کیا اس میں بھلا کوئی دو رائے ہوسکتی ہیں کہ ادب اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں اور یہ کہ ادب معاشرے پر اور معاشرہ ادب پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں؟ نامور ادباء کے مطابق ''ایک برا معاشرہ پہلے برے شاعر کو جنم دیتا ہے اورپھر وہ معیار جو ایک مثالی معاشرے کی جان ہوتے ہیں ان میں تنزلی ہوتی چلی جاتی ہے، یوں وہ معیار جو معاشرے کو زہر آلود کرتے ہیں انہیں زندگی ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس طرح معاشرے کے ساتھ ادب کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی، ادب برائے فن ہو یا ادب برائے زندگی ، دونوں کا تعلق بلا واسطہ یا بالواسطہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ دونوں نظریے معاشرے سے جنم لیتے ہیں اور معاشرے ہی کی عکاسی کرتے ہیں‘‘۔بڑے لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ ادیبوں کے فنی شہ پاروں میں معاشرے کی تصویریں چلتی پھرتی اور بولتی دکھائی دیتی ہیں اور ادب چونکہ معاشرے کا عکاس ہوتا ہے ، اس لیے جب معاشرے میں عملی یا فکری تبدیلی آتی ہے تو ادب بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے کارناموں کے سرانجام دیے جانے اور ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کے پیچھے ہمیشہ علم اور اہل علم کا نام آتا رہا ہے۔ اہل دانش خواب دکھاتے ہیں اور پھر ان خوابوں کی تعبیر کیلئے جذبے اور جذبوں کو عملی صورت میں ڈھالنے کیلئے لفظوں کی توانائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ آپ پاکستان کو ہی لے لیں! قیامِ پاکستان بلا شبہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے ساتھیوں کی ان تھک اور شبانہ روز جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہوسکاتھا لیکن کیا اس میں کوئی دو رائے ہوسکتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کا بنیادی خاکہ عالم اسلام اور برصغیر کے عظیم شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے ہی پیش کیا ، اسی لیے مملکت خداداد پاکستان کو علامہ اقبالؒ کا خواب بھی کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور کچھ بعد تک تو شاعر مشرق اور ان کے ساتھیوں کا دیا ہوا جذبہ پاکستانی ادیبوں میں برقرار رہا اور اس دوران اعلیٰ معیار کا ادب بھی تخلیق ہوا اور نامور ادیبوں نے بھی جنم لیا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعد میں یہ جذبہ معدوم ہونا شروع ہوگیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں تو حد ہی ہوگئی کہ معیاری ادب تخلیق ہو سکا اور نہ کوئی بہت بڑا دانشور ، شاعر یا ادیب سامنے آسکا۔ ادب کے نام پر جو غیر معیاری لٹریچر سامنے آتا بھی رہا تو اُس نے بھی قاری پر مثبت اثرات مرتب کرنے کی بجائے قاری کو کتاب سے مزید دور کردیا۔ اس عرصہ کے دوران کوئی نئی سوچ اور فکر بھی پروان نہ چڑھ سکی۔ شدت پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے آسیب نے ملک کو اپنے شکنجے میں جھکڑا تو معاشرے میں انتشار میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور المیہ یہ ہوا کہ پاکستانی ادیب اس ساری صورتِ حال سے لاتعلق رہا۔
ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع سامنے آنے پر قاری کے سامنے تو پوری دنیا کا ادبی دبستان کھل کر سامنے آگیا، لیکن مقامی ادیبوں نے دنیا میں ہونے والی ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنی فکر اور سوچ کو تبدیل کرنا گوارا نہ کیا اور ادب برائے ادب اور شعر برائے شعر تخلیق کرکے سمجھ لیا کہ گویا اُس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے نے بھی مقامی قلم کاروں کو نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ ایسے ادیبوں کی موت پر ہمارے ہاں یہ گلہ تو عام کیا جاتا ہے کہ ''قلمی مزدوروں‘‘ کی موت کی خبر سنگل کالمی بنتی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اُن ادیبوں اور شاعروں نے اپنی آواز کو معاشرے کی آواز کیوں نہ بنایا؟ اُنہوں نے معاشرے میں ہونے والے ظلم و جبر کو محسوس کیوں نہ کیا؟ عوام کے دکھ اور احساسات کو اپنی تخلیقات کے قالب میں کیوں نہیں ڈھالا؟ اور ادب کے نام پر ''ردی لٹریچر‘‘ تحریر کرکے ناموری کی خواہشات کے سانپ سینے میں کیوں پالے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادب اور زبان کی ترقی کا راز باہمی رابطے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں ہے اور اس سلسلے میں دنیا کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے لسانی تجربات کو مقامی ماحول اور حالات کے مطابق ڈھالنا بھی نا گزیر ہے۔ اسی سے زبان و ادب ترقی کرتے ہیں اور جذبات وخیالات کے اظہار کی نئی راہیں سجھائی دیتی ہیں۔ پاکستان جیسے کثیر اللسانی معاشرے میں تو ان تجربات کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ اردو اور دیگر قومی زبانیں شانہ بشانہ ترقی کر سکیں اور ملک کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں اور مختلف اصنافِ ادب میں کیے جانے والے تجربات میں اشتراک پیدا کر کے قوم کو فکری وحدت میں پرویا جا سکے۔
ادب کے معاشرے پر پڑنے والے اِنہی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام اسلام آباد میں چار روزہ عالمی ادبی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں اندرون و بیرون ملک سے نامور ادیبوں اور شاعروں نے ناصرف شرکت کی بلکہ اپنے ملکوں میں ادب میں ہونے والی تخلیقات کے حوالے سے اپنے مقالہ جات بھی پیش کیے۔یہ کانفرنس بلاشبہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کی ذہنی کاوش کا نتیجہ تھی۔ اِسی عالمی ادبی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کامیابیوں کیلئے ایک نہایت خیال آفریں نکتہ پیش کیا۔ وہ نکتہ یہ تھا کہ ''دہشت گردی نے پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا ،اب
آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ضرب قلم کی ضرورت ہے‘‘۔یہ نکتہ درست بھی تو ہے کہ علم و ادب کا زوال قوموں کے زوال کا باعث بنتا ہے اور شعر و ادب کے چشمے خشک ہوجائیں تو فتنے جنم لیتے ہیں کیونکہ امن کے فروغ کے لیے اہل علم و دانش کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ شاندار کانفرنس کو دیکھ کر وزیراعظم نے ایک جانب فنکاروں کی فلاح وبہبود کیلئے قائم کمیٹی سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کی تو اس کے ساتھ ہی ادیبوں اور فنکاروںکی بہبود کے لئے قومی تاریخ و ادبی ورثے کیلئے مزید 50 کروڑ روپے کا بھی اعلان کردیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نئی نسل کے دلوں میں امیدویقین کی شمعیں روشن رکھی جانی چاہئیں اور یہ شمعیں ادیبوں اور شاعروں سے بہتر بھلا کون روشنی رکھ سکتا ہے۔
قارئین کرام!! آج کے ادیب کے کندھوں پر اپنے تخلیقی اظہار میں موجودہ عہد کے مسائل ، خاص طور پر شدت پسندی جیسے مسئلے کا تجزیہ کر نے اور چند بیمار ذہنوں کی شقاوتِ قلبی کا پردہ چاک کرنے کی بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اس مقصد کیلئے ادیب اور شاعر اپنی خیال آفرینی اور نازک خیالی کی وجہ سے زیادہ بہتر طریقے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جہاں ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں پر معاشرے کی جانب سے بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے، وہیں ادیبوں، دانشوروں اور شعراء کو معاشرے میں اُن کا جائز مقام دلوانے کی ذمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ دونوں ذمہ داریاں ادا ہوں گی تو قرینے کا ادب بھی تخلیق ہوگا اور وہ معاشرے پر اثرات بھی مرتب کرے گا۔