مسٹر مودی مرد بنو!

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو پہنچنے والے مالی و جانی نقصان کا صحیح طریقے سے اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، بالخصوص گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں عمارتوں کو نقصان پہنچا، نیٹو کنٹینرز نے ہمارا زمینی مواصلاتی نظام برباد کرکے رکھ دیا، اداروںکے ادارے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، مہنگائی بڑھی توملوں اور فیکٹریوں میں مزدور کی محنت اور معاوضے پربھی اس کا اثر پڑا۔ توجہ نہ ملنے سے دشمن نے ہمارے دریائی پانی کا بڑا حصہ چُرالیا اور زراعت تباہ ہوکر رہ گئی،جس کے سبب زمین بنجر، کھیت سُونے اور کھلیان ویران ہونے لگے۔سب کو اپنی اپنی پڑی تو یگانگت، اتحاد، پیار ،محبت، اخوت ،برداشت اور رواداری کے سنہری اصولوں پر قائم ہمارے معاشرتی نظام کی بنیادیں بھی ہل کر رہ گئیں ۔ ملک زخم زخم ہوا تو پاکستانی بھی لہو لہو دکھائی دینے لگے۔ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے یا کسی نہ کسی گوشے میں بم دھماکہ، خودکش حملہ،ٹارگٹ کلنگ یا فائرنگ کا واقعہ ہوتا اور درجنوں قیمتی جانیں چاٹ جاتا تھا۔ یہ عذاب نہیں تھا تو اور کیا تھا کہ ہم بے حس ہوگئے کہ اس عذاب کو ٹالنے کیلئے کوئی تدبیر کرنے کو بھی تیار نظر نہ آئے، اس آفت سے بچنے کیلئے ہم کوئی راہ نکالنے کو بے تاب تھے اورنہ ہی اس مصیبت سے چھٹکارے کیلئے ہم کوئی قدم اٹھانے کو بے قرار تھے، لیکن پھر جنرل راحیل شریف نے پہلے آپریشن ضرب عضب کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور پھر اے پی ایس کے سانحہ کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل شروع کیا، جس کے نتیجے میں اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو آگئی، لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر رُک نہ سکا، لیکن ایسا بھی بالکل نہیں کہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوسکے گا۔ قوم اور قیادت اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوگئی تو اس لعنت کا خاتمہ بھی ممکن ہوجائے گا۔
اس میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ قوموں پر برا وقت آتا ہے، قومیں آزمائشوں سے گزرتی ہیں، مصائب کا سامنا کرتی ہیں اور ہر طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار بھی رہتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ زندہ قومیں درپیش مشکلات سے نکلنے کیلئے کسی طرح کی قربانی دینے سے انکار بھی نہیں کرتیں۔ اسی طرح کے مشکل، کٹھن اور برے وقت سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان گزر رہا ہے اور پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سے سرِ فہرست اس وقت یقینا دہشت گردی کا عفریت ہے۔اس دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کیلئے پاکستانی قوم نے جتنی ''قربانیاں‘‘ دی ہیں اس کا بھی کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا۔دہشت گردی کا یہ جن پینتالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانوں کا نذرانہ لے چکا ہے،لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا پر بیٹھے خودساختہ ''دانشوران‘‘ پانامہ لیکس کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے نہیں تھکتے اور اسِ طرح دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے ہزاروں پاکستانیوں کا خون بھلا دیتے ہیں!اس لیے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی ہمیں انصاف کے ترازو میں ڈنڈی نہیں مارنی چاہیے۔
انصاف کسی قوم یا ریاست کیلئے کتنا ضروری ہوتا ہے یا یہ کہ کسی حکمران کیلئے منصف مزاج ہونا کتنا لازمی ہوتا ہے؟ اس ضمن میں دو رائے ہوہی نہیں سکتیں۔ یقینا فلاحی معاشروں کی بنیاد انصاف کی اینٹوں سے ہی تعمیر ہوتی ہے۔ جب حکمران انصاف کے ترازو میں ڈنڈی نہیں مارتے تو معاشرے بھی انصاف کی راہ پر چلتے ہوئے نمو پاتے ہیں اور مستقبل کیلئے بیش بہا خزانہ ثابت ہوتے ہیں، لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فلاحی معاشروں نے کامیاب ریاستیں قائم کرنا ہوں تو انصاف کے ساتھ ساتھ دیگر کئی عناصر بھی لازمی ہوجاتے ہیں۔اگر یہ عناصر ناپید ہوں تو قوموں اور ملکوں کا مقدر جلد یا بدیر تاریخ کا 
کوڑا دان ہی ٹھہرتا ہے، ورنہ قومیں عظیم قومیں اور ملک عظیم طاقتوں کی صورت میں ابھرتے ہیں۔یہ اجزا ء کیا ہیں! معاشی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط ہونا، عسکری لحاظ سے ناقابل تسخیر قوت ہونا، اخلاقی لحاظ سے برتر اور آئین وقانون کا پابند ہونااور بروقت فیصلوں میں بے رحم ہوناہی وہ عناصر ہیںجو قوموں کی عمر صدیوں اور ہزاریوں تک بڑھا دیتے ہیںلیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یہ تمام عناصرہمیں چھو کر بھی نہیں گزرے اور حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کہیں انصاف کی رمق دکھائی دیتی ہے نہ کہیں معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ہم عسکریت پسندی کا خاتمہ کرکے اپنی برتری کا کوئی ثبوت دے پارہے ہیں نہ اخلاقی لحاظ سے ہم اعلیٰ اقدار اور روایات کے امین ثابت ہورہے ہیں اور نہ ہی اپنی منزل کے تعین اور منزل تک رسائی کیلئے کوئی فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 
ہم دنیا میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے خواب بھی بہت دیکھتے ہیں اور دعوے بھی بہت کرتے ہیں، لیکن ایک قوم اور ملک کے طور پر ترقی کیلئے جو لوازمات ضروری ہیں، ان کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے ۔ ایک جانب تحریک انصاف کی صورت میں ''حقیقی‘‘ اپوزیشن کہلانے کی دعویدار جماعت صرف انصاف کو ہی ترقی کا اصل راز سمجھتی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت کا بھی باوا آدم ہی نرالہ ہے کہ انصاف ، فیصلہ سازی کی صلاحیت اور اعلیٰ اخلاقی روایات کے بغیرملک کو عظیم،ترقی یافتہ اور طاقت ور بنانے کاخواب دیکھتی ہے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں نادان ہیں، دونوں تاریخ کا یہ سبق بھول جاتے ہیں کہ جب کسی چیز کے اجزائے ترکیبی ہی پورے نہ ہوں تو پھر کہاں کی ترقی اور کہاں کے فلاحی معاشرے؟ جب ایک ترقی یافتہ معاشرے کے اجزائے ترکیبی موجو نہ ہوں یا اجزائے ترکیبی کے حصول کیلئے پالیسی بنانے کی جانب کوئی قدم ہی نہ اٹھایا جارہا ہو تو جدید دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے، ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے اورایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے کا دعویٰ محض ڈرامہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ڈرامہ جس کی تیرہ قسطیں بھی بمشکل سے مکمل ہوپاتی ہیں، ایسے میںبھلا ہزار سال پر حاوی ہونے والا معاشرہ تخلیق کرنے کی آرزو کی آبیاری کہاں سے کی جائے؟
تاریخ کے اوراق ہمارے سامنے بکھرے پڑے ہیں اور تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اگر ایک جانب حکمرانوں کا کردار عوام کو متاثر کرتا ہے تودوسری جانب عوام کی سوچ اور رویے حکمرانوں پر بھی اثر کرتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران بہادری سے فیصلے کریں تو پھر ہمیں بھی بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمیں اپنے اندر جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں برائی کو برائی کہنا ہوگا اور اصل مسئلے کو ہی اصل مسئلہ قرار دینا ہوگا۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ڈراموں سے مسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں نہ ڈراموں سے مسائل ختم کیے جاسکتے ہیں!اگر ہم ایسا کرلیں تو پھر بھارتی وزیراعظم مودی کو جو جواب جنرل راحیل شریف نے دیا تو بالکل اسی طرح کا جواب ہماری سیاسی قیادت بھی بھارت کو دے سکتی تھی کہ مسٹر مودی مرد بنو!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں