یہ چربہ فلم نہیں چلے گی!

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ فلمی دنیا میں ہالی ووڈ کے بعد بالی ووڈ کا بڑا نام ہے، بلکہ بہت سے حوالوں سے تو بالی ووڈ کو ہالی ووڈ پر سبقت بھی حاصل ہے۔مثال کے طور پر فلمی صنعت سے وابستہ افراد کو روزگار دینے میں بالی ووڈدنیا کا سب سے بڑا فلمی صنعتی مرکز ہے۔ 2014ء میں ہندی سینما نے 1969 فلمیں دیں، جن میں سے 252 فلمیں بالی ووڈ میں بنائی گئیں، صرف یہی نہیں بلکہ پانچ برس قبل کے اعدادوشمار کے مطابق 2011ء میں بالی ووڈ کی فلموں کی ساڑھے تین ارب ٹکٹیں فروخت ہوئیں، یہ تعداد اُسی سال ہالی ووڈ کی فروخت ہونے والی فلموں کی ٹکٹوں سے 9لاکھ زیادہ تھی، لیکن اس تمام سبقت اور برتری کے باوجود بالی ووڈ کی سالانہ کمائی محض 520 ملین ڈالر کے لگ بھگ رہتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہالی ووڈکی سالانہ کمائی گیارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایک بڑی فلمی انڈسٹری ہونے کے باوجود ہالی ووڈ سے ریونیو میں اس قدر پیچھے ہونے کی ایک وجہ بالی ووڈ میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کا فقدان بھی ہے، جہاں محنت کی بجائے اب چربہ سازی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ بالی ووڈ میں چربہ سازی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال ستر فیصد چربہ فلمیں تیار ہوتی ہیں اور سینما گھروں میں ایک ہفتہ بمشکل پورا کرکے واپس ڈبوں میں پیک ہوجاتی ہیں۔ اِن فلموں کی کہانی سے لے کر سکرپٹ، سکرین پلے، ڈائیلاگ، کریکٹرز، سیچوایشنز اور پوسٹرز حتی کہ کرداروں اور فلموں کے نام تک چربہ سازی کا ''شاہکار‘‘ نمونہ معلوم ہوتے ہیں۔ چربہ سازی کی اِسی کثرت کی 
وجہ سے اب ہالی ووڈ پر ''کاپی ووڈ‘‘ کی پھبتی بھی کسی جاتی ہے۔بالی ووڈ میں کتنی ''محنت اور محبت‘‘ سے چربے تیار کیے جاتے ہیں، اس کا اندازہ بھارت کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان کی 600 کروڑ روپے کا بزنس کرنے والی آخری کامیاب ترین فلم ''پی کے‘‘ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ فلم جب گزشتہ برس ریلیز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نئی دہلی ہائی کورٹ میں ایک بھارتی ناول نگار کی جانب سے درخواست دائر کردی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ فلم کا اسکرپٹ 2013ء میں شائع ہونے والی اُس کی کتاب ''فرشتہ‘‘ سے کاپی کیا گیا ہے۔
یہ چربہ سازی اگر فلمی دنیا تک ہی محدود رہتی تو شاید اتنی بڑی اور بری بات نہ ہوتی لیکن بھارت میں چربہ سازی کایہ رجحان اب سیاست، صحافت، سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ جس کی ایک مثال تو گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے اُڑی ہیڈکوارٹرپر ہونے والا حملہ ہے، جس میں اٹھارہ بھارتی فوجی مارے گئے اور متعدد زخمی بھی ہوئے۔ اس حملے کی ٹائمنگ اور حملے کے فوراً بعد بغیر کسی تحقیقات کے بھارتی میڈیا پر ہونے والا منفی پراپیگنڈا دیکھا جائے تو یہ بعینہ امریکہ کے ''نائن الیون‘‘ والے واقعہ کا چربہ معلوم ہوتا ہے، جس کے بارے میں ہزاروں ایسی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، جن میں مصنفین دلائل سے ثابت کرچکے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ امریکی سی آئی اے کی اپنی کارستانی تھی تاکہ اسے جواز بناکر افغانستان پر چڑھائی کی جاسکے۔ ضروری تو یہ تھا کہ اُڑی کے فوجی 
اڈے پر حملے کی وجہ بننے والی ''خامیوں‘‘ کی تحقیقات کی جاتی اور تجزیہ کیا جاتا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور خامیاں کہاں کہاں تھیں؟لیکن جیسے ہی یہ واقعہ ہوا، بالکل کسی فلم کی طرح اگلے سین میں پلک جھپکتے ہی بھارتی میڈیا نے ہڑبونگ مچاکر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔
اُڑی کے ڈرامے کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ آٹھ جولائی کوکشمیریوں کے ہیرو برہان مظفر وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد سے مقبوضہ کشمیر مسلسل سلگ رہا ہے۔ ڈھائی ماہ میں مسلسل کرفیو کے باعث کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو عید کی نماز ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ مزار اور جامع مسجد تک بند کر دی گئی۔ مقبوضہ وادی میں ظالم بھارتی فوجی کشمیری مظاہرین کے خلاف چھروں والے کارتوس استعمال کررہے ہیں، جس کی وجہ سے سات ہزار سے زیادہ لوگ نابینا اور زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارت کے اپنے ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں اب تک چھروں والے 13 لاکھ کارتوس استعمال کیے جاچکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا کمیشن تک اس ظلم پر چیخ اٹھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی شہادتوں کی بین الاقوامی جانچ انتہائی ضروری ہوچکی ہے۔
بھارتی فوج کا ظلم و ستم تمام حدیں پار کرچکا ہے اور کشمیر کی گلیوں، نالیوں اور چوراہوں میں کشمیریوں کا خون کسی ارزاں ترین جنس کی طرح بہہ رہا تھا۔ اس ظلم پر دنیا لعن طعن کررہی تھی اور بھارت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟ مقبوضہ کشمیر میں ایک سو سے زائد بچوں کو شہید، ہزاروں کو اندھا اور زخمی کرنے کے بعد دنیا میں کشمیر کے حوالے سے جو شور اٹھا تھا، اُسے دبانے کیلئے بھارت کیلئے اُڑی جیسا سین بہت ضروری ہوچکا تھا، جس میں ناصرف اِس خون ناحق کو چھپایا جاسکے بلکہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کیلئے بلند تر ہوتی آواز کو بھی دبایا جاسکے۔ اس لیے اُڑی کی فلم کو دیکھنے والا عام آدمی بھی یہ سمجھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ڈراما کس نے اور کیوں رچایا ہوگا؟ کیا اس کو محض حسن اتفاق قرار دیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اقوام عالم کی نمائندہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوںکا مقدمہ پیش کرنے سے چند روز پہلے اُڑی میں اٹھارہ فوجی ہلاک کردیے گئے؟ جی نہیں بالکل نہیں! یہ حسن اتفاق نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر رچایا جانے والا ڈراما ہے۔ اُڑی کا ڈراما لکھنے والے سکرپٹ رائٹرز سمجھتے تھے کہ جب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کی مظلوم جدوجہد پر عالمی توجہ دلائیں گے تو جواب میں بھارتی وزیر خارجہ اُڑی کے واقعہ کو دہشت گردی کی مثال بنا کر پیش کریں گے تو دنیا پاکستان کے مقابلے میںبھارت کی بات زیادہ دھیان سے سنے گی! لیکن اُڑی کا سین لکھنے والے چربہ ساز سکرپٹ رائٹرز کو یہ معلوم نہیں کہ زندگی فلم نہیں ہوتی کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی موڑ دے دیا جائے! 
قارئین کرام!! کوئی بھی نقاد بھارت کی اس ڈبہ ''فلم‘‘ میں موجود خامیوں کی بھرمار دیکھ کر ثابت کرسکتا ہے کہ اس میں جھول ہی جھول ہیں اور یہ ہالی ووڈ کی کاپی کی ہوئی چربہ فلم ہے۔ نائن الیون کی فلم اس لیے چل گئی کہ فلم کی ماسٹر کاپی کی طرح یہ ''ماسٹر فلم‘‘ تھی اور دوم یہ کہ امریکہ اُس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا، یہی وجہ ہے کہ جب نائن الیون کی فلم ''عالمی وارتھیٹر‘‘ میں چلائی گئی تو نقادوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح دب کر رہ گئی، لیکن اب یہ پندرہ برس پہلے کی دنیانہیں رہی ، جس میں امریکی ہاتھی کے پاؤں میں سب اپنا پاؤں دے دیں، اب یہ ڈیڑھ دہائی بعد کی آزاد ہوتی دنیا ہے، جہاں ایک جانب نئے عالمی اقتصادی بلاک بن رہے ہیں تو دوسری جانب نئی عسکری صف بندیاں ہورہی ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی یہ فلم اُٹھالیجیے مودی صاحب! بمبئی، سمجھوتہ ایکسپریس اور پٹھان کوٹ کی طرح آپ کی اُڑی کی فلم بھی ڈبہ فلم ثابت ہوچکی ہے!جدید دنیا میں اب یہ چربہ فلم نہیں چلے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں