پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں!

14 جون 1946ء کو نیویارک کی ایک مالدار کاروباری شخصیت کے گھر پیدا ہونے والابچہ ''جمائکا اسٹیٹس‘‘ کے امیر ترین مضافات میں پلا بڑھا ۔ یہ بچہ شروع دن سے ہی تیز اور اکھڑ مزاج تھا۔ علاقے میں دوسرے بچوں کی تضحیک کرنا، مختلف ناموں سے پکارنا،لڑنا بھڑنا اور دھینگا مشتی کرنا اُس کی عادت تھی۔ 13 برس کی عمر میں کمرے سے چاقو نکلا تو والد اُسے نیویارک ملٹری اکیڈمی میں چھوڑ آئے، جہاں اُس نے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طلبہ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا، تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے والد سے قرض لے کر ذاتی کاروبار شروع کیااور پھرخاندانی کمپنی کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کام کو آگے بڑھایا تو پھر اُس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اُس نے ہوٹلوں، کسینو اور تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے کامیابی اور ملک گیر شہرت حاصل کرنا شروع کی، جس کے بعد اُس نے اپنے خاندانی نام پر ایک 58 منزلہ کاروباری و رہائشی مینار (ٹاور) تعمیر کیا، جس کی 18 ویں منزل سے انسانی ہاتھ سے بنائی گئی دنیا کی سب سے بلند مصنوعی آبشارکا پانی نیچے گرتا ہے تو گلابی رنگ سے مزین ٹاور کی دیواریں دنیا کا سب سے بڑا کینوس محسوس ہونے لگتی ہیں، دنیا بھر سے سیاح اِس ٹاور کو دیکھنے آتے ہیں اورٹاور بنانے والے کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ اُس نے امریکہ میں ناصرف شاندار پلازے اور کیسل بنائے بلکہ اربوں ڈالر کی لاگت سے اپنے نام پر ''تاج محل‘‘ بھی کھڑا کردیا۔کاروباری دنیا میں آنے کے بعد اُس پر دولت کی ایسی بارش ہونا شروع ہوئی جو نصف صدی بعد بھی نہیں تھمی اور یوں آج اُس کے اثاثوں کی مالیت اربوں ڈالر ہوچکی ہے۔امریکہ کا یہ امیر اور کامیاب کاروباری شخص کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ کا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں تو پہلی مرتبہ 1987ء میں امریکہ کا صدارتی انتخاب لڑنے میں دلچسپی ظاہر کی، لیکن پھر سال 2000ء میں ریفارم پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے میں بھی ناکام رہے،مگر 2008ء میں ٹرمپ ایک بار پھر اُس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انہوں نے ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار بارک حسین اوباما کی جائے پیدائش امریکا کے بجائے کینیا کو قرار دے دیا۔اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کی دنیا میں نئی جہتیں متعارف کراکر شہرت حاصل کی، لیکن ٹرمپ کو سب سے زیادہ شہرت امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر ہی ملی۔ٹی وی سٹار، رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور سیاسی میدان میں نووارد ڈونلڈ ٹرمپ نے جب گزشتہ سال صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا تو ان کا شدید مذاق اڑایا گیا، پے در پے اسکینڈلوں، متنازع اور نفرت انگیز بیانات بھی ٹرمپ کی انتخابی مہم پر پوری طرح چھائے رہے۔ اپنی بھرپور، جارحانہ اور کسی قدر متشدد انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ایک نسل پرست اور مسلم دشمن سیاستدان کے روپ میں بھی سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی کو امریکی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تصور کیا جارہا ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح دنیا کیلئے اتنا بڑا دھچکا تھا کہ یورپی ممالک کے بازارِ حصص شدید متاثر ہوئے۔ لندن کی اسٹاک مارکیٹ میں ایک اعشاریہ چار فیصد کمی دیکھنے میں آئی،دیگر یورپی مارکیٹوں میں کمی کے بعد سرمایہ کار اپنا سرمایہ محفوظ اسٹاکس میں لگاتے ہوئے نظر آئے۔ فرانس کا کاکس اور جرمنی کا ڈیکس انڈیکس خسارے میں چلا گیا۔ ایشیائی حصص بازار میں ہلچل نظر آئی ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا کے حصص بازار گراوٹ نظر آئی اور کرنسی کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ میکسیکو کے پیسو کی قیمت میں کمی آئی ہے تو جاپان کی کرنسی ین کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ۔جاپان اسٹاک ایکسچینج ، ہانگ کانگ کے بازار ہان سینگ، شنگھائی کمپوزٹ، آسٹریلیا کے بازار اے ایس ایکس، جنوبی کوریا کے بازار کوپسی اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے حصص میں بھی گراوٹ دیکھی گئی۔ یہ سب کچھ کاروباری دنیا کیلئے اس لحاظ سے خطرے کی علامت تصور کیا گیا کیونکہ امریکہ کا حالیہ صدارتی انتخاب امریکی تاریخ کا سب سے غیر معمولی انتخاب اور اسے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بغاوت بھی سمجھا گیا۔پڑی پڑی زنگ آلود ہونے والی بڑی بڑی فیکٹریوںوالے علاقوں کے لوگ وائٹ ہاؤس میں ایک سیاستدان کے بجائے کاروباری شخص کو دیکھنا چاہتے تھے تاکہ فیکٹریوں کا پہیہ چلے اور ان کی معاشی مشکلات کا خاتمہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعدماہرین کے مطابق جو اہم سوالات ٹرمپ کے سامنے ہوں گے، وہ یہ ہیں کہ کیا ٹرمپ مارکیٹ کو مستحکم کر سکیں گے؟ کہیں ٹرمپ انتظامیہ موجودہ تجارتی معاہدوں کو ختم تو نہیں کردے گی؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ فیڈرل ریزرو کی آزادی کو کم کردیں گے؟ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی پیداوار میں کس طرح اضافہ کریں گے اور یہ کہ ٹرمپ موجودہ کانگریس کے ساتھ کیسے کام کریں گے؟اپنے پالیسیوں کا ایک ہلکا سا خاکہ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی کا اعلان ہوتے ہی نیویارک میں اپنے حامیوں سے پہلے خطاب میں کردیا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس خطاب میں ایک بالکل مختلف اور ''نیا‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ دکھائی دیا، جو امریکیوں کو ایک قوم بننے کی تاکید کرتا اور اچھے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنے کا اعلان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ٹرمپ نے مقابلہ بازی کی جگہ شراکت داری کا بھی اعلان کیا جو ایک اچھے کاروباری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کو تحریک کانام دیتے ہوئے ٹرمپ نے امریکہ کو پھر سے عظیم ملک بنانے کا دلکش نعرہ دیاتھا اور انتخابات میں یہ نعرہ خوب بکا۔
ہیلری کی شکست نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خوف کی لہر دوڑادی تھی، لیکن چونکہ انتخابی مہم ختم ہوچکی تو اب ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی ویب سائٹ سے ناصرف مسلمان اور اسلام مخالف بیانات ہٹادیے گئے ہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں تو ٹرمپ نے براہ راست ''آئی لو یو پاکستان‘‘ تک بول دیا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کی صورت میں تو پاکستان کو پہلے ہی کاروباری پس منظر رکھنے والا حکمران میسر ہے،اور اب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صورت میں جب دو کامیاب کاروباری پس منظر رکھنے والے حکمران مل بیٹھیں گے تو یقینا دونوں ملکوں کی خوب گزرے گی!چونکہ کامیاب کاروباری لوگ ہمیشہ مقابلے بازی کی بجائے شراکت داری پر یقین رکھتے ہیںاس لیے پاکستان اور پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں!

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں