لاہور سے اگلا پڑاؤ!

اگر کوئی پوچھے کہ جنوبی ایشیا کیا ہے؟ تو سادہ سے الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا اپنے وسائل کے اعتبار اور محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ جنوبی ایشیا کا شمار دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ 1.6 ارب سے زیادہ لوگ اِس خطے میں رہتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ جنوبی ایشیا اگر ایک جانب کئی متضاد ثقافتوں اور متنوع تہذیبوں کا گہوارہ ہے، تو وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ مثال کے طور پر شمال میں ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں، جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں، منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اور انتہائی جنوب میں ناریل کے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگینیوں میں اضافہ کرتا ہے۔جنوبی ایشیا کے شمال میں عظیم سلسلہ کوہ ہمالیہ برف سے ڈھکی عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے۔ سندھ، گنگا اور برہم پترا کے عظیم دریاؤں سے سیراب ہونے والے زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میں دکن کی عظیم سطح مرتفع ہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھ مشرقی گھاٹ اور مغربی گھاٹ نامی دو پہاڑی سلسلے موجود ہیں۔ زمین کی زرخیزی اور قدرتی حسن کے سبب جنوبی ایشیا ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا، اسی لیے اس خطے کی ثقافتوں کے تمام رنگ بھی مختلف اقوام کے ملاپ سے وجود میں آئے۔ تاہم اکثریت میں ہونے کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ثقافت پر اسلام اور ہندو مت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں آنے والی دیگر اقوام کی تشکیل پانے والی حکومتوں نے ہی اس سرزمین کے ماضی کو عظیم بنایا۔ خصوصاً وسط ایشیا کے مغلوں ، پختونوں اور ترکوںنے اس خطے کی ثقافت، مذہب اور روایات پر بہت اثر ڈالا، شاید اِسی لیے اُن عظیم ادوار کی جھلک آج بھی برصغیر کے چپے چپے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مغرب سے آنے والے مسلم فاتحین کے دور حکومت میں یہ علاقہ دنیا بھر میں ''سونے کی چڑیا‘‘ کے طور پر مشہور تھا۔ سونے کی اس چڑیا تک پہنچنے والے فاتحین کا پہلا پڑاؤ ہمیشہ لاہور ہی رہا ۔ اپنے اس پڑاؤ میں جس نے ایک مرتبہ لاہور کا اصل حسن اور حقیقی چہرہ دیکھ لیا تو وہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لاہور کا ہی ہوکر رہ گیا۔ 
لاہور زندہ دلان باشندوں کا لاہور، داتا کی نگری کا لاہور، مساجد کا لاہور، اہم تاریخی واقعات کا امین لاہور اور باغات کا شہر لاہور ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے نشانے پر آگیا ہے۔پیر کے روز ہونے والے خودکش دھماکے نے کئی قیمتی جانوں کو نقصان پہنچایا۔ لاہور میں ہونے والا خودکش دھماکہ اگرچہ پنجاب میں بڑی دیر کے بعد ہوا لیکن یہ دھماکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد مکمل طور پر ختم ہوئے ہیں نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل ختم ہوئی ہے۔ پنجاب پولیس کے دو سینئر ترین افسران نے اِس دھماکے میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ دھماکہ لاہور میں گزشتہ برس مارچ میں گلشن اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے کے بعد شدت پسندی کی سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں 74 افراد مارے گئے تھے۔ اِس دھماکے کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان سے الگ ہونے والے شدت پسند دھڑے جماعت الاحرار نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی، دھماکے کے بعد علاقے کو سیل کر دیا گیا، فارنزک ڈیپارٹمنٹ نے شواہد اکٹھے کر کے تفتیش شروع کر دی اور نامعلوم دہشت گرد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا،نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے بھی بتادیا کہ لاہور میں دہشت گردوں کے حملے کے خطرے کے بارے میں پہلے ہی الرٹ جاری کردیا تھا،پنجاب حکومت نے اِس واقعہ پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ، جس کے بعد منگل کو شہر کی تمام سرکاری عمارتوںپر قومی پرچم سرنگوں رہے، تاجران نے سوگ میں دکانیں اور بازار جبکہ وکلاء نے بار رومز بند رکھے۔وزیراعظم، صدر، وزرائ، اپوزیشن رہنماؤں اور عام سیاستدانوں نے تعزیتی بیانات جاری کردیے اور یوں گویا ہر کسی نے اپنی ذمہ داری ادا کرلی، لیکن سوچنے والی تو یہ ہے کہ کیا اِن سب کی یہی ذمہ داری تھی، جو کچھ انہوں نے گزشتہ دو روز میں کیا؟ یا اس آگے بڑھ کر بھی کچھ کرنا چاہیے تھا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ کوئی بھی جنگ کسی ایک فریق کی جانب سے گھٹنے مکمل ٹیکنے تک ختم نہیں ہوتی۔ اس جنگ میں پاکستان نے اگرچہ بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن دشمن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، کیونکہ دشمن کا آپریٹر چاہے اندر بیٹھا ہے لیکن دشمن خود باہر بیٹھا ہے۔ پاکستان کا یہ دشمن جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کی جانب سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرارہا ہے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ خطے کے نوے فیصد مسائل صرف ایک مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور وہ مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہے۔ اگر محض مسئلہ کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل ہوجائے تو مسائل کی جڑ سے نکلنے والے تنے پر شاخ در شاخ پھیلے باقی تمام مسائل خودبخود ختم ہوجائیں گے۔لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ پاکستان کیخلاف بھارت کی بلواسطہ حکمت عملی اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فروغ دینے سے پورے خطے میں منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔بھارت اس طرح کی چھیڑ خانی کے ذریعے صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
قارئین کرام!! جنوبی ایشیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ و تہذیب اور شاندار ماضی گواہ ہے کہ اس خطے کو مذہبی شدت پسندی، منافرت یا تعصبات کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا، لیکن کیا کیاجائے کہ پڑوسی ملک بھارت جوہری قوت ہونے کے زور پر خطے کو جس مذہبی جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے، خدشہ ہے کہ یہ بھارت کی یہ کوشش کہیں پوری دنیا کو تباہی کے دھانے پر نہ لاکھڑا کرے۔ بلاشبہ سونے کی چڑیا (جنوبی ایشیائ) تک پہنچنے والے حملہ آوروں کا پہلا پڑاؤ ہمیشہ لاہور ہی رہا ، لیکن یہ بھی طے ہے کہ لاہور اِن حملہ آوروں کا عارضی پڑاؤ ہی رہا۔ اِن حملہ آوروں کا اگلا اور دیرپا پڑاؤ ہمیشہ دلی کاپایہ تخت ہی رہا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘ اگر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لاہور کو لہو لہو کرکے سمجھتی ہے کہ وہ محفوظ رہے گے تو یہ ان کی بھول ہے۔لاہور کا لہو اتنا سستا نہیں ہے۔ اب اگر ٹپکا ہے تو جم بھی جائے گا اور اُس وقت تک کھرچا نہیں جاسکے گا، جب تک قاتلوں کو کھرا نہیں مل جاتا۔ باغات کے شہر کو لہو لہو کرنے والوں کا اگلا پڑاؤ لاہور کے بعد اب پرانے برصغیر کے پایہ تخت کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں