اور وہ بھی سوچی سمجھی غلطی!

انسانی تاریخ انسان کی اپنی غلطیوں کا مجموعہ ہے، ایسی غلطیوں کا مجموعہ جس میں ہر موڑ پر سیکھنے کا پڑاؤ آتا ہے، لیکن یہ انسان ہی ہے جو اس پڑاؤ سے آنکھیں چرا کر نئی اور پہلے سے زیادہ تباہ کن غلطیوں کے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلی جنگ عظیم کو ہی لے لیں، جس نے زارروس، ترک عثمانیہ اور آسٹرو ہنگری کی تین عظیم سلطنتوں کو قصہ پارینہ بنادیا، اس جنگ میں ''عظیم ‘‘ فتح کے باوجود اتحادیوں نے پہلی جنگ عظیم میں ایسی کئی پہاڑ جیسی غلطیاں کیں، جوبعد میں ناصرف دوسری جنگ عظیم کا باعث بنیں بلکہ 10 کروڑ مزید افراد کی ہلاکت کا پیش خیمہ بھی بنیں۔ مثال کے طور پر مورخین متفق ہیں کہ ایک چھوٹی سطح کی لڑائی میں کود کر برطانیہ نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی۔ وہ سلطنت ِ برطانیہ جس کی زمین پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا، پہلی جنگ عظیم میں اُس کی مخالف سلطنتیں تو نیست و نابود ہوگئیں لیکن خود تاج برطانیہ کی عظمت کا سورج بھی آنے والی دو دہائیوں میں ڈوب گیا اوروسیع و عریض رقبے پر پھیلی اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت سکڑ کرانگلینڈ کے اُسی بل میں جاگھسی جہاں سے نکلی تھی۔ہارورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور مورخ نائل فرگوسن نے اپنی معرکہ الآرا تصنیف (The Pity of War) میں دلائل سے ثابت کیا کہ اگر برطانیہ اس جنگ سے باہر رہتا تو یورپ کو اس سے کہیں گنا زیادہ فائدہ ہوتا، جو برطانیہ کے جنگ میں شامل ہونے پر ہوا تھا۔
نائل فرگوسن کی ناقابل تردید حوالہ جات سے مزین اور مدلل کتاب سامنے آنے پر یورپ بالخصوص برطانیہ کے دانشوروں نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ سکاٹش ہونے کی بنا پر نائل فرگوسن پر برٹش دشمنی 
پر مبنی کتاب لکھنے کا الزام عائد کردیا گیا، جس کے جواب میں فرگوسن نے قوم پرست گوروں کی جانب سے دلائل کی بجائے کٹ حجتی سے کام لینے کو جنگ عظیم اول میں شمولیت سے بھی بڑی غلطی قرار دیا۔ نائل فرگوسن نے تو اپنی کتاب میں برطانیہ کی ایک سو سال پرانی غلطی کا رونا رویا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ آج بھی غلطی پر غلطی کیے چلا جارہا ہے۔برطانیہ کی نئی اور تازہ ترین غلطی لیبیا کے معاملے میں سامنے آئی ہے۔ اس غلطی کی نشاندہی کسی سکاٹش پروفیسر نے نہیں کی بلکہ اس غلطی کا بھانڈا برطانیہ کی اپنی پارلیمانی رپورٹ میں پھوڑا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں برطانیہ اور فرانس کی لیبیا میں اُس فوجی مداخلت پر سخت تنقید کی گئی ہے جس کے نتیجے میں 2011 ء میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ جب قذافی کی حکومت نے ایک بغاوت سے نمٹنے کی کوشش کی تو فرانس نے شہری آبادی کو لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ناقص انٹیلی جنس معلومات پر انحصار کرتے ہوئے لیبیا کے سیاسی اور معاشی انہدام کو تیز تر کر دیا۔حملے کے وقت برطانوی حکومت نے وہی پرانا عذر تراشا تھا کہ ''اِس کی فوجی کارروائی کا مقصد لیبیا کے عوام کو ملک کے آمر معمر قذافی سے بچانا تھا، لیکن برطانوی حکومت قذافی کی جانب سے شہری آبادی کو لاحق اصل خطرے کی تصدیق نہ کر سکی، کیمرون حکومت نے قذافی کی تقاریر کے کچھ حصوں کو حقیقت جان لیا اور وہ بغاوت میں شامل اسلامی شدت پسند عناصر کی نشان دہی کرنے میں ناکام رہی‘‘۔ ایک برطانیہ ہی کیا خود امریکی صدر باراک اوباما بھی لیبیا میں معمر قدافی کو 
معزول کرنے کے بعد کی صورت حال کی پیش بندی نہ کرنے کو اپنے عہدہ صدارت کی بدترین غلطی قرار دے چکے ہیں۔
عراق اور لیبیا تو وہ پھندے بن چکے ہیں جن میں پھنسنے کی وجہ سے امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی خود اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔برطانیہ او رامریکہ اپنی غلطیوں کا مدعہ غلط معلومات کے سر تو باندھتے ہیں لیکن غلط معلومات (انٹیلی جنس انفارمیشن) کی ذمہ داری امریکہ، برطانیہ اور اُن کے اتحادی اپنے اداروں کے سر نہیں تھوپتے بلکہ متعلقہ ممالک میں اپنے ''مخبرذرائع‘‘ کو ان غلط معلومات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔عراق اور لیبیا کو تو خیر چھوڑیے ،جن علاقوں اور خطوں میں ظلم اور ریاستی دہشت گردی کی معلومات ان بڑی طاقتوں کے اپنے ادارے اور خود اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے دے رہے ہیں،سوال یہ ہے کہ وہاں برطانیہ جیسے ممالک اپنی غلطیاں کیوں درست نہیں کرتے؟انہی علاقوں میں ایک علاقہ کشمیر بھی ہے، جہاںبھارتی مظالم کے خلاف دوماہ سے مسلسل احتجاج ہورہا ہے، لیکن بھارت اس احتجاج کو دو ماہ کے مسلسل کرفیو سے بھی دبا نہیں سکا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیریوں کی حقانیت کی گواہی ایک لاکھ سے زیادہ شہدا کا خون دے رہا ہے، کشمیر کی صداقت کی شہادت اپنے سہاگ سے محروم ہونے والی بیواؤں کی سسکیاں اور اپنے جگر گوشوں کو ہمیشہ کیلئے کھو دینے والے ماؤں کی آہ بکا دے رہی ہے، کشمیر پر امریکہ، برطانیہ اور اقوام عالم نے آنکھیں کیوں بند کررکھی ہیں؟
پرانی تاریخ کا کیا تذکرہ کرنا! کشمیر کی گزشتہ ستر دن کی ''تاریخ‘‘ ہی کیا کم ہے! بھارتی ریاستی دہشت گردی کے سبب اب تک ایک سو کے لگ بھگ بے گناہ کشمیری شہید ہوچکے ہیں جبکہ عمر بھر کیلئے معذور اور زخمی ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کو اپنے ذرائع سے مسلسل اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے خلاف قوت کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے نوٹس لیتے ہوئے ناصرف مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی حالیہ شہادتوں کی بین الاقوامی جانچ کو ضروری قرار دے دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی رسائی کی درخواست پر ہندوستان کی خاموشی پر تاسف کا بھی اظہار بھی کیا۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے مقبوضہ کشمیر کی مسلسل بگڑتی صورتحال کے پیش نظر وہاں آزاد، منصفانہ اور بین الاقوامی مشن قائم کرنے پر بھی زور دیا ہے، لیکن برطانیہ اور امریکہ کو کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی توفیق بھلا کہاں ہوگی؟
قارئین کرام!! لیبیا کے معاملے پر برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ ویتنام پر حملے کو اُن کے اتحادی اپنی سنگین غلطی مان چکے ، عراق پر حملہ کی غلطی کا اعتراف آپ کرچکے ہیں، لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے کو بھی آپ اپنی غلطی تسلیم کرچکے ہیں، افغانستان پر لشکر کشی کو آپ خود کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں سمجھتے، لیکن اس کے باوجود آپ شہروں کے شہر کھنڈرات بناکر غلطی پر غلطی کیوں دہرائے چلے جاتے ہیں؟ چلیں باقی علاقوں کی بات تو رہنے دیں، کشمیر کی صورت میں جن غلطیوں کے بیج برطانیہ ستر سال پہلے بو چکا ہے، اب وہاں سروں کی فصل کٹ رہی ہے تو برطانیہ جیسے ممالک اُس کی ذمہ داری لینے کو کیوں تیار نہیں؟ غلط معلومات پر لیبیا کا حشر نشر کرنے والے کیا اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اُسے نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے سے باز رکھ سکیں؟کوئی برطانیہ کی نئی وزیراعظم تھریسا مے کو سمجھائے کہ کہ اُس کے پیشرو ناکامیوں کا مدعہ اپنی غلطیوں کے سر تھوپ کر معافی مانگ چکے، لیکن اگر برطانیہ نے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اُس کے پاس معافی مانگنے کی گنجائش بھی نہیں رہے گی بلکہ اُسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا، کیونکہ کشمیر کو جنوبی ایشیا کا فلیش پوائنٹ بنانا برطانیہ کی ستر سال پرانی اپنی غلطی ہے اور وہ بھی سوچی سمجھی غلطی!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں