کوئٹہ پھر لہو لہو!

کوئٹہ پھر لہو میں نہا گیا، درندگی کا نشانہ اِس مرتبہ پولیس کا تربیتی مرکز بنا جو کوئٹہ شہر سے 15کلومیٹر باہر ڈھائی سو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے عام شہریوں، عدلیہ، اسپتالوں اور وکلاء کے بعد اِس بار لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی تربیت حاصل کرنے والے پولیس جوانوں کو نشانہ بنایا۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب پونے دس بجے کے قریب دہشت گرد تربیتی مرکز پر حملہ آور ہوئے، پہلا حملہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقبی علاقے میں واقع واچ ٹاور پر کیا گیا جہاں موجود پولیس اہلکار نے حملہ آوروں کا بھرپور مقابلہ کیا لیکن جب وہ شہید ہوگیا تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر کالج کے اندر داخل ہوگئے اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی، دو دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، جس کے نتیجے میں پولیس جوانوں کی شہادتیں ہوئیں۔ سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں باقی دہشت گردوں کو ہلاک کرکے تربیتی مرکز کو کلیئر تو کرالیا گیا، لیکن 60 کے لگ بھگ زیرتربیت پولیس جوانوں کے لاشے اٹھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ سوال بھی اُٹھا ہے کہ آخر دہشت گردوں کو بلوچستان سے کیا بیر ہے؟ دہشت گردی کے اِس واقعہ سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد انتہائی تربیت یافتہ تھے، لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد کوئٹہ کی مانگ خون سے تر کرکے آخر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ 
اگر بنظر غائر بھی دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد بلوچستان کا امن تباہ کرکے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ گوادر بندرگاہ فعال ہو اور نہ ہی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔گوادر بندرگاہ کا کنٹریکٹ پہلے سنگاپور کو دیا گیا تھا لیکن سنگاپور کا اس منصوبے میں صرف کمرشل مفاد تھا، جس کے بعد اِس کا کنٹریکٹ چین کو ملا، چین اس بندرگاہ سے خود فائدہ اٹھانے میں تو دلچسپی رکھتا ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خطے کو بھی خوشحال دیکھنے کا متمنی ہے، اس کے برعکس پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو خدشہ یہ ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سے چین کے مفادات صرف معاشی نہیں ہیں حالانکہ بھارت کے دبا ؤ پر جب سری لنکا نے چین کو اپنی بندرگاہ استعمال کرنے سے روکا تو چین کے پاس بحیرہ عرب میں گوادر کی بندرگاہ پر سرگرمیاں تیز کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ چین گوادر کے حوالے سے ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اس طرح کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے چین کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ زر مبادلہ بھی موجود ہے۔ چین کے پاس انفراسٹرکچر کے شعبے میں سب سے اعلیٰ پائے کی تکنیکی مہارت ہے۔یہ بھی حقیقت ہے اور دنیا بھی اس سے بخوبی آگاہ ہے کہ چین جب کوئی منصوبہ شروع کرتا ہے تو پھر حقیقی انداز میں شروع کرتا ہے۔ چین کے منصوبوں میں سیاسی معاملات اتنے نہیں ہوتے، جتنے معاشی اور کاروباری معاملات شامل ہوتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ اور سی پیک منصوبے میں بھی صورتحال اسی نوعیت کی ہے، اس منصوبے پر عمل درآمد میں چیلنجز کی نوعیت مقامی ہے کہ پاکستان کس حد تک سیکورٹی حالات تبدیل کر سکتا ہے تاکہ انفراسٹرکچر پر ہونے والی سرمایہ کاری محفوظ رہے،لیکن چونکہ معاشی بہتری آنے سے علاقائی سیکورٹی بھی بہتری آنا یقینی ہوتی ہے، تو یہی وجہ ہے کہ دشمن پہلے سے ہی خطے میں نفرت کے ایسے بیج بو دینا چاہتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ان بیجوں سے پک کر تیار ہونے والی نفرت کی فصل چین اور خطے کی خوشحالی کے راستے کی بڑی دیوار بن کر سامنے آجائے۔
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ گوادر سے اِس وقت تجارت نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی سبھی آگاہ ہیں کہ اگلے برس یہ بندرگاہ مکمل طور پر فعال ہو جائے گی،جس کے بعد اندازہ لگایا جارہا ہے کہ 2017ء میں فعال ہونے کے پہلے ہی سال میں گوادر بندرگاہ سے دس لاکھ ٹن کارگو گزرے گا۔گوادر بندرگاہ کو46 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کا ''دل‘‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس بندرگاہ کے مکمل ہونے سے چین کیلئے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ تک رسائی آسان ہو جائے گی، اس لیے چین اس بندرگاہ کو علاقائی تجارت کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں گوادر پر آنے والے سامان کی اکثریت گوادر شہر کی تعمیر کے لیے سازوسامان پر مشتمل ہو گی، گوادر شہر دبئی کا نعم البدل بن کر سامنے آئے گا، گوادر سے برآمدات کی اکثریت سمندری خوراک کی ہوگی، اس مقصد کے لیے ایک جدید پراسیسنگ پلانٹ کا منصوبہ بھی بنایاگیا ہے، مچھلی کی برآمدات کی ساری پراسیسنگ گوادر میں ہو گی تاکہ مقامی آبادی کو فائدہ پہنچ سکے۔ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ بلوچستان کو گوادر کی بندرگاہ سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو صوبائی خودمختاری مل چکی ہے، پورے خطے میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جس کے آئین میں اتنی صوبائی خودمختاری دی گئی ہو، پاکستان کی خواہش ہے کہ اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ یقینا اس منصوبے سے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان کے لئے اہم یہ ہے کہ یہ بندرگاہ زیادہ سے زیادہ استعمال ہو تاکہ اس سے روزگار کے زیادہ مواقع نکلیں، لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے تو گوادر کے گن گانے کے باوجود فی الحال پاکستانیوں کی اکثریت کی نظروں میں گوادر کی اہمیت بھی گھر کی اُس مرغی سے زیادہ نہیں، حالانکہ اِس ''مرغی‘‘ کو ساٹھ برس قبل دس ملین ڈالر میں مسقط سے خریدا گیا تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال گھر کی اس مرغی کو ہم دال برابر ہی سمجھتے ہیں، لیکن دنیا جانتی ہے کہ ہماری یہ مرغی کوئی عام مرغی نہیں ہے بلکہ یہ تو ہر روز سونے (بلکہ نایاب ہیرے) کے انڈے دینے والی مرغی ہے، یہی وجہ ہے کہ دشمن چاہتا ہے کہ وہ اس مرغی کو انڈے دینے کے قابل ہونے سے پہلے ہی ''ٹھکانے‘‘ لگادے۔
قارئین کرام! دشمن اپنے اِن مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ہر حد تک جانے پر تلا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی دہشت گرد بچوں کو نشانہ بناتے ہیں، کبھی مسیحاؤں کے گلے کاٹتے ہیں، کبھی وکلاء کا لہو بہاتے ہیں اور کبھی سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں سے لہو کا خراج مانگتے ہیں۔دشمن کو پاکستان کے ذریعے خطے کی خوشحالی گوارا نہیں ہے، اسی لیے ایک جانب بھارت نے کشمیر میں خاک و خون کا کھیل شروع کررکھا ہے تو دوسری جانب افغانستان کے راستے سے پاکستان کی مغربی سرحدوں سے دراندازی کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ سے ملحقہ علاقوں کو مسلسل غیر محفوظ بنانے کی کوشش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ایک کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں کوئٹہ ایک مرتبہ پھر لہو لہو ہے، لیکن دشمن کی تمام تر سازشوں اور چالوں کے باوجودامید رکھنی چاہیے کہ ظلم کی یہ رات قدرے طویل تو ضرور ہے لیکن لامتناہی ہرگز نہیں۔ بلوچستان پولیس کے شہداء کے لہو میں دھل کر وہ روشن صبح ایک دن ضرور طلوع ہوگی، جو اس قوم کی خوش حالی کی اصل ضامن ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں