کبھی کبھار تو آپ کو سرکاری دستاویزات دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا کہ جو آپ پڑھ رہے ہیں واقعی وہی بات ہے یا آپ کی آنکھوں کو دھوکا ہوا ہے۔
ہر دفعہ سوچتے ہیں کہ اب کوئی بم شیل آپ کو حیران نہیں کر سکے گا اور ہر دفعہ آپ غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اس ملک میں حکمرانوں نے جو طوفان اٹھایا اور انہیں اپنے اپنے حصے کے لوگ مل گئے جو ان کی کرپشن اور نقصان کا دفاع کرتے ہیں‘ وہ اب بڑی حد تک ڈھیٹ ہو چکے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ کچھ بھی کر لو‘ اس قوم کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پوری قوم نے اپنی مرضی کے لٹیرے چُن رکھے ہیں جن کا دل وجان سے یہ سب دفاع کرتے ہیں بلکہ ان جیسا بننا چاہتے ہیں اس لیے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں ایک شاندار صحافی سہیل اقبال بھٹی کے پروگرام میں شریک تھا ۔اس نوجوان نے پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کی پروازوں پر جو عمران خان کے دور میں بین لگا تھا‘ کے بعد کی جو دردناک کہانی بیان کی اسے سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں غلام سرور خان‘ جو اس وقت امورِ ہوا بازی کے وفاقی وزیر تھے‘ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں پر پائلٹ بھرتی ہوئے اور بڑی تعداد میں ایسے پائلٹ ہیں جن کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ انہی دنوں کراچی میں پی آئی اے کا ایک طیارہ کریش ہوا تھا۔ انکوائری ہوئی اور وزیر نے اچانک پارلیمنٹ میں ایسا بیان دیا جس سے پورا پاکستان بلکہ پوری دنیا حیران تھی۔ فوری طور پر یورپی یونین اور برطانیہ نے پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی لگا دی۔ یوں ساڑھے چار سال تک یورپی یونین اور برطانیہ کے جو منافع بخش روٹس تھے‘ وہ غلام سرور خان کے بیان کے نتیجے میں کینسل کر دیے گئے۔ اب پتا چلا ہے کہ پی آئی اے کو 220 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
2020ء میں ایک صاحب طارق اسد نے پٹیشن فائل کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ صرف قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ جو پروفیشنل پائلٹس تھے‘ جن کی ڈگریاں ٹھیک تھیں اور ٹریننگ بھی حاصل کی تھی‘ سب کی ساکھ کو خطرے سے دوچار کر دیا گیا‘ پی آئی اے کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا گیا‘ لہٰذا غلام سرور خان کو نااہل قرار دیا جائے ۔ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ اگر کسی وزیر نے ملک کے مفاد کے خلاف کوئی بیان دیا تو وفاقی کابینہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ اُس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس پر کارروائی کرتے۔اب شہباز شریف حکومت کو خیال آیا کہ پی آئی اے کو بڑا نقصان ہوا‘ ملک کی ساکھ بھی متاثر ہوئی‘ ہمیں اس معاملے کو کسی انجام تک لے کر جانا چاہیے۔ یوں وزارتِ قانون نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایک سمری پیش کی جس میں چار سفارشات کی گئیں کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ غلام سرور خان نے انتہائی عجلت میں جو بیان دیا اس کی کیا وجوہات تھیں؟ اس سے ملک اور ادارے کو کیا نقصان پہنچا؟ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی قائم کرکے‘ تحقیقات کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پچھلے دنوں جب یہ سمری کابینہ میں پہنچی تو وہاں بڑی بحث ہوئی۔ کچھ وزیروں نے کہا کہ ہمیں ان چار میں سے دو سفارشات کو‘ جو ذمہ داروں کے تعین اور ان کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق تھیں‘ نہیں چھیڑنا چاہیے کیونکہ ہم نے پی آئی اے کی نجکاری بھی کرنی ہے۔ انٹرنیشنل روٹس پر فلائٹس ابھی بحال ہوئی ہیں‘ اگر ہم ذمہ داروں کے پیچھے گئے تو مسئلہ ہوگا۔ کابینہ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2020ء میں جب غلام سرور خان نے بیان دیا تھا اُس وقت سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے کے مابین خوفناک قسم کی لڑائی چل رہی تھی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اعلیٰ حکام نے وفاقی وزیر کو مس گائیڈ کیا یا اُن کو ٹھیک سے بریف نہیں کیا یا اُن کے کان بھرے۔ اس کے بعد غلام سرور خان نے وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کی اور ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے کہا: ٹھیک ہے‘ آپ جائیں اور پارلیمنٹ میں بات کریں۔ یوں پارلیمانی فلور پر اتنی بڑی بات کر دی گئی۔ اب وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کے کچھ ارکان نے اس تجویز کی مخالفت کی کہ ذمہ داری فکس کی جائے بلکہ کہا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی نہ کی جائے۔ صرف اتنا تعین کر لیا جائے کہ نقصان کتنا ہوا اور سرور خان کے بیان کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ شہباز شریف کی کابینہ نے ان چار میں سے دو سفارشات پر عملدرآمد کیلئے وزیردفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی بنائی ہے جو مارچ میں اپنی رپورٹ دے گی۔لیکن 220 ارب کا جو نقصان ہو چکا اس نقصان کے بارے کہا گیا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں اور نہ ہی ذمہ داری فکس کریں‘ بس باقی دو چیزوں کا تعین کر کے معاملہ نمٹا دیں۔
میں نے یہ سب سُن کر کہا کہ شہباز شریف کا کسی نے 220 روپے کا بھی نقصان کیا ہوتا تو انہوں نے ایف آئی اے کے ذریعے بندہ اٹھوا لینا تھا۔ خواجہ آصف کے کسی نے 220 روپے دینے ہوتے اور وہ نہ دیتا تو خواجہ صاحب نے اس کا جینا حرام کر دینا تھا۔ اس کابینہ اجلاس میں جو وزیر بیٹھے تھے‘ ان کے کسی نے اربوں‘ کروڑوں چھوڑیں چند لاکھ بھی دینے ہوتے تو کیا پھر بھی فیصلہ یہی ہوتا؟ شہباز شریف سے لے کر اُن کے وزیروں تک‘ سب کو لگتا ہے کہ یہ 220 ارب روپے ہماری جیب سے نہیں گئے‘ عوام اور ملک کا پیسہ تھے۔ نقصان ہو گیا تو ہو گیا‘ کون سا ہماری جیب سے گیا ہے۔
اگر آپ غور کریں تو شہباز شریف اور ان کے وزرا اس فارمولے پر چل رہے ہیں کہ کل کو اُن کی مخالف جماعتیں اگر حکومت میں آئیں تو کوئی اُن کے سکینڈلز بھی نہ پکڑے۔ کل کو ہمیں جیل میں نہ جانا پڑے‘ اپنے آج کے دورِ حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے۔ یہ سب اپنی فیوچر پلاننگ کر رہے ہیں کہ اگر آج ہم نے ان نقصانات اور سکینڈلز پر سابقہ حکمرانوں یا بیورو کریسی کو جیلوں میں ڈالا اور کچھ لوگوں پر بھاری جرمانے اور ریکوریاں کر لیں توکل کو ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا‘ لہٰذا ہم ایسا قدم کیوں اٹھائیں؟ شہباز شریف اور وفاقی وزرا یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ ان کا ذاتی پیسہ نہیں ملک و قوم کی امانت تھا۔ آپ انہیں ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ان پر 220 ارب کا نقصان ثابت ہو چکا‘ پی آئی اے کی ساکھ تباہ ہوئی‘ دنیا بھر میں ہم نے گالیاں بھی کھا لیں اور اب آپ کہہ رہے کہ کچھ نہ کریں‘ چپ رہیں۔ وہی بات جو عمران خان کہتے تھے کہ کسی کے باپ کا پیسہ ہے جو بھول جائیں۔
کابینہ یہ فیصلہ کیسے کر سکتی ہے کہ بھول جائو کہ 220 ارب کا نقصان کیسے ہوا ۔ شہباز شریف خود جیلوں میں رہے ہیں‘ اُن پر منی لانڈرنگ کے بھی کیسز تھے۔ اکثر وزیروں کے خلاف بڑے مقدمے تھے‘ تو کیا اب اس وجہ سے انہیں کوئی جرم‘ جرم ہی نہیں لگتا؟ جب اقتدار میں ایسا حاکم ہو جس کا اپنا گھر صاف ہو تو ہی وہ سخت فیصلہ کر سکتا ہے۔ جب وزیراعظم خود سکینڈل زدہ ہو‘ کابینہ کے اکثر وزرا سکینڈل زدہ ہوں ‘ نیب زدہ ہوں‘ نیب قوانین بدلنے کے بعد آپ نے کلین چٹیں لی ہوں تو پھر آپ کے اندر اخلاقی جرأت نہیں ہوتی۔ اس فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں یہ حکمران خود چونکہ اس قسم کے کیسوں میں ملوث رہے ہیں‘ لہٰذا 220 ارب کا نقصان انہیں نقصان ہی نہیں لگتا۔ ہاں ان کی مل کا کوئی ملازم ایک گلاس بھی توڑ دے تو یہ لوگ اس سے اس گلاس کی بھی ریکوری کروا لیں گے۔ اپنا ایک روپیہ نہیں چھوڑتے لیکن ملک کے 220 ارب روپے جائیں بھاڑ میں۔