وہی پرانا کھیل‘وہی ذہنی ناپختگی ‘ وہی غدار غدار کا نعرہ! ہم جہاں مدتوں پہلے کھڑے تھے ‘ آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ وہی ٹیکنیک۔ گاؤں کے دو افراد جب آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے ایک دوسرے کو یہ ضرور کہتا ہے کہ تم نے فلاں دن چوہدری صاحب کے بارے میں یہ کہا تھااور یہ کہ میں چوہدری صاحب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ زمانہ کئی کروٹیں لے چکا‘ہم میں رمق بھر تبدیلی نہ آئی۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا۔
آج بھی صید گہہ عشق میں حُسنِ سفّاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجیے۔ کس کس پر غداری کا لیبل نہیں لگا۔ بد ترین مثال ہماری تاریخ میں مشرقی پاکستان کی ہے۔ پہلے ان کے حقوق غصب کیے۔ ان کی عددی برتری کو نام نہاد برابری ( پیریٹی ) میں بدلا۔ ان کے کمائے ہوئے فارن ایکسچینج سے انہیں محروم رکھا۔ ان پر حکومت کرنے کیلئے یہاں سے لوگ بھیجے۔ پھر جب وہ انتخابات جیت گئے تو انہیں حکومت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جب رد عمل آیا تو جواب آسان تھا۔ گھڑا گھڑایا ‘ ہمیشہ سے تیار۔ غدار ہیں۔ ہندوؤں کے زیر اثر ہیں۔یہ وہی '' غدار‘‘ تھے جو تحریکِ پاکستان کی جنگ میں اگلی صفوں میں کھڑے تھے۔ وہاں کوئی جماعت قیام پاکستان کی مخالف نہ تھی۔ وہاں کسی نے قائد اعظم کو کافر اعظم نہ کہا۔ حیرت ہے کہ الجزائر میں الیکشن جیتنے والوں کو حکومت نہ ملے ‘ یا مصر میں انتخابات جیتنے والی حکومت کو کچل دیا جائے تو ہم سڑکوں پر نکل آتے ہیں‘ مگر خود ہم اپنے ہی ایک حصے کو‘ اپنی ہی اکثریت کو‘ الیکشن جیتنے پر اس کے بنیادی حق سے محروم کریں تو ہمارا اقدام درست ہوتا ہے اس لیے کہ فریق ثانی غدار تھا۔
کبھی ولی خان کو غدار کہا گیا‘ کبھی اعتزاز احسن پر الزامات لگے۔ پھر جب اپنا فائدہ تھا تو انہی کو حکومت میں بھی شامل کر لیا گیا۔ گویا ایک دوسرے کو غدار قرار دینا روٹین کے سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ گویا یہ ایک معمول کی کارروائی ہے جو حسبِ ضرورت کر لینی چاہیے۔ کل کے غدار آج کے محب وطن۔ آج کے محب وطن کل کے غدار! یعنی
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا لیا‘ اسے جو بھی چاہا بنا دیا
کبھی ہم کسی کو کافر بنا دیتے ہیں‘ پھر جب فائدہ نظر آئے تو اسی کے پیچھے نماز ادا کر لیتے ہیں۔ کوئی مسلمان شان ِرسالت میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر ہم یہ الزام (معاذ اللہ) اتنی آسانی سے لگا تے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ بھارت کی یاری کا الزام بھی اتنا ہی عام ہے۔ کل پیپلز پارٹی والے جن کے خلاف '' مودی کا جو یار ہے‘‘ کے نعرے لگاتے تھے‘ آج انہی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ آج تحریک انصاف والے یہی نعرہ لگا رہے ہیں اور چشم فلک کل انہیں بھی ان کے ساتھ بیٹھا دیکھے گی۔ یہی ہوتا آیا ہے اور بد بختی کی انتہا کہ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
کوئی بہت ہی سیہ بخت پاکستانی ہو گا جو اپنی افواج کے خلاف ہو‘ مگر اب یہ الزام بھی عام ہونے لگا ہے۔ اپنے مفاد کیلئے افواج پاکستان کی آڑ لینا عقلمندی نہیں۔ ہمارے دو ہی تو اثاثے ہیں‘ آئین پاکستان اور افواجِ پاکستان۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاچن کی فلک بوس چوٹیوں سے لے کر افغان بارڈر کے بے رحم‘ بے آب و گیاہ‘ پہاڑوں تک اسی فوج کے جوان اور افسر مادرِ وطن پر قربان ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔اس فوج نے‘ ان مسلح افواج نے‘ پاکستان کی دھرتی کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔چونڈہ سے کے کر کارگل تک شجاعت و ایثار کی ایک ایسی تاریخ پھیلی ہے جس کی مثال دنیا میں کم ہی ہو گی۔ پاکستان کی مسلح افواج نہ ہوتیں تو مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی حیثیت بھارت کے سامنے وہی ہوتی جو سکم اور بھوٹان کی ہے۔ یہ پاکستانی افواج ہیں جنہوں نے بھارتی توسیع پسندی کو لگام دے رکھی ہے ورنہ ہندو سامراج برصغیر کا بارڈر کراس کرچکا ہوتا۔
سیاسی سکور بڑھانے کیلئے اپنی افواج کا نام استعمال کرنا نرم ترین الفاظ میں بھی ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ اسے فوج دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اپنی لڑائی خود لڑیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح سیاسی مخالفین پر فوج دشمنی کا الزام لگایاجا رہا ہے اسے خودفوج آخر کس طرح پسند کر سکتی ہے؟ وہ اپنی بلند حیثیت کو متنازع بنانے کی اجازت کبھی نہیں دے گی۔ اور اس کی حیثیت متنازع ہے بھی نہیں۔ آصف زرداری سے لے کر نواز شریف تک‘ مولانا فضل الرحمن سے لے کر سراج الحق تک‘ عمران خان سے لے کر شہباز شریف تک کوئی بھی افواج پاکستان کامخالف نہیں ہو سکتا۔ کسی کی حب الوطنی کوچیلنج نہیں کیا سکتا۔ کل تحریک انصاف نے سوات آپریشن کی مخالفت کی تھی تو کیا ہم اس اختلاف رائے کی بنیاد پر فوج دشمنی کا الزام لگا دیں ؟ نہیں! اختلاف رائے ایک مختلف حقیقت ہے۔ اختلاف کو اختلاف ہی رہنے دیجیے۔ اسے دشمنی کا نام نہ دیجیے۔ ایسے نظائر قائم نہیں کرنے چاہئیں جو کل ہمارے اپنے خلاف استعمال ہوں۔ شیخ رشید اور گجرات کے چودھریوں کے متعلق تحریک انصاف کی آرا ریکارڈ پر ہیں مگر آج دونوں اس کی حکومت کا اہم حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کل جنہیں قاتل لیگ قرار دیا تھا بعد میں وہ اس کی حکومت کے اجزا بنے۔کیا عجب چشم فلک کل تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو کسی اور کے سامنے متحد دیکھے۔ کل مسلم لیگ والے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ بعد میں معافیاں مانگتے پھرے۔ آج کی بر سر اقتدار جماعت کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور نوشتہ ٔدیوار پڑھ لینا چاہیے۔ مخالفت میں ایک حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کل کو آپ بھی معافی مانگتے پھریں۔ کہتے ہیں عجوبے دنیا میں آٹھ ہیں مگر سچ یہ ہے کہ دنیا خود سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ جسے شک ہو وہ اسرائیل اور عربوں کے تعلقات میں رونما ہونے والی ناقابلِ یقین تبدیلیوں پر غورکرلے اور سبق سیکھے۔ یہی دنیاہے جس نے شہنشاہ ایران کو در بدر ہوتے دیکھا‘ جس نے حسنی مبارک کو پنجرے میں بند دیکھا‘ جس نے صدام کو زیر زمین ایک سوراخ نما غار سے برآمد ہوتے دیکھا‘ معمر قذافی کا انجام کس کو بھولا ہو گا؟ رومانیہ کا ڈکٹیٹر چی سیسکو ہیلی کاپٹر پر ایک جگہ سے دوسری جگہ مارا مارا پھرتا رہا پھر پکڑ لیا گیا۔ کورٹ میں پیش کیا گیا تو رسیوں میں میاں بیوی جکڑے ہوئے تھے۔ پھر انہیں دیوارکے ساتھ کھڑاکر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان پر رونے والا بھی کوئی نہ تھا۔ جن کے اقتدار کے زمانے پچاس پچاس سال پر محیط تھے وہ بھی بالآخر تخت سے اترے اور تاج سے محروم ہوئے۔ قانون کی حکمرانی قانون پر چھوڑ دیجیے۔عدالتیں اپنا کام کریں اور نیب اپنا ! حکومت کو چاہیے کہ عوام کی مشکلات اور عوام کی ضروریات پر توجہ مرکوز کرے۔ چینی ‘ آٹے اور پٹرول کی قیمتیں کم کرائے۔ روزگار کے مواقع مہیا کرے۔ہاؤسنگ سیکٹر پر توجہ دے۔ جیل میں ڈالنے اور این آر او نہ دینے کے اعلانات میں ایک عام شہری کو آخر کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اس کا تو ایک ہی مسئلہ ہے۔
نظیر اکبر آبادی نے سیاست اور عوام کے اس مسئلے کو کمال پیرائے میں حل کیا ہے۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سےیہ مہر و ماہ‘ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سُن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں