حیرت ہے ان لوگوں پر جن کے سامنے مریض سر درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہے اور وہ اتنا بھی نہیں سمجھ رہے کہ پینا ڈول کی دو گولیاں دینے کی دیر ہے اور مریض بھلا چنگا ہو جائے گا! اتنا آسان، اتنا تیر بہدف علاج! کیوں نہیں دے رہے؟ دیکھ رہے ہیں! دیکھے جا رہے ہیں! کرتے کچھ نہیں!
یہی صورت حال آج ملک کی ہے! ملک مسائل کے انبار میں گھرا ہے۔ عوام پراگندہ خاطر ہیں۔ مضطرب ہیں! مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ چینی مافیا نے قیمت دو گنا کر دی ہے! آٹا مہنگا ہو گیا! پٹرول کی قیمت ساتویں آسمان پر جا پہنچی۔ دوائیں دو سو چونسٹھ گنا زیادہ گراں کر دی گئیں۔ غریب کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی ہانڈی پوری کرنا عمودی پہاڑ پر چڑھنے کے مترادف ہو چکا۔ علاج اس کمر توڑ مہنگائی کا آسان ہے مگر افسوس! دیکھ رہے ہیں! دیکھے جا رہے ہیں! اور کرتے کچھ نہیں!
عورتیں شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عابد پکڑے نہیں جا رہے! اجتماعی زیادتی کے سانحے پے در پے ہو رہے ہیں۔ لاہور ریلوے سٹیشن کی بغل میں، نو لکھا بازار میں دن دہاڑے ایسا ہی سانحہ پیش آیا۔ مال محفوظ ہے نہ عزت اور جان تو کیڑوں مکوڑوں کی زیادہ قیمتی ہے بہ نسبت انسانی جان کے۔ اندرون ملک کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ خود وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ ہفتے ایک بہت ہی سینئر افسر کے سرکاری گھر میں ڈاکو گُھس کر، گن پوائنٹ پر سب کچھ لوٹ لے گئے۔ ہر سیکٹر کے اپنے الگ گینگ ہیں۔ یہ ایف الیون سیکٹر کو لوٹنے والا گینگ ہے تو یہ ای الیون سیکٹر کا ہے ! غیر ملکی گینگ الگ دندناتے پھر رہے ہیں۔
علاج اس صورت حال کا بھی مشکل نہیں۔ آسان ہے! بہت ہی آسان! مگر کسی کے ذہن میں آ ہی نہیں رہا۔
معیشت کی تباہی کے باوجود غیر ترقیاتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے وعدے کیے تھے کہ کابینہ کی تعداد محدود رکھیں گے مگر خصوصی معاونین ہیں کہ آئے جا رہے ہیں‘ اور مسلسل لائے جا رہے ہیں۔ کراچی الیکٹرک سے فارغ ہونے والے صاحب توانائی کے معاون بنا دیے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہر وزیر کے ساتھ کئی معاون اس کی نگرانی کے لیے مامور کیے جا رہے ہیں تا کہ کل کلاں اسے دھر لیا جائے تو گواہ موجود ہوں کہ بقول شاعر:
نہ ہو اپنے عمل سے کل مجھے انکار کی جرأت
رہے دو دو فرشتے ہمرکاب اوّل سے آخر تک
کورونا پھر سر اٹھا رہا ہے۔ تین سو کیسز سے معاملہ پھر چھ سات سو نئے کیسز روزانہ تک پہنچ گیا ہے۔ احتیاط کی سطح گر رہی ہے۔ لوگ پروا نہیں کر رہے۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ مصافحے اور معانقے مسلسل ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ الگ بیمار پڑے ہیں۔ ان کی بیماری عالمی معیشت کو متاثر کرنے لگی ہے۔ ہمارے پاس اس بیماری کا علاج موجود ہے مگر افسوس ناک حیرت ہے کہ ہم علاج نہیں کر رہے۔ صدر ٹرمپ کو ہم ایک دن میں تندرست کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو امریکی قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہماری مرہون احسان ہو جائے مگر ہم ہیں کہ اس سنہری موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
کراچی الگ مسائلستان بنا، ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ کچرا نہیں اٹھایا جا رہا۔ بارش ایک دن ہو تو بجلی کئی دن کے لئے غائب ہو جاتی ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹیوں کی باہمی مخاصمت نقصان پہنچا رہی ہے‘ دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہیں رہتیں۔ اس کراس فائرنگ میں عوام مارے جا رہے ہیں۔ اس کا بھی حل موجود ہے‘ مگر ہم اس طرف شاید جانا نہیں چاہتے۔
