رواں برس یہ جون کا مہینہ تھا جب دو سال کے وقفے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف میدان میں آچکے تھے۔ عمران خان نے پاناما لیکس کو بنیاد بناکر حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک احتساب اور ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو بنیاد بناکر ایک مرتبہ پھر تحریک قصاص شروع کردی تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اِسی لیے انہوں نے اپنی تحریک کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے ساتھ نتھی کررکھا تھا۔ اول اول عمران خان پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے ٹی او آرز کے تحت کمیشن کی تشکیل کو تحریک کے خاتمے کی شرط تو قرار دیتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف گلی گلی تحریک چلانے کا اعلان بھی کرچکے تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی احتجاجی تحریکوں کے ساتھ اس مرتبہ قدرے بالغ نظری کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ن نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق ریفرنس قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دفتر میں جمع کرواکر پی ٹی آئی کے ریفرنس کے نہلے پر اپنا دہلا دے مارا۔ یہ ریفرنس مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جس میں عمران خان کی طرف سے ٹیکس چھپانے کے لیے آف شور کمپنی بنانے کے اعتراف، گوشواروں میں اپنے اثاثے چھپانے اور پاکستان میں عمران خان کی جائیداد اور اس پر بننے والا ٹیکس ادا نہ کرنے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس ریفرنس کے بارے میں قانونی رائے لینے کے بعد الیکشن کمیشن کو بھجوادیا،اور عمران خان آج بھی الیکشن کمیشن میں اس ریفرنس کو بھگت رہے ہیں۔
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو صورتحال کو بھانپ لیا اور مختصر جلسے جلوس کرکے واپس چلے گئے، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے برعکس مسلم لیگ کی اِس سیاسی حکمت عملی کے اثرات، نتائج اور مضمرات سمجھے بغیرعمران خان مسلسل احتجاجی سیاست کی جانب راغب تھے۔ دو سال کے دھرنے کے تلخ تجربے کے باوجود عمران خان کنٹینر سیاست کو ہی اپنے سے موزوں سمجھے چلے جارہے تھے، لیکن اس بار تو دھرنے سے کہیں آگے بڑھ کر عمران خان نے اسلام آباد کو ''لاک ڈاؤن‘‘ کرنے کا دھماکی خیز اعلان کردیا تھا۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کی اِن نئی تحریکوں کا انجام کیا ہوگا؟جس کے جواب میں کالم نگار نے کہا تھا کہ تحریک قصاص ناکام ہونے کا ڈاکٹر طاہر القادری کو تو شاید اتنا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ پارلیمنٹ تو کجا کسی یونین کونسل میں بھی اُن کا نمائندہ منتخب نہیں ہوسکا، لیکن پی ٹی آئی ناصرف پارلیمنٹ اور تین صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہے بلکہ کے پی کے میں اُس کی حکومت بھی ہے تو اس تحریک کی ناکامی سے عمران خان کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی کہا تھا کہ اپوزیشن کو پیچھے چھوڑ کر سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ عمران خان کو پھر وہیں لاکھڑا کرے گا، جہاں وہ دو سال پہلے والے دھرنے کی ناکامی کے بعد کھڑے تھے۔ اب خود ہی دیکھ لیجئے کہ پی ٹی آئی کی دو نومبر کے دھرنے اور لاک ڈاؤن کی کال کا انجام کیا ہوا؟ اس احتجاج میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف کو ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے خود ہی اُس پارلیمنٹ میں دوبارہ واپس لوٹنا پڑا، جسے کبھی وہ جعلی اسمبلی کہتے رہے اور کبھی ڈاکووں اور چوروں کی آماج گاہ قرار دیتے رہے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بے ضابطگی، بدعنوانی، چور بازاری اور لوٹ مار کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں اور الزامات لگنے کے بعد مقدمات بھی بنتے رہتے ہیں، لیکن مقدمات بننے کے باوجود آج تک کسی ''اصل‘‘ مجرم کو سزا نہیں مل سکی، جس کی ایک وجہ تو غالبا یہ ہے کہ یہ جدی پشتی چور اپنے پیچھے اپنی چوری کا کوئی ''کھرا‘‘ نہیں چھوڑتے، اور جہاں جہاں کسی چوری کا کھرا ملتا ہے تو وہاں وہاں اِن سکہ بند چوروں نے ہاتھ کی صفائی دکھاکر قانون کی کتابوں میں اپنی اِس واردات کو ''چوری‘‘ ہی نہیں رہنے دیا۔ چوری کی ایسی ہی وارداتوں میں اربوں روپے کے قرضے لے کر کاروبار دیوالیہ ہونے کے نام پر قرضوں کی معافی کی چوری بھی شامل ہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ قرضے معاف کرانے کے بعد یہ لوگ کسی ناں کسی طریقے سے دوبارہ قوم کے سرپر سوار ہونے کی کوشش میں لگے رہتے تاکہ اپنی چوری کے ''کاروبار‘‘ کو مزید وسعت دے سکیں۔ اب کون نہیں جانتا کہ بینکوں کے قرضے کس طرح ملی بھگت اور فراڈ سے معاف کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک جتنے قرض معاف کرائے جاچکے ہیں اس طرح یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا بینکنگ فراڈ بنتا ہے، لیکن اس فراڈ کی تحقیقات کرنے کے راستے میں خود پی ٹی آئی اُس وقت رکاوٹ بن گئی، جب خود کو اصلی اپوزیشن کہنے والی تحریک انصاف نے کرپشن کی تحقیقات اور
بدعنوانی کے خاتمے کیلئے حکومتی ٹی او آرز تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مذاکرات کی میز سے اُٹھ کر سڑکوں پر آگئی۔اس عمل سے قرضے معافی کی فہرست کو بنیاد بناکر احتساب کرنے کے خلاف واویلا مچانے کی اصل ''وجہ‘‘ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔دراصل یہ لوگ جانتے تھے کہ اگر ملک میں ٹارگٹڈ احتساب کا شور مچاکر صرف وزیراعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ نہ کیا گیا تو احتساب کا ایسا طوفان اُٹھے گا، جس میں یہ سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ یہی خوف اِن لوگوں کو خزاں کے موسم میں بھی کہیں ٹکنے نہیں دے رہا تھا اور یہ لوگ بے چین ہوکر کبھی مٹھائیاں بانٹنے کی باتیں کرتے رہے اور کبھی ہر روز حکومت کے آخری دن ہونے کا راگ الاپتے الاپتے رہتے۔
قارئین کرام!! پاناما لیکس کی تحقیقات کے معاملے میں محض وزیراعظم نواز شریف کو رگیدنے کے بہانے پورے کے پورے سسٹم کو تلپٹ کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ کرپشن کے مکمل خاتمے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کسی ایسے میکانزم پر متفق ہوجاتیں، جس کے تحت ناصرف ماضی میں ہونے والی ہر قسم کی کرپشن کی تحقیق ہوجاتی اور مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا بلکہ آئندہ کیلئے بدعنوانی کے راستے بھی بند ہوجاتے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایسا ہوجاتا تو ناصرف ملک میں بدعنوانی کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجاتا، بلکہ پی ٹی آئی کو بار بار سڑکوں اور امپائرسے ''مایوس‘‘ ہوکر واپس پارلیمنٹ بھی نہ لوٹنا پڑتا۔