سموگ پر سوگ!

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں‘ چند برس پہلے دسمبر کے آغاز پر دیکھتے ہی دیکھتے دھند نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دسمبر میں دھند یوں تو معمول کی بات سمجھی گئی، لیکن مسئلہ اُس وقت سنگین ہوا، جب اس دھند نے شہریوں کو پہلے سانس کے مسائل سے دوچار کیا اور پھر شہریوں میں جلدی امراض بھی پھیلنے لگے۔ اس دھند سے مرکزی چین کے زیان علاقے سے شمال مشرقی ہربن تک کا علاقہ زیادہ متاثر ہوا۔ حکام نے ''ریڈ الرٹ‘‘ جاری کرتے ہوئے دھند میں گردوغبار اور آلودگی کی آمیزش کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کوئلے سے چلنے والے کارخانوں اور تعمیراتی مقامات سے اٹھنے والے گردغبار سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ حبس اور ہواؤں کی بندش سے اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا،درجہ بندی کی مناسبت سے یہ آلودگی بلند ترین سطح پر تھی، جس نے سانس اور جلد کی بیماریوں کو جنم دیا۔مسئلے پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کے تحت بیجنگ میں تمام سکولوں کو بند کردیا گیا، تعمیراتی کام روک دیا گیا، سڑکوں پر ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد محدود کردی گئی اور کوئلے سے چلنے والی فیکٹریوں کو کام روکنے کا حکم بھی دیا گیا، لیکن اس کے باوجود آلودہ دھند کئی روز تک چھائی رہی۔ کوئلے کا استعمال کرنے والی صنعتوں، گاڑیوں اور مشینوں کے دھوئیں اور تعمیراتی کام کے دوران اُڑنے والی دھول اور مٹی فضا میں آلودگی کو خطرناک حد تک بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔اس سے قبل چینی حکام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکنے سے متعلق سخت اہداف سے اجتناب کر تے رہے تھے، تاہم جب معاملہ سنگین ہوا تواندازہ ہوا کہ اُنہیں کوئلے سے حاصل ہونے والے
ایندھن پر انحصار کو ختم کرنا ہوگا۔یہ پہلا موقع تھا جب چین میں صنعتی شعبے میں کوئلے پر انحصار ختم کرنے کی جانب باقاعدہ پیشرفت ہوئی۔ اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ چینی حکام کو ایک بار جب احساس ہوگیا کہ معاملہ سنگین اور خطرناک ہوچکا ہے تو پھرانہوں نے پیچھے مڑ کر نفع نقصان نہیں دیکھا اور حیرت انگیز طور پر دنیا میں سب سے زیادہ اکیس ٹریلین کی جی ڈی پی رکھنے والے ملک نے آلودگی کے خاتمے کیلئے قرض لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔اس سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے چین کو بیجنگ اور اس کے اطراف میں فضائی آلودگی کی خطرناک سطح پر قابو پانے کے لیے 300 ملین ڈالر کا قرضہ فراہم کیا تو دوسری جانب اِسی پراجیکٹ میں جرمنی کے بینک ''کے ایف ڈبلیوڈیویلپمنٹ بینک‘‘ کی 150 ملین یورو کی مدد بھی شامل تھی۔ اب اس قرض اور مدد کے ذریعے بیجنگ میں فضائی آلودگی کی سطح کم کرنے اور لوگوں کی صحت اور پائیدار ترقی کا عمل برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
ایک طرف تو چین ہے اور دوسری جانب پاکستان ہے، جہاں پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند عموما دسمبر کے وسط میں شروع ہوکر جنوری تک رہتی ہے، لیکن اس مرتبہ اکتوبر کے اختتام اور نومبر کے آغاز پر ہی پنجاب کے میدانی علاقوں کو دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، دھند بھی وہ کہ جس میں دھواں، گرد اور آلودگی شامل تھے۔ خطرناک گیسوں کے دھند میں شامل ہونے پر اِس دھند کو ''سموگ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سموگ نے شہریوں میں ناک، کان اور گلے کے علاوہ جلدی امرض کو بھی جنم دیا۔ حکومت اور انتظامیہ گردن اور سرجھکائے دھند چھٹنے کا انتظار کرتی رہیںتو کئی دن گزرنے کے بعد ایک درخواست پر عدالت عالیہ نے نوٹس لیا۔ سیکرٹری ماحولیات کی جانب سے عدالت میں موقف اختیار کیا گیا کہ بھارت کی ریاست ہریانہ میں چاول کی فصل کے فضلے پرالی کو آگ لگائی گئی جس کا دھواں پاکستانی پنجاب میں دھند میں شامل ہوکرسموگ کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ بالکل عجیب ہی نہیں بلکہ عجیب و غریب موقف تھا جو وزارت ماحولیات کی جانب سے عدالت عالیہ میں اختیار کیا گیا، اس موقف کے ذریعے ایک طرح سے عدالت کو ''گمراہ‘‘ کرنے کی کوشش بھی کی گئی، جس پر لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کے مختلف شہروں میں سموگ اور فضائی آلودگی کے معاملے پر متعلقہ حکومتی اداروں سے جامع اور تفصیلی جواب مانگ لیاہے۔
ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے اب یہ کون نہیں جانتا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کٹائی کے بعد فصلوں کی خشک باقیات کو آگ دکھائی گئی ہو بلکہ گندم، کپاس ، دھان اور اسی طرح کی دیگر فصلوں کی کٹائی کے بعدزمین کے اوپر باقی رہ جانے والی خشک ٹہنیوں ، چھال اور فضلے کو آگ لگاکر تلف کرنے کا عمل اِس خطے میں ہزاروں برس سے جاری ہے۔ اگلی فصل کی بوائی کیلئے یہ عمل اتنا ہی ناگزیر تصور کیا جاتا ہے، جتنا زندگی کیلئے سانس لینا لازمی سمجھا جاتا ہے۔فصلوں کو جلانے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے ، ممکن ہے کہ وہ ماحولیات کیلئے معمولی سا ''نقصان دہ‘‘ بھی ہو لیکن دیہات میں رہنے اور زراعت پیشہ بزرگوں سے پوچھ لیں تو وہ بتاتے ہیں کہ فصلوں کی باقیات اورفضلے کو جلانے سے ناصرف فضا سے کثافتوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ایسے اجزا بھی ختم ہوجاتے ہیں جو بارشیں برسنے کے راستے میں رکاوٹ ہوتے ہیں بلکہ اس طرح دیگر فصلوں کیلئے کرم کش دوا کا کام بھی ہوجاتا ہے۔ فصلوں کی باقیات جلانے سے دی جانے والی ''دھونی‘‘ سے سینکڑوں امراض کا موجب بننے والا مچھر ختم ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مویشی بھی بہت سی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔
اب یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس اپنے صوبے کی ''حدود‘‘ میں واقعہ علاقوں میں زرعی رقبے، کاشت، کرم کش ادویہ کے استعمال اور اس سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کے کوئی اعدادوشمار ہی نہیں ہیںاور بلا سوچے سمجھے سموگ کا مدعا فصلوں کے جلائے جانے والے فضلے پر ڈال دیا گیا۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس سلسلے میں بھی تھوڑی سی تحقیق کرلی جاتی کہ کہیں تعمیراتی کاموں کے دوران پیدا ہونے والی گرد اور کوئلے سے چلنے والی فیکٹریوں کا دھواں تو موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سموگ پیدا کرنے کا باعث نہیں بن رہے؟لیکن مسئلہ تو یہ ہے اس سلسلے میں بھی اداروں کے پاس نہ کوئی اعدادوشمار ہیں نہ میکنزم ہے اور نہ ہی باقاعدہ تحقیق کا کوئی ادارہ موجود ہے۔اب سموگ کا مدعا کسی نہ کسی پر تو ڈالنا تھا ناں! تو زراعت ہی سہی جو پہلے ہی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔
دوسری جانب سموگ اور فضائی آلودگی کی وجہ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں شہری متاثر ہوئے تو ذمہ دار ادار وں نے کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کی بجائے نجومیوں کی طرح پیش گوئیاں کرنی شروع کردیں کہ یہ صورتحال فلاں وقت تک رہے گی اور جب تک فلاں کام نہیں ہوگا تو یہ دھند برقرار رہے گی۔ بندہ پوچھے کہ یہ ''فلاں‘‘ کام کس نے کرنا ہے تو جواب ملتا ہے کہ بھلا بارش پر کس کا زور ہے، یہ کام تو قدرت نے ہی کرنا ہے۔ اس کے برعکس چین کی طرح نئی دہلی میں بھی یہی صورتحال پیش آئی تو ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے کا سوچا گیا، جس میں مصنوعی بارش برسا کر آلودہ دھند کا فوری خاتمہ سرفہرست تھا، لیکن جہاں سموگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی بجائے ذمہ دار ادارے اور حکام بھارت کی جانب سے آنے والی ''آلودہ ہوا‘‘کو دوش دینا شروع کردیں تو وہاں بھلائی کی امید لگانے کی بجائے سموگ جیسی عفریت پر سوگ ہی منایا جاسکتا ہے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں