروضی حالات کا پاکستان پر اثر انداز ہونا فطری بات ہے۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق کو نامساعد حالات کے باعث ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تھا۔ اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کی ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام نے اس اقدام کو خوش آمدید کہا تھا اور مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت پاک امریکہ تعلقات کشیدہ اور پیچیدہ سطح پر تھے‘ ایسے میں سوویت روس کا کابل پر چڑھ دوڑنا پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھا؛ اگر اس وقت سوویت یونین کو نہ روکا جاتا تو کیا ہوتا؟ لازمی طور پر روس کی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان بھی بنتا کیونکہ افغانستان سے ملحق صوبوں میں بھارت بے تحاشا پیسہ پھینک رہا تھا اور مشرقی پاکستان کے بعد یہاں بھی مہم جوئی کرنا چاہتا تھا۔ بھارت جب پاکستان کی سلامتی سے متعلق مذموم منصوبہ بنا رہا تھا تو جنرل صاحب نے پہلے کلدیپ نائر کے ذریعے بالواسطہ پیغام دیا مگر جب بھارتی عزائم کی انگڑائی ختم نہ ہوئی تو کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے وہ خود بھارت چلے گئے اور راجیو گاندھی کو براہ راست سخت پیغام دیا کہ بس! بہت ہوگیا۔ یہ ملفوف دھمکی بھارت کو اس وقت دی گئی جب ہمارے پاس سب کچھ تھا، مگر ہم خاموش تھے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ روس کے حملے کے بعد افغان اپنے ملک کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جو لاچار اور نادار تھے‘ وہ مہاجرین کی صورت میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے والے مہاجرین کی تعداد 35 لاکھ سے زائد تھی۔ جنرل ضیاء الحق کا جذبۂ ملی افغان مہاجرین کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ یہاں پر ایسی اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا گیا اور مہمان نوازی نبھائی گئی کہ اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکے گی۔ یہی وہ بات ہے کہ افغان ہمیشہ محمد ضیاء الحق شہید کو یاد رکھتے ہیں۔ افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کی ٹیم‘ جسے وہ اپنے رفقائے کار کا نام دیا کرتے تھے‘ کا کردار، حکمت عملی، دانش مندی اور تزویراتی تدبرکبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
محمد ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ بطور فوجی اور سپہ سالار ایک منجھے ہوئے مدبر کی حیثیت سے سوویت افغان جنگ میں انہوں نے افغانوں کی بھرپور مدد کی اور انمٹ نقوش چھوڑے۔ عالمی برادری نے ایک بڑی سپر پاور کو افغانستان میں دفن ہوتے دیکھا۔ یہ سب کچھ محمد ضیاء الحق شہید نے اس وقت نبھایا جب وطن عزیز سقوطِ ڈھاکہ کے بعد معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم اور مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ 1979ء میں جب سوویت فوج نے افغانستان میں جارحیت کی تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی مدد کرنی چاہیے۔ اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جنرل صاحب نے جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک رسائی سے روکنا پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ افغانستان میں ہزاروں کلومیٹر تک پھیلے محاذِ جنگ کی نگرانی اہم فریضہ تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب محمد ضیاء الحق اپنی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے۔ ایک مسلم جرنیل ہونے کے باعث عالم عرب میں وہ ایک ہیرو کے طور پر پسند کیے جاتے اور لوگ ان سے والہانہ جذبات رکھتے تھے۔ یقینا افغان قوم کو سوویت پنجۂ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کام ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کا کریڈٹ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے کمانڈروں کو جاتا ہے۔ صدر ضیاء الحق نے ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک سوویت جارحیت کا مقابلہ کیا۔ یہ یقینا ایک اعتبار سے کابل کا نہیں‘ اسلام آباد کا دفاع تھا کیونکہ اگر خدانخواستہ روس اپنے عزائم میں کامیاب ہو جاتا تو آج اس خطے کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ اُس وقت خطے کے حالات نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا اور وہ کشیدہ صورتحال ماضی کا قصہ بن گئی جو 1977ء میں جنرل صاحب کے زمام اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔ ان حالات نے بھارت کو خاصی تشویش میں مبتلا رکھا کیونکہ پاکستان افغان پالیسی کے باعث عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا تھا۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملہ فہم‘ زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار کی قیادت میں پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ تقریباً سبھی مسلم حکمران بھی اس وقت پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے لہٰذا کسی نے بھی بھارت کی آہ و بکا‘ واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ پروقار اور دھیمے انداز میں پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتا رہا۔
17 اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونے والے C-130 طیارے کے وہ سب سوار اور سالار اور ان کے قریبی رفقائے کار ایک گہری سازش کے ذریعے فضائی حادثے میں شہید کر دیے گئے۔ محمد ضیاء الحق کی شہادت پر مسلم دنیا کی تمام اہم سیاسی و ادبی شخصیات نے تعزیت کی اور سبھی ممالک کے سربراہوں نے تعزیتی پیغام بھجوائے۔ مشہور تجزیہ کار بروس رائیڈل اس حوالے سے لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا‘ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم (امریکہ) نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ تو یہ مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا جس نے کامیاب حکمتِ عملی سے اس جنگ کو آگے بڑھایا۔
تاریخ کی ایک اور گواہی بھی ہے‘ ضیاء الحق گیارہ سال اقتدار میں رہے، کبھی کسی کوذاتی رنجش کی بنیاد پر طاقت و اختیار کی گرم سلاخ پر کھڑا نہیں کیا، پورے دور میں بھٹو صاحب کے بارے میں ان کا کوئی قابلِ اعتراض جملہ ریکارڈ پر نہیں ہے، صرف یہ جملہ ملتا ہے ''مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا‘‘۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا، لیکن چند ماہ قبل کیا ہوا؟ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے وقت کارکنان جنرل صاحب کے مزار پر توڑ پھوڑ کرنے لگے۔ کوئی گلہ نہیں! گلہ تو ان سے ہے جن کے لیے جنرل صاحب نے کہا تھا کہ میری عمر بھی ان کو لگ جائے۔ وہ خود اور ان کی پوری جماعت مزار کی بے حرمتی پر نہ صرف خاموش رہی بلکہ ذمہ داران کے پہلو میں بیٹھ کر ملک کو سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم کرنے کے منصوبے بناتی رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں