کہتے ہیں کہ جب قیادت میں حمیت ہو تو قوم بھی بلند مرتبہ ہوتی ہے اور جب قیادت حمیت اور قومی انا کو بھلا بیٹھے تو پھر پستی قوم کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ بھارتی حکمران عدم جارحیت کا معاہدہ کرنے کے لیے سو سو ترلے لینے پر مجبور تھے اور کہاں یہ وقت ہے کہ پاکستان عرصہ دراز سے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کرتا چلا آ رہا ہے لیکن بھارت نے اِسے در خور اعتنا ہی نہیں سمجھتا۔ یہ کوئی بہت پرانا وقت بھی نہیں ہے بلکہ یہ تو قیام پاکستان کے تین سال بعد یعنی 1948ء میں کشمیر پر ہونے والی پہلی پاک بھارت مبارزت کے دو سال بعد کا زمانہ تھا، جب آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے خراب تعلقات مزید تلخ ہو چکے تھے۔ مملکتِ خداداد کی ''شیر خوارگی‘‘ کے اس نازک مرحلے میں بھارت پاکستان کو کئی چرکے لگا چکا تھا، پہلے ہجرت کے دوران لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام، پھر مشرقی کشمیری علاقے پر قبضہ‘ اور پھر متحدہ ہندوستان کے وسائل میں سے پاکستان کے حصہ پر غاصبانہ قبضہ! یہ وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر نہیں تھے۔ دوسری جانب بھارت بغل میں چھری لے کر منہ میں رام رام کرنے سے باز نہیں آ رہا تھا اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف مسلسل زہر اگلنے میں مشغول تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے بھارتی چالوں کا منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کا خیال تھا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا ہے، اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے اُسے بھرپور نفرت ہی ملے گی اور پاکستانی قیادت بھارت کا چہرہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گی۔ غالبا اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارتی جارحانہ رویہ دیکھ کر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لاہور میں کھڑے ہو کر مکا لہرا کر واضح پیغام دینے کی کوشش کی تھی ۔شدید تناؤ کی اس صورتحال میں بھارت نے پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ایک چال چلی اور پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ بھارت کی دعوت دے ڈالی۔
بھارت کا خیال ہی نہیں بلکہ پکا یقین تھا کہ پاکستان کی جانب سے اس دورے کی دعوت کا جواب نفی میں ملے گا‘ اور یوں اُسے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا موقع ملے گا، لیکن بھارت کو اُس وقت شدید دھچکا لگا جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ دعوت قبول کر لی اور آج سے سڑسٹھ سال پہلے 2 اپریل 1950ء کو کھلتی بہار میں دہلی کے ہوائی اڈے پر جا اُترے۔ اِس دورے کے دوران بھارت نے لیاقت علی خان کو چھ دن تک مذاکرات میں الجھا کر اپنی چالوں میں پھنسانے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ اِن مذاکرات میں لیاقت نہرو معاہدہ تو ہو گیا‘ لیکن ابھی اس معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ بھارت نے کشمیر میں پھر گڑبڑ شروع کر دی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات ایک بار پھر خراب ہو گئے، اس کے باوجود تین سال بعد جواہر لال نہرو پاکستان کے دورے پر آئے تو پاکستان نے اُنہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ اِس بار کراچی میں نہرو کے سامنے پاکستانی وزیر اعظم محمد علی بوگرا تھے۔ دہلی میں لیاقت نہرو اور کراچی میں بوگرا نہرو‘ دونوں ملاقاتوں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں بھارتی قیادت کے ایما پر ہوئی تھیں۔ دراصل بھارت پاکستان کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ کرنا چاہتا تھا، جس کا مقصد بالواسطہ طور
پر کشمیر میں جنگ بندی لائن یعنی ایل او سی کو مستقل سرحد تسلیم کرانا تھا‘ لیکن اس کے بعد پاکستان میں مطلق العنانیت کا ایسا دور شروع ہوا کہ حکمرانوں کی قومی انا جاتی رہی، اور قومی حمیت کو چراغ لے کر ڈھونڈنا بھی مشکل ہو گیا۔ ان خصوصیات سے عاری قیادت نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کا خیال نہ رکھا۔ وہ پاکستان کو تیسرے درجے کا ملک بنانے پر ہی تل گئی۔
اب کون نہیں جانتا کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد تاشقند میں ایوب شاستری ملاقات کیسے ہوئی‘ اور اس کی پاکستان کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہ بھلا کسے معلوم نہیں کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جب اندرا گاندھی کی انا ساتویں آسمان پر تھی تو شملہ میں بھٹو اندرا ملاقات کس ماحول میں ہوئی؟ یہ بات بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت پہنچے تو ایئرپورٹ پر راجیو گاندھی اُن کے ساتھ انتہائی بے رُخی سے پیش آئے تھے۔ وہ تو جنرل ضیاء الحق کی دھمکی کام کر گئی، ورنہ سابق صدر کو بھارتی وزیر مہمان داری کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھ کر لوٹنا پڑتا۔ کیا بھلا اِس بات سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی راجیو گاندھی سے ملاقات ہو یا بینظیر کی وی پی سنگھ سے ملاقا ت، دونوں ملاقاتوں میں محترمہ کے چہرے پر تو مسکراہٹ کھیلتی رہی لیکن بھارتی قیادت کے چہرے پر عجیب طرح کی بیزاری کے آثار واضح دیکھے جا سکتے تھے۔ پھر نواز شریف کی چندر شیکھر، نرسمہا راؤ، آئی کے گجرال اور اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ملاقاتوں کی تفصیل جان لیں تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ کچھ اور نہیں تو سابق بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال کی خود نوشت ''صوابدیدی امور‘‘ ہی پڑھ کر دیکھ لیں کہ پاکستانی قیادت بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے کیسے کیسے ''بہانے‘‘ کرتی رہی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے سارک سمٹ میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے جو ڈرامہ رچایا تھا اُسے تو پوری دنیا نے دیکھا تھا۔ شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کرانے کے لیے دفتر خارجہ کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑے تھے، یہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ اب کون نہیں جانتا کہ سارک کانفرنس کئی بار محض اس وجہ سے ملتوی ہوئی کہ بھارتی حکمران پاکستانی قیادت کے ساتھ ہاتھ ملانا نہیں چاہتی تھی؟
قارئین کرام!! ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دو مختلف اقوام میں رابطے اور تعلقات باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں اور قوموں کے درمیان معاہدے بھی بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ باضمیر اور زندہ قوموں کے درمیان تعلقات برابری اور باہمی احترام کے اصولوں پر ہی استوار ہوتے ہیں ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایک باضمیر اور زندہ قوم کے طور پر بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کا اصول مقرر کر لیا جائے۔ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ یکطرفہ طور پر تعلقات بہتر بنانے کی خواہش میں مرے جانے سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب ہم صرف ایٹمی قوت ہی نہیں ہیں بلکہ اب ہمارے پاس سی پیک جیسی ''پلاٹینم طاقت‘‘ بھی ہے، اب ماضی جیسی کمزوریاں دکھانے سے بہتر ہے کہ چپ سادھ کر انتظار کریں۔ یقینا ایک دن آئے گا، جب بھارت کی ساری خرمستیاں خود ہی بے نقاب ہو جائیں گی اور بھارت قیام امن کے لیے ہاتھ ملانے خود ہی دوڑا چلا آئے گا۔