دو سال پہلے میرٹھ کی ایک ہندو خاتون نے دو مدارس کے علماء پر اجتماعی زیادتی اور جبری مذہب تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا تو مغربی اترپریش سمیت پورے بھارت میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں شروع کیںتو دوران تفتیش اس کیس کے کئی نئے زاویے سامنے آ ئے۔ سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ ریاستی سیاست میں مذہب کو بڑے برے طریقے سے استعمال کیا جارہا تھا۔ ہندو خاتون کی جانب سے دو علماء پر اجتماعی زیادتی اور جبری مذہب تبدیل کرنے کا الزام بھی اسی مذہبی سیاست کا شاخسانہ ثابت ہوا۔ یہ محض ایک کیس نہیں تھا بلکہ مئی 2014ء میں اترپردیش میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ریاست میں ہندو مسلم تصادم کے 600 سے زائد واقعات پیش آئے، جن میں سے 70 فی صد واقعات ان 12 اسمبلی حلقوں یا ان کے اطراف میں ہوئے جہاں نومبر میں خالی نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات ہونے والے تھے۔ تصادم کے 300 کے قریب واقعات مساجد کی تعمیر، توسیع یا قبرستانوں کے اطراف چار دیواری کی تعمیر یا خاردار تار لگانے پر پیش آئے۔ تقریباً 100 واقعات مندروں اور مساجد پر لگائے گئے لاؤڈ اسپیکروں کے سبب ہوئے۔ڈھائی مہینے کے مختصر عرصے میں 600 سے زائد چھوٹے بڑے مذہبی نوعیت کے تصادم ایک سنگین صورت حال کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ دراصل ہوا یہ کہ اتر پردیش میں ضمنی انتخابات سے قبل رائے دہندگان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں صرف بی جے پی ہی شامل نہ تھی بلکہ اترپردیش میں حکمران جماعت سماج وادی پارٹی بھی پیش پیش تھی۔مذہبی نوعیت کے یہ سیاسی تصادم ریاستی انتخابات کی سیاسی بازی گری سے بھی آگے کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
گزشتہ بیس برسوں میں مہاراشٹراور گجرات کی طرح اتر پردیش کی سیاست میں بھی مذہب کی آمیزش نے بھارتی سیاست کو بہت گدلا کردیا ہے، لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو وہ تمام مذہبی اور سیاسی تنظیمیں اور بھی متحرک ہو چکی ہیں جو سیاست میں اپنی براہ راست حصے داری کے لیے طویل عرصے سے کوشاں تھیں۔ اب حال یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، اس کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ مودی کا اقتدار مزید قائم رہا تو اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہوگا، لوگ گجرات میں مسلمانوں اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کے قتل عام بھی بھول جائیں گے!
بھارت کی گزشتہ دو دہائی کی سیاست دیکھیں تو مسلمانوں کی ہمدرد سمجھی جانے والی کانگریس، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی مسلمانوں کی ترقی کے نام پر ایسی سیاست کی کہ جس سے اقلیتوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا ملا۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بھارتی سیاست میں مذہب کی دخل اندازی کے بعد مذاہب کے درمیان کشیدگی میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، مذاہب کے درمیان مذا کرات اور کوئی رابطہ نہ ہونے کے سبب باہمی خلیج اور نفرت کا سلسلہ وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ایک جانب مذہب اور سیاست کی آمیزش نفرت پر مبنی سیاست کو جنم دے رہی ہے تو دوسری جانب ایک ایسی سیاست نمو پا رہی ہے جس میں حریف سیاسی حریف نہیں بلکہ مذہبی دشمن کے طور پر دیکھے جارہے ہیں، یہ ایک ایسی سیاست ہے جس میں قوم پرستی مذہب سے منسوب کی جا رہی ہے۔حالات پہلے بھی اچھے نہ تھے، لیکن بی جے پی نے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی سیاست کا جو حال کردیا ہے، اس میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ بھارت میں موجودہ حکومت کی کارکردگی ایسی ہے کہ کہ اگر اس مرحلے پر انتخابات کر ا دیے جائیں تو شاید بی جے پی کا حشر کانگریس سے بھی برا ہو۔ اس طرح کے تجزیوں کے باوجود بی جے پی جیسی جماعتیں سمجھنے کو تیار نہیں۔
مذہبی سیاست کی وجہ سے بھارت کے ''تشخص‘‘ کو پہنچنے والے نقصانات اور خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے مذہبی سیاست کی وجہ سے ہونے والی شکست و ریخت کو روکنے کی ایک کوشش اپنے حالیہ فیصلے کے ذریعے کی ہے۔ اپنے اس فیصلے کے تحت بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب اور ذات پات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''کوئی بھی سیاست دان ذات پات، عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگ سکتا، انتخابات کو ہمیشہ سیکولر عمل رہنا چاہیے‘‘۔اپنے اکثریتی فیصلے میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے قرار دیا کہ ''اگر کسی سیاست دان نے مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے تو انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا‘‘۔
بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اترپردیش میں ریاستی انتخابات سے پہلے آیا ہے جہاں مذہب اور ذات پات انتخابی مہم کے دوران عام طور پر سب سے اہم حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔اتر پردیش کے علاوہ اسی سال پنجاب، اترکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد اور قانون کی خلاف ورزی کا تعین مشکل ہوگا، لیکن ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ بھارت جہاں بی جے پی اپنے ہندو توا کے ایجنڈے پر ناصرف کئی انتخابات لڑچکی ہے بلکہ اسی ایجنڈے کو بروے کار لاکر بھارتی جنتا پارٹی کئی مرتبہ اقتدار میں بھی آچکی ہے، وہاں اب ہندوتوا کے خطرناک پرچار نے اقلیتوں کا جینا ہی حرام کردیا ہے۔
قارئین کرام!! بھارتی سپریم کورٹ کے اس حالیہ فیصلے سے بھارتی سیاست میں مذہب کا عمل دخل ختم ہوتا ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کو سپریم کورٹ کے حکم سے کوئی نقصان ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یہ سوالات اپنی جگہ سہی لیکن سپریم کورٹ کے حکم سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ بھارت سیکولر ملک نہیں ہے اور یہ کہ اگر کہیں سیکولرازم کی تھوڑی بہت رمق موجود ہے تو اُسے بچانے کی بھی بڑے بھونڈے طریقے سے کوشش ہورہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت جہاں ہندوئوں کی تنگ نظری پہلے ہی اپنی ''مثال‘‘ آپ تھی اور یہی تنگ نظری ستر برس پہلے ہندوستان کی تقسیم کا باعث بھی بنی تھی لیکن ہندوتوا کے مسلسل پرچار کے بعد تو اب بھارت میں اقلیتوں کے امن اور سکون کے ساتھ رہنے کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ بھارت کا اصل چہرہ تو گولڈن ٹمپل (دربار صاحب امرتسر)سے لے کر گجرات کے مسلم کش فسادات تک پھیلے انسانی لہو میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان واقعات کی روشنی میں بھارت میں سیکولرازم کا نعرہ اور سیکولرازم کو بچانے کیلئے کیا جانے والا عدالتی فیصلہ کسی ڈھکوسلے سے کم نہیں!