بین الاقوامی صورت حال الگ مخدوش ہے۔ آذر بائیجان آرمینیا کی ننگی جارحیت کے مقابلے میں اپنا دفاع کر رہا ہے جس کا اسے پورا پورا حق حاصل ہے۔ عربوں اور ان کے ہمسایوں کے باہمی جھگڑے امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عراق اور شام میں برپا خانہ جنگیاں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ یمن میں دونوں طرف مسلمان ہی پِس رہے ہیں۔ مسلمان ہی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ فرانس کے صدر نے ایک عجیب و غریب پالیسی بیان دیا ہے جس کی رُو سے، بقول اُن کے، ''بنیاد پرست‘‘ اسلام کی مخالفت کی جائے گی۔ بھارت میں ایک ذہنی معذور قسم کا مسلمان دشمن شخص حکومت چلا رہا ہے‘ جس کا مقصد ہر لحاظ سے مسلمانوں کو ختم کرنا ہے۔ امیت شاہ اور ادتیا ناتھ جیسے سانپ اس کے دائیں بائیں پھنکار رہے ہیں۔ کشمیر پر بد ترین سامراج قابض ہے۔ لاکھوں فوجی عوام کی آواز دبانے کے لیے تعینات ہیں۔ آسام کے مسلمان ظلم تلے کراہ رہے ہیں۔ چین کے خلاف بھی بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ افغانستان کے حالات غیر یقینی ہیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان حقیقی معنوں میں کوئی افہام و تفہیم ہوتی ہے یا نہیں۔ امریکہ کے انخلا کے بعد کیا منظر سامنے آئے گا؟ انخلا ہوتا بھی ہے یا نہیں؟
ان کے علاوہ بھی ہزار مسائل ہیں جو ہمیں اور باقی دنیا کو درپیش ہیں۔ گلوبل وارمنگ منہ کھولے سامنے کھڑی ہے۔ گلیشئر پگھلتے جا رہے ہیں۔ پینے کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ افریقہ میں بھوک آدم کے لاکھوں بیٹوں کو ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل کر رہی ہے۔ ماحولیات کا مسئلہ چیلنج بن چکا ہے۔ کروڑوں ٹن گندگی دریاؤں کے راستے سمندروں میں گر رہی ہے اور آبی مخلوقات کی زندگیوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
ان سب مسئلوں کا حل ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ لندن میں بیٹھے ہوئے سیاست دان کو واپس بلایا جائے۔ جتنے بھی قومی مسائل اور جتنی بھی بین الاقوامی الجھنیں ہیں ان کا حل یہی ہے۔ اس سیاست دان کو کسی نہ طرح واپس لائیے پھر دیکھیے مہنگائی سے لے کر عورتوں کے عدم تحفظ تک، اور افغانستان سے لے کر آذر بائیجان تک ہر چیز ٹھیک ہوتی ہے یا نہیں۔ ٹرمپ کی صحت سے لے کر گلوبل وارمنگ تک ہر ایشو اسی وجہ سے اٹکا ہوا ہے؛ تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس نسخۂ کیمیا کا ہماری حکومت کو بدرجہ اتم علم ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر تشکیل دی گئی خصوصی پولیٹیکل کمیٹی کے اجلاس میں اس پر غور و خوض کیا گیا۔ وفاقی وزرا نے اس ضمن میں اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ ظاہر ہے برین سٹارمنگ بھی ہوئی ہو گی۔ آخر میں بلند ترین سطح پر ہدایت کی گئی کہ کوئی دقیقہ اس سلسلے میں فروگزاشت نہ کیا جائے اور واپس لانے کے لیے ہر ممکن کارروائی کی جائے۔
مگر کیا یہ انصاف ہے کہ جس کام میں پوری دنیا کی فلاح مضمر ہے اس کے لیے ساری کوششیں صرف پاکستان کرے؟ کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ لحظہ بہ لحظہ کم ہو رہا ہے؟ کیا کرۂ ارض تباہی کے دہانے پر نہیں کھڑا؟ تو پھر ساری قوموں اور سارے ملکوں کو اس حل کی، اس واحد حل کی فکر کرنی چاہیے! دنیا بھر کی سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کو، عالمی میڈیا کو، اقوام متحدہ کو، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کو، حکومتوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی کہ یہ سیاست دان لندن سے پاکستان واپس پہنچے۔ ایسا نہ ہو کل، آنے والی انسانی نسلیں آج کی دنیا کو معاف نہ کریں۔ رہے ہم اہل پاکستان تو ہمیں پورا یقین ہے کہ جیسے ہی اس مجرم کے پاؤں اس دھرتی پر پڑیں گے چینی کا نرخ واپس پچاس روپے پر آ جائے گا۔ تھانے کچہری میں انقلاب آ جائے گا۔ خواندگی کا تناسب سو تک پہنچ جائے گا۔ نوکریاں، مکان سب وعدے پورے ہو جائیں گے۔ ہم پاتال سے اٹھیں گے اور بام ثریّا پر ہوں گے۔