ڈھائی ہزار سال پرانا فرض!

راجا پورس کو 326قبل مسیح میںشکست دینے کے بعد سکندر اعظم جہلم سے آگے بڑھا تو سرسبزکھیتوں سے مزین پنجاب کی سرزمین اُس کے سامنے پھیلی تھی۔ مقدونیہ کا عظیم فاتح پنجاب کے دیہات کا نظم و نسق دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ آج سے تقریباً سوا تئیس صدیاں پہلے بھی پنجاب کاہر گاؤں پچیس مربع اراضی پر مشتمل تھا،جن میں سے چوبیس مربعوں پر کاشت کاری ہوتی جبکہ ایک مربع پر آبادی قائم ہواکرتی تھی۔ اُس ایک مربع کے گاؤں میں آبادی کی تقسیم بڑی دلچسپ تھی، زرعی علاقہ ہونے کے ناطے دیہات کی زیادہ تر آبادی زراعت پیشہ تھی لیکن اُس میں کاشتکاروں یا کسانوں کو زندگی کی باقی تمام سہولیات کی فراہمی میں مدد کیلئے ہر گاؤں میں کم از کم ایک بڑھئی خاندان، ایک لوہار، ایک جفت ساز، ایک حجام، ایک رنگ ساز، ایک ماشکی اورایک مَلک خاندان کا ہونا ضروری تھا، علاقے میں علاج معالجے کیلئے ہر گاؤں میں ایک وید (پنسار) بھی موجود ہوتا۔جس کے بعد تاجر طبقہ (ہٹی والا)کی باری آتی تھی جبکہ گاؤں میں باقی تمام لوگ کاشت کاری سے منسلک ہوتے۔ چھوٹے کاشتکار زیادہ تر سبزیاں اگاتے جبکہ بڑے کاشتکاراور کسان گندم، دھان، گنا،کپاس اور مکئی سمیت دیگر فصلیں کاشت کرتے۔ ہندوستان میں''اِستو بینی می‘‘یعنی بارٹرسسٹم رائج تھا اور گندم کا ایک پیالہ دے کر اس کے بدلے میں کوئی بھی چیز خریدی جاسکتی تھی۔ہر گاؤں میں ساہوکار کی صورت میں دنیا کا پہلا ''بینکاری نظام‘‘ بھی موجود تھا، جس سے منافع پر نقد رقم حاصل کرکے ضروریات پوری کی جاسکتی تھیں۔ یہ ہندوستان کے زرعی علاقوں کی تقسیم تھی۔ مخصوص تعداد سے زیادہ لوگوں کو ایک گاؤں میں رہنے کی اجازت نہ تھی اور گاؤں کی آبادی بڑھنے پر نیا گاؤں بسادیا جاتا تھا۔ یہ دراصل ہندوستان میں مردم شماری اور آبادی کے مطابق وسائل کی تقسیم کی ابتدا تھی۔معلوم تاریخ میں موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے قدیمی آثار اور بعد میں بدھ مت کے لٹریچر سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ سات سوسال قبل مسیح میں بھی ہندوستان کی تہذیبی ترقی یورپ کے ازمنہ وسطیٰ کی تہذیبی ترقی سے کہیں زیادہ تھی۔مورخ اس کی واحد وجہ یہاں اعدادوشمار کا باقاعدہ نظام کا ہونا بتاتے ہیں، جس میں افرادی قوت، وسائل اور ان کی تقسیم کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سکندراعظم ہندوستان کی بے مثال ترقی دیکھ کر بھونچکا رہ گیااوراُس نے ہندوستان کا یہ حساب کتاب اور بہی کھاتوں کا نظام اپنے ساتھ یورپ لے جانے کا بھی فیصلہ کرلیالیکن موت نے اُسے اِس کی اجازت نہ دی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سرزمین ہندوستان میں سات ہزار سال پہلے بھی گنجان آباد شہر قائم تھے، جہاں آبادی کا پورا پورا حساب کتاب رکھا جاتا تھا، لیکن ہندوستان کی تاریخ میں پہلی باقاعدہ مردم شماری موریا سلطنت کے وزیراعظم چانکیہ کوٹلیہ نے تین سو سال قبل مسیح میں کرائی۔چانکیہ نے مردم شماری میں آبادی کے ساتھ ساتھ معیشت اور زراعت کے حوالے سے بھی اہم اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ ان اعدادوشمار نے بعد میں چانکیہ کو عوام پر ٹیکس لگانے کیلئے بہترین نظام وضع کرنے میں بڑی مدد دی۔ ہندوستان میں وسیع پیمانے پر اعدادوشمار اکٹھے کرنے کی دوسری کوشش شیر شاہ سوری کے دور میں کی گئی اور مغل بادشاہ اکبراعظم کے دور میں ہندوستان میں آبادی، صنعت و حرفت، خزانے اور دیگر امور پر نئے سرے سے اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے، جن کی تفصیل آئین اکبری میں بڑی وضاحت سے ملتی ہے۔ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں آخری مرتبہ مغلوں نے سلطنت کے حوالے سے مستند اعدادوشمار اکٹھے کیے، لیکن اس کے بعد پونے دو سو سال تک کسی نے مردم شماری کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ برطانوی راج میں ہندوستان میں جدید خطوط پر پہلی مردم شماری 1871ء میں شروع کی گئی، جس کے بعد باقاعدگی سے ہر دس سال بعد مردم شماری کی جاتی رہی۔ انگریز دور میں ہندوستان کی آخری مردم شماری 1941ء میں کی گئی۔ اس روایت کو بھارت نے بھی نہیں توڑا اور بھارت میں ہر دس سال بعد باقاعدگی سے مردم شماری کی روایت برقرار ہے، اس حوالے سے بھارت میں آخری مردم شماری دو سال قبل 2011ء میں کی گئی۔
مردم شماری کسی ملک کیلئے کیوں ضروری ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر گھر میں کسی کو یہی معلوم نہ ہو کہ گھر میں کتنے افراد رہتے ہیں؟ کتنے کماتے ہیں؟ کتنے زیر کفالت ہیں؟ کتنے خود کفیل ہیں ؟ کتنے کھانے والے اور کتنے کمانے والے ہیں تو وہ گھر بھلا کیسے چل سکتا ہے؟ایسا گھر اپنے وسائل میں رہتے ہوئے پڑوسیوں،اہل محلہ اور رشتے داروں سے میل ملاپ کیلئے کوئی( سماجی) پالیسی کیسے بناسکتا ہے؟اگر معاشرے کی بنیادی اکائی (ایک خاندان) ایسے نہیں چل سکتا تو پھر ایک ریاست بھلا اس کے بغیر کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟ اسی لیے تو اقوام متحدہ نے دس سال میں کم از کم ایک مرتبہ مردم شماری ضرور قرار دیا تھا،لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِس حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ کسی صورت تسلی بخش نہیں ہے۔ پاکستانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951میں کی گئی جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی، جس میں دیہی آبادی 2 کروڑ 77 لاکھ اور شہری آبادی 59 لاکھ 85 ہزار تھی، اس مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا کی آبادی 45 لاکھ ، فاٹا کی آبادی 13 لاکھ 32 ہزار، پنجاب کی آبادی 2 کروڑ ، سندھ کی 60 لاکھ اور بلوچستان کی آبادی 11 لاکھ 67 ہزار تھی۔1981تک تو کسی نہ کسی طور ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی رہی، لیکن 1981کے بعد اگلی مردم شماری کرانے کا مرحلہ 17 سال بعد 1998ء میں آیا۔ 1998 ء میں ہونے والی پانچویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ تھی، جس میں دیہی آبادی 8 کروڑ 93 لاکھ اور شہری آبادی 4 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ اس طرح اگلی مردم شماری سال 2008ء میں ہونا تھی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔سوا تین سال پہلے اپنے کالموں میں اِس کالم نگار نے اِنہی الفاظ میں مردم شماری کی اہمیت بیان کی تو چند روز بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور الیکشن کمیشن نے بھی مردم شماری کرانے کے لیے وزیراعظم کوخطوط لکھ دیے، جس پر ایک ماہ بعد وزیراعظم نے بھی مردم شماری کرانے کا حکم دے دیا، لیکن اُس کے بعد پھر وہی قوتیں بہانے بہانے سے آڑے آنے لگیں اور مردم شماری کا اہم ترین فریضہ مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔
قارئین کرام!! آج جب پاکستان میں چھٹی مردم شماری شروع ہورہی ہے تو اِس کالم نگار کے لیے یہ امر اس لیے بھی خوشی اور فخر کا باعث ہے کہ سوا تین سال پہلے ایک کالم میں مردم شماری کی اہمیت یاد دلانے پر اِس معاملے پر سرکار حرکت میں آئی اور آج اہم ترین فریضے کی ادائیگی کا آغاز ہورہا ہے۔ مردم شماری کرانے سے اگرچہ پاکستان میں ایک ڈھائی ہزار سال پرانی روایت کا احیاء ہورہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اس روایت اور فرض کی ادائیگی کا تسلسل مستقبل میں بھی برقرار رہا تو ڈھائی ہزار سال پرانا یہ فرض پاکستان کو ڈھائی سو سال آگے لے جانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
وہ ایک جرم کرنے والا تھا۔ صبح کال آئی۔خاصا پریشان تھا:
''اگر تم نے میری مدد نہیں کی، تومیں مشکل میں پھنس جائوں گا۔‘‘

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں