کشمیریوں نے عمران خان کو ووٹ کیوںنہیں دیے؟

نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت بالآخر کشمیریوں کو اُس موڑ تک لے آئی ہے،جسے فیصلہ کن قرار دیا جاسکتا ہے اور جہاں کشمیریوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گرنے کا وقت اور مقام آگیا ہے۔ غلامی کی دیکھی ان دیکھی زنجیریں ٹوٹنے کا یہ مقام اور یہ وقت کشمیریوں کی تاریخ میں اتنی آسانی سے نہیں آیا بلکہ اِس کے پیچھے ایک لاکھ سے زیادہ معصوم کشمیریوں کے لہو کی قربانی موجود ہے۔ اِس منزل تک پہنچنے کے دوران ہزاروں خواتین کی عصمتیں تار تار ہوگئیں، دلہنوں کے سہاگ لٹے، ماؤں سے اُن کے جگر گوشے چھین لیے گئے، بہنوں کوبھائیوں کی محبت اور شفقت بھرے رشتے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم کردیا گیا اور وادی جنت نظیر کو ایک دہکتے ہوئے جہنم میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا۔ لیکن ظلم و جبر کے اِس لامتناہی سلسلے کے باوجود کشمیری استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ لاشیں، کرفیو، تشدد، جیلیں، عقوبت خانے، گولیاں، فائرنگ، خون، پیلٹنگ اور ظلم و ستم کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کے باوجود کشمیر میں آزادی کی آواز کو دبایا نہیں جاسکا۔اس کے برعکس ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ آزادی کی یہ آواز پہلے سے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ اور بلند آہنگ سنائی دی۔ وادی میں جدوجہد آزادی 2016ء میں داخل ہوئی تو کشمیری بچوں کے ہاتھوں میں پتھر، زبان پر بھارتی تسلط سے آزادی کے نعرے اور دل میں پاکستان سے محبت کا جذبہ موجزن تھا۔ اِسی جذبے کو لے کر نوجوان مجاہد برہان مظفر وانی نے جام شہادت نوش کیا تو کشمیری اپنی آزادی کی تحریک کے اُس موڑ پر آن پہنچے، جہاں نوشتہ دیوار اب بالکل سامنے لکھا نظر آرہا ہے ۔ یہ نوشتہ دیوار بجز اس کے کچھ نہیں کہ ''اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں‘‘۔ 
اپنے تو اپنے رہے، کشمیر کی آزادی کا یہ نوشتہ دیوار بجا طور پر اب خود بھارت کو بھی دکھائی دے رہا ہے، شاید اِسی لیے آخر شب کے بجھ جانے والے چراغ کی لو کی طرح بھارت کا ظلم بھی پوری شدت سے پھڑ پھڑانے لگا ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر میں اپنے اقتدار کے آخری دن دیکھتے ہوئے اپنے اِس ناگزیر انجام سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن تقدیر کے لکھے کی طرح اِس ہونی کو اب کوئی بھی نہیں روک سکتا کیونکہ بھارت کے غاصب حکمران کشمیر کو مٹھی میں بند ریت کی طرح ریزہ ریزہ پھسلتا دیکھ رہے ہیں۔ کشمیری اس قید سے رہا ہوکر رہیں گے اور آخر میں بھارت ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ کرسکے گا۔ آج بہت سے لوگوں کو یہ دیوانے کی بڑ لگے، لیکن یہ لوگ بہت جلد کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھ لیں گے۔
کشمیرکی آزادی اس لیے بھی ممکن ہونے جارہی ہے کہ سات لاکھ بھارتی فوجی دن رات کے جبر اور مسلسل ظلم کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچل نہیں سکے؟کیا اب بھی کوئی شبہ باقی ہے کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھا جاسکتا ہے؟اس بات میں بھی رتی برابر شُبہ نہیں ہونا چاہیے کہ معصوم لوگوں کے سینے چھلنی کرکے، اُن کے چہرے پیلٹ گولیوں سے مسخ کرکے اور گلیوں میں کھیلتے بچوں کو نابینا اور معذور کرکے کشمیریوں کی تحریک کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اب سامنے کی حقیقت ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اُن کے اُس پیدائشی حق سے مزید زیادہ عرصہ تک محروم نہیں رکھ سکتا، جس کا وعدہ خود بھارتی قیادت کے پرکھوں نے چھ سات دہائی پہلے اقوام عالم کے سامنے کیا تھا اور جس کی ضمانت ساری عالمی برادری نے دی تھی۔ 
نریندر مودی ایک جانب پاکستان کو غربت ختم کرنے اور عوامی فلاح کے منصوبوں میں مقابلہ کرنے کا چیلنج دیتے ہیں تو دوسری جانب کشمیر اور ایل او سی پر آگ اور بارود کے کھیل سے باز نہیں آتے۔ نریندر مودی نفرتیں بو کر محبت کی فصل کاشت کرنے کی خواہش کس طرح کرسکتے ہیں؟نریندر مودی لاشوں کے انبار لگاکر امن کا راگ کیسے الاپ سکتے ہیں؟ دوسروں کے گھر میں آگ لگاکر اپنے گھر میں امن اور سکون کی نیند سونے کی تمنا رکھنے والے جہالت اور خوش فہمی کے سب سے نچلے درجے پر جمے رہتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم اگر واقعی حقیقت میں خطے سے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو علاقے کو جنگ کا ایندھن بنانے اور بارود کی فصل بونے کی بجائے بھارت کو کشمیریوں کو اُن کے حقوق لوٹانا ہوں گے۔عوام کا معیار زندگی بلند کرنے اور خطے کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے نریندر مودی کو بیسویں صدی کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا چہ جائیکہ بھارتی قیادت قبل مسیح کی سوچ سے ہی باہر آنے کو تیار نہ ہو۔اگر حقیقی معنوں میں عوام میں تبدیلی لانے کے لیے جدوجہد کرنی ہے تو مودی جان لیں کہ یہ کام بارود ، آگ اور خون کے ذریعے ممکن نہیں۔کوئی ہے جو مودی کو یہ بھی سمجھائے کہ پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو دھونس، دھمکی اور گیدڑ بھبکیوں سے خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا۔کیا نریندر مودی نہیں جانتے کہ معاشروں میں مثبت تبدیلی اور اور ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے فروغ کیلئے قول و فعل کو ایک جیسا رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کیا مودی کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ تضاد معاشرے اور ملکوں میں بہتری کی ہر خواہش کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ 
قارئین کرام!!تضادات بلکہ کھلے تضادات کی شکار صرف بھارتی حکمران قیادت ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے تضادات کی شکار پاکستان میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف بھی ہے، جس نے کشمیر کے معاملے پر بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اپنوں کو ہی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی انگلیاں اٹھانے کا موقع دیا۔اپوزیشن کیلئے پاناما لیکس کا معاملہ یقینا بہت بڑا معاملہ ہوگا، لیکن یہ معاملہ پاکستان سے بڑا ہرگز نہیں۔سیاستدان سیاست توزندگی بھر کرتا ہے۔ داؤ بھی کھیلتا ہے، چالیں بھی چلتا ہے اور بساط بھی اپنی مرضی کے مطابق بچھانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن کچھ معاملات سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اِنہی معاملات میں ایک معاملہ پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر عمران خان کشمیر کے معاملے پر بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرلیتے تو اس سے تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں پر اخلاقی برتری حاصل ہوجاتی اور مشترکہ اجلاس ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کا پاناما کیس پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجاتا۔ عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے کہیں وہی غلطی تو نہیں کی جو نریندر مودی نے بھارت میں کی ہے؟ کیا عمران خان کو معلوم نہیں کہ مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے معاملے پر تحریک انصاف کے اندر نظر آنے والی تقسیم پارٹی میں پہلے سے موجود گروہ بندی کو مزید مضبوط کردے گی۔آنے والے دنوں میں عمران خان سے یہ سوال بار بار پوچھا جائے گا تو عمران خان کس کس کو بائیکاٹ کا سبب بتائیں گے؟ مانا کہ عمران خان حکومت سے خفا تھے، لیکن کشمیریوں سے اُن کی کیسی ناراضگی؟ کیا بائیکاٹ کا سبب یہ تھا کہ کشمیریوں نے عمران خان کو ووٹ کیوںنہیں دیے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں