پاناما کا کھدو اور اصل مسائل!

کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے کہ خیبر پختونخوا پر کسی آسیب کا سایہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے بالعموم اور گزشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص اس صوبے کے لوگ جس کرب سے گزر رہے ہیں، وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ صرف اہل خیبر پختونخوا ہی جانتے ہیں۔ اس کرب سے نکلنے کیلئے اس صوبے کے عوام نے 1997ء میں مسلم لیگ ن کو منتخب کیا؟ جنرل پرویزمشرف کی بلاشرکت غیر حکومت کے ابتدائی تین سال مکمل ہوئے تو کے پی کے کے لوگوں نے مذہبی حلقوں کو آزمایا اور حکومت متحدہ مجلس عمل کو سونپ دی لیکن اُن کے دکھوں کا مداوا نہ ہوسکا،اور یوں 2008ء کے انتخابات سے پہلے ایم ایم اے خیبر پختونخوا کے لوگوں کے دل سے اتر چکی تھی۔ جمہوریت کی بحالی پر ہونے والے انتخابات میں اس بار پختونوں نے قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی کو آزمایا، لیکن 2013تک پہنچتے پہنچتے باچا خانی سیاست بھی اسی طرح دفن ہوگئی جس طرح بھٹو ازم اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، اسی لیے تبدیلی کی امیدوں کے ساتھ اس بار پختونوں نے پاکستان تحریک انصاف کو آزمایا، لیکن لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کی جیسے قسمت ہی خراب ہے کہ کبھی آرمی پبلک اسکول میں سینکڑوں نونہالان وطن دہشت گردوں کی اندھی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تو کبھی باچا خان یونیورسٹی میں کتابوں اور کتاب پڑھنے والوں کو خون میں نہلایادیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ابھی دہشت گردی کے واقعات میں جسموں کے لوتھڑوں کو ریزہ ریزہ چننے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ اچانک کوئی زلزلہ قیامت صغریٰ برپا کرجاتا ہے۔ کے پی کے کے لوگ زلزلے کی تباہ کاریاں سمیٹتے ہیں توایک کے بعد دوسری قدرتی آفت منتظر نظر آتی ہے۔اور اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ کے پی کے کی حکومت کو پشاور میں بیٹھ کر چلانے کی بجائے بنی گالہ سے براہ راست چلانے جیسی تبدیلی بھی دیکھی جارہی ہے۔
ایک جانب تو کے پی کے ہے تو دوسری جانب سندھ ہے ، جہاں جمہوری ادوار میں لوگوں کو جب بھی موقع ملا تو انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی آزمایا، لیکن گزشتہ سینتالیس برسوں میں پیپلز پارٹی کو سندھ میں متعدد بار حکومت ملنے کے باوجود سندھیوں کے دکھوں کا علاج نہ کرسکی، لیکن اس بار تو حد ہی ہوگئی کہ تھر میں پہلے بھوک پھیلی اور پھر بیماریوں نے آن گھیرا اور جب علاقے میں بیماریاں پھیلیں تو کہیں ڈاکٹرز میسر تھے نہ ہی ادویہ دستیاب تھیں، اِس ساری تکلیف دہ صورتحال میں ایک جانب ''غریب ِشہر‘‘ قدرتی آفات، بیماری اور فاقوں سے مررہا تھا تو دوسری جانب ''امیر شہر‘‘ کو سیاست اور نان ایشوز سے ہی فرصت نہ تھی۔ آج بھی ایک جانب سندھ میں امن و امان کے مسائل پھر سر اٹھارہے ہیں تو دوسری جانب صوبے میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ساری توجہ ایک مرتبہ پھر نان ایشوز پر مرکوز ہے۔ ایک جانب کراچی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لوگوں کا منہ چڑا رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کراچی میں صورتحال بہتر بنانے کی بجائے پنجاب پر قبضے کے بے سروپا نعروں ''جیالوں‘‘ کا لہو گرمانے کی کوششوں میں الجھی نظر آتی ہے۔ ایک جانب تھر کے لوگ امداد کیلئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو پکاررہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کو اپنی پارٹی سربراہ بلاول بھٹو کے پروٹوکول سے ہی فرصت نہیں ہے۔ 
نان ایشوز کی سیاست کرکے اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں کارکردگی کی بنیاد پر سیاست میں آگے بڑھنے کا ایک اور موقع گنوادیا ہے۔ اپوزیشن کی ساری توجہ اب نان ایشوز کو ایشوز بنانے میں صرف ہورہی ہے۔ آف شور کمپنیوں جیسے نان ایشوز میں الجھا کر قوم کی توجہ عوامی مسائل جیسے اہم ایشوز سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آف شور کمپنیوں کو اپوزیشن خود بھی قانونی تسلیم کرتی ہے، لیکن آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی ثابت کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنے پر ''اخلاقیات‘‘ کا راگ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ یقینا معاشروں میں اخلاقیات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن سوال تو یہ 
ہے کہ کیا یہ لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ اخلاقیات کس چیز کا نام ہوتا ہے؟ بلاشبہ مہذب دنیا میں قوانین بناتے وقت قانون کے اخلاقی پہلووں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، تو پھر جب سب اس بات پر متفق ہیں کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتی ہیں تو پھر آف شور کمپنیاں غیر اخلاقی کیسے کہلاسکتی ہیں؟چلیں چند لمحوں کیلئے آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی بھی فرض کرلیتے ہیں،تو کیا کسی پر کوئی الزام لگانے سے پہلے ، اْس کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا اخلاقیات کا یہ تقاضہ نہیں کہ جب بھی الزام لگایا جائے تو مکمل اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ لگایا جائے؟ آف شور کمپنیوں کے معاملے میں یہ ثبوت کوئی چھوٹی موٹی عدالت نہیں بلکہ عدالت عظمی کہہ چکی ہے کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کا نام شامل نہیں ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس پاناما لیکس کا ہنگامہ برپا ہوا تو سندھ کی عدالت عالیہ (سندھ ہائی کورٹ) نے ریمارکس دیے تھے کہ پاناما لیکس میں اگر کہیں وزیراعظم نواز شریف یا ان کی اہلیہ کلثوم نواز کا نام درج ہے تو بتایا جائے تاکہ اُن کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی جاسکے، لیکن عدالتوں کی جانب سے اِس طرح کے سوالات پر تو جیسے سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ 
پہلے بھی یہی کہا تھا کہ ''میڈیا پر پروپیگنڈا مہم کے دوران یقینا لوگوں کی پگڑیاں اُچھالی جاسکتی ہیں، لیکن انصاف کے ایوان ثبوت مانگتے ہیں۔ عدالتیں ثبوتوں، شواہد اور گواہان کی شہادتوں کی روشنی میں ہی فیصلے کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب عدالت اِس طرح کے سوال پوچھتی ہے تو پھر نان ایشوز پر کھیلنے والی اپوزیشن کیلئے میڈیا پر آکر ''قوم سے خطاب‘‘ کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے، ایسے میں اپویشن کے متعلقہ صوبوں میں مختلف مسائل میں الجھے لوگ اُن کی بلا سے بھاڑ میں جائیں‘‘۔ جس بے تکان انداز میں اپوزیشن نے اپنے اپنے صوبے میں عوامی مسائل کو چھوڑ کر پاناما لیکس جیسے نان ایشو کو سب سے بڑا ایشو بنانے کی ناکام کوشش کی ہے، اُس سے زیادہ امکان تو یہی لگتا ہے کہ آف شور کمپنیوں کے اِس ''کھدو‘‘ کو جتنا بھی ''پھرولا‘‘ جائے گا، اُس میں سے ''لیریں‘‘ ہی نکلیں گی۔اب قطری شہزادے کی جانب سے تفصیلی اور دوسرے خط کے بعد یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے کہ پاناما کیس لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
قارئین کرام!! بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اپوزیشن کی ساری جدوجہد نیک نیتی پر مبنی ہے تو پھر بھی جس طرح سے اِس معاملے کو ''مس ہینڈل‘‘ کیا جارہا ہے، اُس سے خدشہ یہی ہے کہ آف شور کمپنیوں پر اپوزیشن کے شور کا نتیجہ بھی کہیں ''بہت شور سنتے تھے، پہلو میں دل کا‘‘والا ہی نہ نکلے۔ پہلے دھاندلی دھاندلی کے شور میں اصل مسائل تلے دبے لوگوں کی چیخیں کہیں بہت نیچے دب کر رہ گئی تھیں اور اب پھر پاناما پاناما کے شور میں لوگوں کے اصل مسائل عدم توجہی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں جائیں تو جائیں کہاں؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں